دستور ہند : ساورکر اور گولوالکر کے دستور مخالف نظریے اور تبصرے
از: محمد شہباز عالم مصباحی
سیتل کوچی کالج، سیتل کوچی، کوچ بہار، مغربی بنگال
___________________
ہندوستان کا دستور 1950 میں نافذ ہوا تھا اور اس نے ہندوستان میں ایک جمہوری، سیکولر اور مساواتی معاشرہ قائم کرنے کی بنیاد رکھی تھی۔ یہ دستور تمام شہریوں کو یکساں حقوق اور آزادی فراہم کرتا ہے، خواہ وہ کسی بھی مذہب، ذات یا قوم سے تعلق رکھتے ہوں۔ تاہم، بعض متشدد اور فرقہ پرست رہنماؤں اور فکری مکاتبِ فکر نے اس دستور پر تنقید کی ہے، جن میں ویر ساورکر اور گولوالکر جیسے افراد شامل ہیں۔ دونوں نے ہندوستانی دستور کو اپنے ہندو راشٹر کے نظریہ سے ہم آہنگ نہیں سمجھا اور ان کے بعض تبصرے دستور کے خلاف تھے۔ اس مضمون میں ہم ان دونوں کی کتابوں اور تحریروں کا تجزیہ کریں گے تاکہ ان کے دستور مخالف نظریات اور تبصروں کو واضح کیا جا سکے۔
ویر ساورکر کا دستور مخالف نظریہ:
ویر ساورکر نے ہندوستانی دستور پر سخت تنقید کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہندوستان کا دستور ایک انگریزی تحفہ ہے جو ہندوستان کی ثقافت اور روایات سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ ساورکر کی تحریروں میں خاص طور پر ان کے ہندو راشٹر کے نظریہ کی جھلک ملتی ہے، جو ہندوستان میں صرف ہندوؤں کے لیے مخصوص ایک ریاست کا قیام چاہتا تھا۔
ساورکر کی کتاب "Hindutva: Who is a Hindu” میں انہوں نے دستور ہند کے بارے میں اپنی رائے دی۔ ان کا کہنا تھا:
"ہندوستان کے دستور کی سب سے بری بات یہ ہے کہ اس میں ہندوستانیت کا کوئی پہلو نہیں ہے۔ منو سمرتی وہ کتاب ہے جو ویدوں کے بعد سب سے زیادہ قابل عبادت ہے، اور جو قدیم زمانے سے ہماری ثقافت، روایات، خیالات اور اعمال کی بنیاد بنی ہوئی ہے۔ یہ کتاب صدیوں سے ہماری قوم کی روحانی اور الہامی ترقی کو ضابطہ دیتی رہی ہے۔ آج، منو سمرتی قانون بن چکی ہے۔” (ساورکر، Hindutva: Who is a Hindu)
ساورکر کے مطابق، دستور ہند، ہندوستان کی قدیم ثقافت اور روایات سے متصادم ہے اور منو سمرتی وہ کتاب ہے جو ہندو قوم کے روحانی اور ثقافتی ترقی کی بنیاد ہے۔ وہ چاہتے تھے کہ منو سمرتی کو قانون کی حیثیت حاصل ہو تاکہ ہندوستانی معاشرتی نظام کو ہندو روایات کے مطابق تشکیل دیا جا سکے۔
گولوالکر کا دستور مخالف نظریہ:
اس کتاب "We or Our Nationhood Defined” میں ان کا ہندو راشٹر کا تصور واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔ گولوالکر نے ہندوستان کے دستور کو اس کے موجودہ سیکولر، جمہوری اور ملٹی کلچرل ڈھانچے کے باوجود قبول کرنے سے انکار کیا۔ ان کے مطابق، ہندوستان کا دستور ہندو قوم کی اصل اقدار سے مطابقت نہیں رکھتا اور ان کے نظریہ کے مطابق ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جہاں صرف ہندوؤں کی ثقافت اور رسم و رواج کو اہمیت دینی چاہیے۔
گولوالکر نے اپنی کتاب میں لکھا:
"ہندوستان کا دستور غیر ملکی نظریات کا ایک نتیجہ ہے اور ان اصولوں پر مبنی ہے جو ہندوتوا کے قومی خیالات کے ساتھ متصادم ہیں۔ ہماری قوم کو ایسی بنیاد پر نہیں بنایا جا سکتا۔ ہماری قومیت ہماری ثقافت اور مذہب پر مبنی ہے جو بنیادی طور پر ہندو ہے۔” (گولوالکر، We or Our Nationhood Defined)
گولوالکر کے مطابق، ہندوستان کا دستور غیر ملکی نظریات پر مبنی ہے اور ہندو راشٹر کے تصور سے متصادم ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ہندوستان کی قومیت کی اصل بنیاد اس کی ہندو ثقافت اور مذہب پر ہے۔ ان کے مطابق، ہندوستانی دستور میں اقلیتی گروہوں کو برابر کے حقوق دینے کا تصور ہندو قوم پرستی کے نظریہ کے خلاف ہے۔
دستور ہند اور ان کے نظریات میں تضاد:
ساورکر اور گولوالکر دونوں کا خیال تھا کہ ہندوستان کا دستور ہندو راشٹر کے تصور کے خلاف ہے۔ ان کے مطابق، ہندوستانی دستور میں شامل سیکولر اور جمہوری اقدار ہندو قوم کے روایات اور مذہبی اصولوں سے متصادم ہیں۔ دونوں نے اس بات پر زور دیا کہ ہندوستان میں ایک ایسا دستور ہونا چاہیے جو صرف ہندوؤں کی ثقافت اور رسم و رواج پر مبنی ہو۔
دستور ہند میں تمام اقلیتی گروہوں کے حقوق کی حفاظت کی گئی ہے، جبکہ ساورکر اور گولوالکر دونوں کے نظریات کے مطابق ہندو قوم پرستی کے اصولوں کے تحت اقلیتی گروہ صرف کم تر حیثیت رکھتے ہیں۔ ساورکر نے جہاں دستور کو انگریزی حکومت کا تحفہ اور ہندوستان کی ثقافت سے غیر ہم آہنگ قرار دیا، وہیں گولوالکر نے بھی اسے غیر ہندو نظریات پر مبنی سمجھا۔
نتیجہ:
ویر ساورکر اور گولوالکر دونوں نے دستور کی سیکولر اور جمہوری بنیادوں کو قبول نہیں کیا تھا اور اس کی مخالفت کی تھی۔ ساورکر نے منو سمرتی کو ہندوستان کے قانون کا درجہ دینے کی تجویز دی تھی، جبکہ گولوالکر نے ہندوستان کی قومیت کو ہندو ثقافت اور مذہب کے ساتھ جوڑ کر دستور کو غیر متعلق قرار دیا۔ ان دونوں کے نظریات نے ہندوستانی سیاست میں فرقہ واریت اور انتہا پسندی کو فروغ دیا، جس کا اثر آج بھی نظر آ رہا ہے۔
آج ہندوستان میں دستور کی روح کو بچانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم ان نظریات کو چیلنج کریں اور دستور کی سیکولر اور جمہوری بنیادوں پر قائم رہیں تاکہ اکثریتی طبقہ کے ساتھ تمام اقلیتی گروہوں کے حقوق کی بھی حفاظت کی جا سکے اور ایک انصاف پسند دستوری مساواتی معاشرہ قائم کیا جا سکے۔