Site icon

نیپال میں مسلمانوں کی اقتصادی اور سماجی حیثیت

نیپال میں مسلمانوں کی اقتصادی اور سماجی حیثیت

از:- ڈاکٹر سلیم انصاری

جھاپا، نیپال

___________________

نیپال میں مسلم کمیونٹی ایک اہم اقلیت ہے، جو نہ صرف اپنی مذہبی شناخت کی بنیاد پر منفرد ہے بلکہ نیپال کے ثقافتی اور سماجی تانے بانے میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ یہ کمیونٹی بنیادی طور پر ترائی کے علاقے میں آباد ہے، جہاں مسلمان مختلف ثقافتی پس منظر، زبانوں اور روایات کے حامل ہیں۔ ترائی نیپال کا ایک وسیع علاقہ ہے جو جغرافیائی طور پر نیپال کے جنوبی حصے میں واقع ہے اور یہاں کی اکثریتی آبادی ہندوستانی ثقافت و روایات سے متاثر ہے۔ مسلمانوں کی یہ کمیونٹی یہاں کی تاریخی اور ثقافتی تبدیلیوں کا حصہ رہی ہے، مگر باوجود اس کے، ان کی سماجی حیثیت میں کئی چیلنجز اور مشکلات موجود ہیں جو ان کے روزمرہ زندگی، معاشی حالت اور سیاسی طاقت کو متاثر کرتی ہیں۔

اگرچہ نیپال میں مسلمانوں کی آبادی قابل ذکر ہے، لیکن ان کی معاشی اور سماجی حیثیت اب بھی دیگر کمیونٹیوں کے مقابلے میں پسماندہ ہے۔ ان کی سیاسی نمائندگی کمزور ہے، اور بہت سے اہم شعبوں میں ان کی آواز سنائی نہیں دیتی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ مسلمانوں کی اجتماعی طور پر وہ حقوق اور مواقع حاصل نہ ہونا ہے جو دیگر اقلیتی گروپوں کو ملے ہیں۔ حکومت اور سیاست میں ان کی غیر موجودگی یا کم نمائندگی نے ان کے لیے کئی مسائل کھڑے کر دیے ہیں جن میں غربت، تعلیمی کمزوری اور بے روزگاری جیسے مسائل شامل ہیں۔ ان مسائل کی بنا پر مسلمان نیپال کی ترقی میں حصہ ڈالنے کے قابل نہیں ہو پاتے، اور ان کے حقوق کا تحفظ بھی ایک چیلنج بن چکا ہے۔

اسی طرح، ترائی کے مسلمان، جو زیادہ تر دیہی علاقوں میں آباد ہیں، ترقی کے بنیادی وسائل سے محروم ہیں۔ ان کے پاس زمین کی کمی ہے، وسائل کی کمیابی ہے، اور ان کے لیے حکومت کی اسکیموں تک رسائی محدود ہے۔ نتیجتاً، مسلمان اپنے معاشی معاملات میں مشکلات کا سامنا کرتے ہیں اور ان کی سماجی حیثیت بھی متاثر ہو رہی ہے۔ سیاسی سطح پر ان کے نمائندے کمزور ہیں، جس کی وجہ سے ان کے حقوق کا دفاع اور معاشی ترقی میں مشکلات پیش آتی ہیں۔

اس مضمون میں ہم نیپال اور ترائی میں مسلمانوں کی موجودہ حالت کو تفصیل سے جانچیں گے اور ان کے معاشی ترقی میں درپیش مختلف چیلنجز کو اجاگر کریں گے۔ یہ مضمون ان مشکلات پر روشنی ڈالے گا جو اس کمیونٹی کو درپیش ہیں اور یہ بھی بیان کرے گا کہ ان مسائل کے حل کے لیے کس طرح کے اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ مسلمان نیپال کی ترقی میں مساوی طور پر شامل ہو سکیں۔

نیپال میں مسلمانوں کی تاریخ

مسلمان صدیوں سے نیپال میں مقیم ہیں، لیکن اس کے باوجود، آج بھی ان میں سے اکثریت بے زمین اور محرومی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ نیپال (وادی) میں مسلمانوں کی آمد کا سلسلہ ساتویں صدی، یعنی لچھاوی دور سے، شروع ہوا۔ 1324ء میں غیاث الدین تغلق نے مدھیش کے علاقے میں سمراون گڑھ کی سلطنت کو فتح کر کے اپنی حکمرانی قائم کی، اور 1349ء میں سلطان شمس الدین نے کچھ عرصے کے لیے کھٹمنڈو پر قبضہ کر لیا تھا۔

نیپال کے ملّا بادشاہوں کے سکّوں پر مسلمان حکمرانوں کے نام درج پائے گئے ہیں، جو اس بات کا عندیہ دیتے ہیں کہ نیپال کسی وقت مسلم شہنشاہوں کے زیر اثر رہا ہوگا۔ تغلق، سید، لودی، اور مغل حکمرانوں نے نیپال کے مختلف علاقوں پر اپنا تسلط قائم کیا۔ 1771ء میں گورکھا بادشاہ پرتھوی نارائن شاہ نے مکوان پور گڑھی پر حملہ کیا۔ اس واقعے کے بعد، مغل بادشاہ شاہ عالم دوم نے پرتھوی نارائن شاہ کے نام ایک فرمان جاری کیا، جس کے تحت انہیں علاقے کی زمینداری کے حقوق اور "بہادر شمشیر جنگ” کا خطاب عطا کیا گیا۔ یہ فرمان فارسی زبان میں سونے کے کاغذ پر تحریر کیا گیا، جو آج بھی نیپال کے ایک عجائب گھر میں محفوظ ہے۔ اس فرمان کے مطابق، مغل بادشاہ نے پرتھوی نارائن شاہ کو ایک زمیندار کے طور پر تسلیم کیا، جس کی ذمہ داری پارسا سے مہوٹاری تک کے علاقے میں محصولات جمع کرنا تھی۔ پرتھوی نارائن شاہ کی مہر پر "مہاراجے پرتھوی نارائن شاہ بہادر شمشیر جنگ” کا لقب درج تھا، جو شاہی خاندان کے تحت 2019ء تک استعمال ہوتا رہا۔

مدھیش، انگریزوں کے نیپال سے جبری الحاق سے قبل، مسلم بادشاہوں اور نوابوں کی حکمرانی میں تھا۔ مدھیش کے حکمرانوں کو ہر سال مغل بادشاہوں اور نوابوں کو خراج کے طور پر چودہ ہاتھ بلند ہاتھی پیش کرنا لازم تھا، اور یہ سلسلہ 1801 تک جاری رہا۔ تاہم، 8 دسمبر 1816 کو انگریزوں نے کوشی سے راپتی تک مدھیش کا علاقہ نیپال کے بادشاہ کو 2 لاکھ روپے کے عوض دے دیا۔ اسی طرح، 1857 کی جنگ آزادی کے دوران، اودھ کے نواب واجد علی شاہ کی اہلیہ بیگم حضرت محل کی قیادت میں ہونے والی بغاوت کو کچلنے میں نیپال نے انگریزوں کی مدد کی۔ اس کے نتیجے میں، یکم نومبر 1860 کو انگریزوں نے راپتی سے مہاکالی تک مدھیش کا علاقہ نیپال کے بادشاہ کو تحفے میں دے دیا۔ یہ علاقہ، جو اس وقت اودھ کے نواب کے ماتحت تھا، موجودہ بانکے، بردیا، کیلالی، اور کنچن پور اضلاع پر مشتمل ہے، اور اسے ‘نیا ملک’ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔

نیپال کی مسلم کمیونٹی کی آبادی

نیپال کی قومی مردم شماری 2021 کے مطابق، ملک کی کل آبادی 29,651,054 افراد پر مشتمل ہے، جن میں سے %5.09 یعنی 1,483,060 افراد مسلمان ہیں۔ یہ تعداد نیپال میں مسلمانوں کو ایک اہم اقلیتی گروہ کے طور پر نمایاں کرتی ہے، جو نہ صرف اپنی ثقافتی انفرادیت رکھتے ہیں بلکہ ملکی سماجی ڈھانچے کا ایک لازمی حصہ بھی ہیں۔ مسلمانوں کی اکثریت ترائی کے علاقے میں آباد ہے، جہاں 20 اضلاع میں ان کی بڑی تعداد موجود ہے۔

مسلمانوں کے آباء و اجداد مختلف ادوار میں جنوبی ایشیا، وسطی ایشیا، اور تبت کے علاقوں سے نیپال آ کر ہندو اور بدھ مت کے پیروکاروں کے ساتھ رہنے لگے۔ آج تقریباً 80 فیصد مسلم کمیونٹی ترائی کے علاقوں میں آباد ہے، جب کہ بقیہ 20 فیصد بنیادی طور پر کھٹمنڈو، گورکھا، اور مغربی پہاڑی علاقوں میں رہائش پذیر ہے۔ مسلمانوں کی قابلِ ذکر آبادی والے اضلاع میں سرلاہی (9.9%)، روتہٹ (%17.2)، بارا (%11.9)، پرسا (%17.3)، مغربی ترائی میں بانکے (%16)، سرہا (%7)، سنسری (%10)، سپتاری (%10)، اور پہاڑی ضلع گورکھا (%13) شامل ہیں۔ یہ اضلاع نہ صرف مسلمانوں کی بڑی تعداد کی موجودگی کے لیے مشہور ہیں بلکہ ان کی ثقافتی اور مذہبی اہمیت بھی اجاگر کرتے ہیں۔ اس کے باوجود، نیپال میں مسلم کمیونٹی کو اپنی شناخت اور حقوق کے تحفظ کے حوالے سے چیلنجز کا سامنا رہتا ہے۔

سیاسی نمائندگی میں کمی

اگرچہ ترائی میں مسلمانوں کی آبادی دوسری سب سے بڑی کمیونٹی ہے، مگر نیپال کی سیاست میں ان کی نمائندگی اور اثر و رسوخ کمزور ہے۔ 1959 سے 1999 تک کی مردم شماری اور سیاسی اعداد و شمار کے مطابق، مسلمانوں کی سیاسی نمائندگی پارلیمنٹ اور پنچایت میں بہت کم رہی ہے، جو ان کی سیاسی کمزوری کی نشاندہی کرتی ہے۔ اس عرصے میں مسلمانوں کی تعداد اور ان کی آبادی کے مطابق ان کا سیاسی کردار بہت محدود رہا، اور انہیں اپنے حقوق کے حصول کے لیے کئی بار احتجاج اور جدوجہد کرنا پڑی۔ مسلمانوں کی اس سیاسی کمزوری کا اثر ان کی معاشی اور سماجی حالت پر بھی پڑا، جس کی وجہ سے وہ دیگر کمیونٹیوں کے مقابلے میں پسماندہ رہے ہیں۔

نیپال کے 2015 کے آئین کے تحت ایوانِ نمائندگان کے 40% اراکین کا انتخاب متناسب نظام کے ذریعے کیا جاتا ہے، جس میں چھ مختلف ذاتوں اور نسلی گروہوں کے لیے علیحدہ کوٹہ مختص کیا گیا ہے تاکہ ان کے آبادی میں تناسب کی عکاسی ہو۔ خواتین کے لیے بھی ایک مجموعی کوٹہ موجود ہے، جس کے نتیجے میں موجودہ پارلیمنٹ ماضی کے مقابلے میں زیادہ جامع نظر آتی ہے۔ مثال کے طور پر، پارلیمان میں خواتین کی نمائندگی 33% تک پہنچ چکی ہے، جو 1999 میں 6% سے بھی کم تھی۔ اسی طرح، خاص آریہ گروپ (پہاڑی اونچی ذاتیں) کے اراکین کا تناسب 58% سے کم ہو کر 42% ہو گیا ہے، حالانکہ یہ اب بھی ان کے آبادی میں 31% تناسب سے زیادہ ہے۔

لیکن یہ اعداد و شمار پوری تصویر نہیں دکھاتے۔ نیپالی سیاست اب بھی پرانے خاص آریہ اشرافیہ کے زیرِ اثر ہے، اور پارلیمنٹ میں دو مختلف انتخابی نظاموں کے ذریعے منتخب ہونے والے ارکان شامل ہیں۔ فرسٹ پاسٹ دی پوسٹ (FPTP) سسٹم کے تحت منتخب ہونے والے 165 ارکانِ پارلیمنٹ میں تقریباً 50% خاص آریہ گروپ سے تعلق رکھتے ہیں، جو اس گروپ کے سیاسی جماعتوں کی قیادت میں مستقل غلبے کو ظاہر کرتا ہے۔

دوسری طرف، دلت اور مسلمان جیسے پسماندہ طبقات کی پارلیمنٹ میں نمائندگی انتہائی کم ہے۔ خاص طور پر، مسلمانوں کو ان کی آبادی کے تناسب کے مطابق نمائندگی نہیں دی گئی، جو نیپال کی متنوع معاشرتی ساخت کے ساتھ انصاف نہیں کرتی۔ مزید یہ کہ 165 ایف پی ٹی پی اراکین میں سے صرف 6 خواتین ہیں، جو نیپالی معاشرے میں پدرانہ سوچ کی عکاسی کرتی ہیں۔ یہ صورتِ حال اقلیتوں، خصوصاً مسلمانوں کے لیے سیاسی عمل میں موثر شمولیت کے حوالے سے اہم سوالات پیدا کرتی ہے۔

اس کمیونٹی کی سیاسی نمائندگی میں کمی نے ان کے لیے سرکاری اسکیموں اور ترقیاتی منصوبوں میں حصہ لینا مشکل بنا دیا، جس کے نتیجے میں وہ تعلیمی، معاشی اور سماجی شعبوں میں پیچھے رہ گئے ہیں۔ مسلمانوں کے سیاسی حقوق کی کم نمائندگی نے انہیں ان کے جائز حقوق سے بھی محروم کیا ہے، جس کی وجہ سے ان کی ترقی میں رکاوٹیں آئیں اور وہ معاشی لحاظ سے دیگر کمیونٹیوں کے مقابلے میں پسماندہ ہوگئے۔

اقتصادی حالت

نیپال میں مسلم کمیونٹی کی اقتصادی حالت بہت پسماندہ ہے، اور یہ کئی مسائل کا شکار ہے۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کی انسانی ترقی کی رپورٹ کے مطابق، مسلمانوں کی شرح خواندگی صرف 43.56% ہے، جو ملک کے دیگر اقلیتی گروپوں کی نسبت خاصی کم ہے۔ مثال کے طور پر، نیپال کے پہاڑی علاقے میں خواندگی کی شرح 72% تک ہے، جو مسلمانوں کی نسبت کافی بہتر ہے۔ اس کے علاوہ، مسلمانوں کی فی کس آمدنی 31,096 روپے ہے، جو کہ نیپال کی دیگر اقلیتی برادریوں اور مجموعی طور پر قومی اوسط سے بھی کم ہے۔ یہ معاشی عدم مساوات مسلمانوں کو اپنی زندگی کے معیار کو بہتر بنانے میں مشکلات کا سامنا کراتی ہے۔

ایک اور سنگین مسئلہ یہ ہے کہ تقریباً %40.4 مسلم کمیونٹی بے زمین ہے، یعنی ان کے پاس اپنی زمین اور جائیداد نہیں ہے۔ زمین کی کمی کا اثر مسلمانوں کی زرعی معیشت پر پڑتا ہے، جس سے ان کی معیشت غیر مستحکم رہتی ہے۔ مزید برآں، تقریباً 41% مسلمان خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، جو کہ ان کی معاشی پسماندگی کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ افراد بنیادی ضروریات جیسے صحت، تعلیم، اور دیگر فلاحی خدمات تک رسائی میں مشکلات کا سامنا کرتے ہیں، جس سے ان کی زندگیوں میں مسلسل مشکلات برقرار رہتی ہیں۔

بے روزگاری اور سرکاری ملازمتوں میں کمی

مسلم کمیونٹی میں بے روزگاری کی شرح اب بھی کافی زیادہ ہے، جو ان کی اقتصادی حالت کو مزید کمزور کرتی ہے۔ نیپال کی انتظامیہ اور سرکاری اداروں میں مسلمانوں کی نمائندگی اب بھی بہت محدود ہے، خاص طور پر فیصلہ سازی کے اہم عہدوں پر ان کی موجودگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ یو این ڈی پی کی 2004 کی رپورٹ کے مطابق، گزیٹڈ تیسرے زمرے میں مسلمانوں کی نمائندگی صرف %0.5 تھی، جو اس وقت ان کی کمزور سماجی اور اقتصادی حالت کی واضح دلیل تھی۔ اسی طرح اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کی انسانی ترقی کی رپورٹ کے مطابق، نیپال میں مسلم کمیونٹی کی شرح خواندگی صرف 43.56% ہے، جب کہ پہاڑی علاقوں میں یہ شرح 72% تک پہنچتی ہے۔

اگرچہ حالیہ برسوں میں مسلمانوں کی نمائندگی میں کچھ بہتری دیکھنے کو ملی ہے، لیکن یہ بہتری ان کی آبادی کے تناسب کے مطابق اب بھی ناکافی ہے۔ نیپالی فوج اور پولیس جیسے اہم قومی اداروں میں مسلمانوں کی موجودگی 2004 میں صرف %0.02 تھی، اور آج بھی ان اداروں میں ان کی شرکت بہت کم ہے۔ یہ اعداد و شمار اس حقیقت کو اجاگر کرتے ہیں کہ مسلمانوں کی قومی اداروں میں شمولیت اور ان کے مسائل پر توجہ دینے کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ انہیں مکمل طور پر سماجی اور اقتصادی دھارے میں شامل کیا جا سکے۔

یہ کم نمائندگی مسلمانوں کو سرکاری ملازمتوں، وسائل اور ترقیاتی پروگراموں میں شامل ہونے کی کم تر امکانات فراہم کرتی ہے، جو ان کی معاشی حالت کو مزید دگرگوں بناتی ہے۔ اس کے نتیجے میں، مسلمانوں کو نوکریوں کے مواقع کم ملتے ہیں، جس سے بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہوتا ہے اور ان کی زندگیوں میں معاشی بحران کا سامنا رہتا ہے۔ یہ مسائل نہ صرف ان کی موجودہ حالت کو متاثر کرتے ہیں بلکہ ان کے معاشی اور سماجی ترقی کے امکانات کو بھی محدود کر دیتے ہیں۔

انسانی ترقی کا اشاریہ

نیپال میں مسلم کمیونٹی کی پسماندگی کا ایک اور نمایاں پہلو ان کا انسانی ترقی کا اشاریہ ہے۔ ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس (HDI) کے مطابق، مسلمانوں کا انسانی ترقی کا اشاریہ صرف 0.422 ہے، جو کہ دلتوں اور دیگر اقلیتی گروپوں کے مقابلے میں بھی کم ہے۔ مثال کے طور پر، بہون کھیتری کا انسانی ترقی کا اشاریہ 0.538 ہے، قبائل کا 0.482 ہے، اور دلتوں کا 0.432 ہے۔ مسلمانوں کا اشاریہ ان سب گروپوں سے کم ہے، جو اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ وہ سماجی، اقتصادی، اور تعلیمی میدانوں میں مسلسل پیچھے ہیں۔ یہ اشاریہ نہ صرف مسلمانوں کی پسماندگی کو ظاہر کرتا ہے بلکہ اس بات کا بھی غماز ہے کہ ان کی زندگیوں میں ترقی کے مواقع کی کمی ہے۔ انسانی ترقی کے انڈیکس میں کمی کی بنیادی وجوہات میں تعلیمی اداروں تک محدود رسائی، غربت، بے روزگاری، اور سماجی تفریق شامل ہیں، جو مسلمانوں کو دیگر برادریوں کے مقابلے میں کم تر مواقع فراہم کرتی ہیں۔

حقوق کے لیے جدوجہد

نیپال میں مسلمانوں کے حقوق کے لیے جدوجہد ایک طویل اور مشکل سفر رہا ہے۔ 2062-63 کی عوامی تحریک اور 2063-64 کی مدھیش تحریک نے ایک نئی سیاسی لہر پیدا کی اور مسلمانوں کے حقوق کے لیے کچھ تبدیلیوں کی بنیاد رکھی۔ ان تحریکوں کے بعد، مسلمانوں کو دستور ساز اسمبلی کے انتخابات میں کچھ نمائندگی ملی، اور 2064 میں ہونے والے انتخابات میں مسلمانوں کی نمائندگی 2.5% تک پہنچی۔ اس کے علاوہ، کچھ دیگر نشستوں پر بھی مسلمانوں کا انتخاب ہوا، جس سے ان کے سیاسی حقوق میں معمولی بہتری آئی۔ تاہم، اس کے باوجود مسلم کمیونٹی کو وہ حقوق اور اثر و رسوخ حاصل نہیں ہو سکا جو انہیں ایک اہم اقلیتی گروہ کی حیثیت سے حاصل ہونے چاہئیں تھے۔
مسلمانوں کی سیاسی نمائندگی اگرچہ بڑھ گئی ہے، مگر وہ اب بھی فیصلہ سازی کے عہدوں اور اہم حکومتی اداروں میں اپنے جائز مقام تک نہیں پہنچ سکے ہیں۔ اس کا اثر ان کے معاشی، تعلیمی، اور سماجی حقوق پر بھی پڑ رہا ہے، کیونکہ ان کی آواز اکثر کمزور اور نظر انداز کی جاتی ہے۔ مسلم کمیونٹی کے حقوق کی مکمل بحالی کے لیے ابھی تک مکمل طور پر موثر اقدامات نہیں اٹھائے گئے ہیں، اور انہیں ابھی بھی ایک مضبوط اور فیصلہ کن سیاسی حیثیت کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے حقوق کی حفاظت کر سکیں۔

نیپال میں مسلم کمیونٹی کو آج بھی کئی سماجی، اقتصادی اور سیاسی مشکلات کا سامنا ہے، جو ان کی مجموعی حالت کو متاثر کرتی ہیں۔ ان کی کم سیاسی نمائندگی، کم تعلیم کی شرح، اور اقتصادی پسماندگی نے انہیں نیپال کے دیگر گروپوں کے مقابلے میں پس منظر میں ڈال دیا ہے۔ مسلم کمیونٹی کی زیادہ تر آبادی مدھیش کے مختلف اضلاع میں رہائش پذیر ہے، جہاں انہیں زمین، تعلیم، روزگار اور صحت کے شعبوں میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ ان مسائل کا حل اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کمیونٹی اپنے حقوق کے لیے مستقل اور مربوط جدوجہد نہ کرے۔

اگر مسلمانوں کو اپنی پوزیشن مضبوط کرنی ہے، تو انہیں اپنے حقوق کے لیے مزید جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ مسلم کمیونٹی ایک مضبوط اور متحد آواز بنائے، جو نہ صرف ان کے مسائل کو اجاگر کرے بلکہ انہیں حل کرنے کے لیے عملی اقدامات بھی کرے۔ مسلمانوں کو اپنی سیاسی اور سماجی حیثیت کو مستحکم کرنے کے لیے سیاسی شعور بیدار کرنا ہوگا اور مختلف اداروں میں اپنی نمائندگی کو بڑھانے کے لیے جدوجہد کرنی ہوگی۔ اس کے ساتھ ساتھ، تعلیم کی سطح کو بڑھانا بھی بہت ضروری ہے تاکہ مسلمان اپنی اقتصادی حالت کو بہتر بنا سکیں اور معاشی طور پر خود مختار بن سکیں۔

نیپال میں مسلم کمیونٹی کی حالت پر مسلسل توجہ دینے اور ان کے مسائل کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ انہیں ترقی کے مواقع فراہم کیے جا سکیں اور وہ معاشی طور پر خود مختار بن سکیں۔ مسلمانوں کی پسماندگی کے مختلف پہلوؤں پر حکومت اور متعلقہ اداروں کو نظر ثانی کرنی چاہیے اور انہیں اپنے حقوق کے حصول میں مدد دینی چاہیے۔ اس کے علاوہ، مسلم کمیونٹی کے اندر تعلیم، صحت، اور اقتصادی خود مختاری کے شعبوں میں بھی اندرونی اصلاحات کی ضرورت ہے تاکہ وہ معاشرتی طور پر ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکیں۔ اس مقصد کے لیے مختلف سماجی تنظیموں، سیاسی پارٹیوں اور حکومتی اداروں کو مل کر کام کرنا ہوگا تاکہ مسلمانوں کے مسائل کو حل کیا جا سکے اور انہیں معاشی، سماجی اور سیاسی میدانوں میں برابر کے مواقع فراہم کیے جا سکیں۔

Exit mobile version