کم سے کم تین بچے پیدا کرنے کا مشورہ کیوں دیا گیا؟
از: عبدالماجد نظامی
____________________
راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے سر براہ موہن بھاگوت نے اپنے حالیہ خطاب میں ملک کے لوگوں کو یہ مشورہ دیا ہے کہ وہ کم سے کم تین بچے ضرور پیدا کریں۔ بھاگوت کا یہ مشورہ اس ملک کی آبادی میں سے کئی طبقوں کے لیے کسی اچنبھے سے کم نہیں رہا ہوگا کیونکہ گزشتہ ایک صدی میں بڑھتی آبادی کے خطرات کا ڈنکا جس شدت کے ساتھ سنگھ اور اس کی ذیلی تنظیموں نے پیٹا تھا اس کا اندازہ ہر وہ شخص کر سکتا ہے جو ان مسائل پر نظر رکھتا ہے۔ دراصل بڑھتی آبادی کا جو ’خطرہ‘ یہ تنظیمیں پیش کرتی تھیں، ان کا بنیادی مقصد یہ ہوتا تھا کہ ملک کی مسلم اقلیت کو نشانہ بنایا جائے اور انہیں دفاعی پوزیشن میں رکھ کر ان کو ملک کی ترقی میں رکاوٹ کے لیے ذمہ دار مانا جائے۔ حالانکہ آبادی کے تعلق سے ماہرین کی آراء بار بار سامنے آرہی تھیں کہ ہندوستان کی آبادی اس تیزی سے نہیں بڑھ رہی ہے کہ اس کی سماجی و اقتصادی ترقیات کے لیے یہ ایک خطرہ بن جائے۔ خود مسلم آبادی کے تناسب کے بارے میں باضابطہ تحقیقی بیانات و ڈاٹا پر مبنی نہایت وقیع کتاب سابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی نے لکھی اور اس وہم کو دور کیا کہ مسلم زیادہ بچے پیدا کرتے ہیں۔ لیکن نفرت کی کوکھ سے پیدا ہونے والے نظریہ کے حاملین کو یہ تحقیقات قائل نہ کر سکیں۔ پہلی بار ان کی آنکھیں تب کھلیں جب خود نریندر مودی سرکار کی وزارت نے نیشنل فیملی اینڈ ہیلتھ سروے پیش کیا۔ اس سروے میں اس بھرم سے پردہ اٹھا کہ مسلمان زیادہ بچے پیدا ضرور کرتے ہیں لیکن اس کی اصل وجہ کوئی منصوبہ بندی نہیں بلکہ ان میں باقی طبقوں کے مقابلہ ناخواندگی کی بڑھی ہوئی شرح ہے۔ اس زمرہ میں صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ ایس سی اور ایس ٹی بھی آتے ہیں کیونکہ مسلمانوں کی طرح ان میں بھی شرح ناخواندگی نسبتاً زیادہ ہے۔ اگر ناخواندگی کو معیار بنا کر اس مسئلہ کو سمجھنے کی کوشش کریں تو یقینا تصویر زیادہ صاف نظر آئے گی۔ مثال کے طور پر وہ ریاستیں جنہیں بیمارو کہا جاتا ہے، ان میں شرح آبادی بھی زیادہ ہے جیسے کہ بہار، جھارکھنڈ، اوڈیشہ اور یوپی وغیرہ۔ اس کے برعکس جنوبی ہندوستان کی ریاستیں جہاں شرح تعلیم شمالی ہندوستان کی بیمارو ریاستوں کے مقابلہ میں زیادہ ہے، وہاں شرح آبادی کم ہے بلکہ بعض ریاستوں میں تو اس کی شرح قومی سطح 2.1 سے گر کر 1.9 تک پہنچ گئی ہے جو کہ فکرمندی کی بات ہے کیونکہ2.1 کو ریپلیس مینٹ لیبل کہا جاتا ہے یعنی کہ موت اور دیگر اسباب سے جو آبادی کم ہوتی رہتی ہے، اس کے مقابلہ میں اگر2.1کے حساب سے پیدائش کی شرح جاری رہے تو ملک میں سیاسی و اقتصادی صورتحال میں کوئی بحرانی کیفیت پیدا نہیں ہوگی۔ جنوبی ہندوستان میں گھٹتی آبادی وہاں کے سیاسی لیڈران کے لیے کس قدر فکرمندی کا ذریعہ ثابت ہوچکی ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آندھرا پردیش، تلنگانہ اور تمل ناڈو کے وزرائے اعلیٰ تک نے یہ اپیل جاری کی ہے کہ لوگ زیادہ بچے پیدا کریں۔ شمالی ہندوستان کے مقابلہ جنوبی ہندوستان کی ریاستوں میں گھٹتی شرح آبادی کا نقصان جنوب کی ریاستوں کو یہ ہوتا ہے کہ جب مرکز کی طرف سے بجٹ میں ریاستوں کی حصہ داری طے کی جاتی ہے تو انہیں کم پیسے ملتے ہیں کیونکہ بجٹ میں حصہ داری کی بنیاد شرح آبادی ہے۔ اسی طرح جب ہر دس سال کے بعد حلقہ ہائے انتخابات طے کیے جاتے ہیں یا دوسرے الفاظ میں پارلیمنٹ میں نمائندگی کو طے کیا جاتا ہے تو اس میں بھی آبادی کو ہی بنیاد بنایا جاتا ہے۔ اپنی گھٹتی شرح آبادی کی قیمت مذکورہ بالا دونوں صورتوں میں جنوبی ہندوستان کی ریاستوں کو چکانی پڑتی ہے اور اس کی وجہ سے ایک سیاسی تناؤ کی صورت بنی رہتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا ہندوستان کی آبادی اتنی گھٹ رہی ہے کہ جاپان، جنوبی کوریا اور چین جیسے مسائل پیدا ہوجائیں گے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بالکل نہیں۔ کم سے کم2060تک ہندوستان کی ڈیموگرافی پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ البتہ اس صدی کے خاتمہ تک اگر شرح پیدائش2.1سے کم ہوگئی تو پھر کام کرنے والے لوگ کم ہوں گے اور معمر لوگ زیادہ ہوجائیں گے جس کا اثر سیدھے طور پر ملک کی اقتصادی ترقی پر پڑے گا۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ موہن بھاگوت نے لوگوں کو کم سے کم تین بچے پیدا کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ لیکن اگر غور کیا جائے تو اس مسئلہ کا حل بھی ہمارے ملک کے پاس موجود ہے۔ بس مختلف ریاستوں کی ان پالیسیوں پر نظرثانی کرنی ہوگی جس کے تحت نچلی اور وسطی سطح کی نوکریاں صرف ان ریاستوں کے لیے ہی خاص کر دی گئی ہیں۔ اگر ایسا کیا جائے کہ جن ریاستوں میں بچے زیادہ پیدا کرنے کا مزاج باقی ہے، وہاں سے کام کاج کے لیے لوگوں کو گھٹتی آبادی والی ریاستوں میں لایا جائے تو اس مسئلہ کو آسانی سے حل کیا جا سکتا ہے۔ ساتھ ہی یوپی، بہار اور جھارکھنڈ میں تعلیم و تدریب کا نظام بہتر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان کو لائق بناکر ان کی مہارت سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔ اسی طرح خواتین کے لیے کام کاج کے ماحول کو بہتر اور پر امن بنایا جائے تاکہ جو خواتین کام کرنا چاہتی ہیں، ان کو نوکری کے مواقع مل سکیں۔ ان کی بھی تعلیم و تدریب کو یقینی بنایا جائے اور ان کے لیے روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ ان سب اقدامات کے علاوہ بھاگوت جی کو ایک اعلان یہ بھی کرنا چاہیے کہ ان کی تنظیم اور ذیلی تنظیموں سے وابستہ لوگ ملک میں امن و امان کی فضا کو خراب نہ کریں کیونکہ اگر ہر طرف قتل، لنچنگ اور دنگا و فساد کا ماحول رہے گا اور لوگوں کی عبادت گاہیں اور گھر بار زد پر رہیں گے تو ایسے پر فتن ماحول میں نہ تو ملک کی اقتصادی ترقی ممکن ہو پائے گی اور نہ ہی ملک کی آبادی کو تعلیم اور روزگار کے لیے مواقع مہیا ہو پائیں گے۔