مسلمانوں کی حکمتِ عملی کیا ہونی چاہیے!!
از: تفہیم الرحمٰن
___________________
دنیا کی تاریخ میں غلامی ایک ایسا سیاہ باب ہے جو ہر دور میں مختلف شکلوں اور انداز میں جاری رہا ہے۔ کبھی جنگ کے نتیجے میں، کبھی سامراجی تسلط کے ذریعے، اور کبھی معاشی یا سیاسی استحصال کی صورت میں قوموں اور معاشروں کو غلام بنایا گیا۔ مختلف خطے جیسے ہندوستان، چین، افریقہ، افغانستان، مشرقِ وسطیٰ، اور یہاں تک کہ یورپ نے بھی غلامی کے درد کو محسوس کیا اور اپنی آزادی کے لیے قربانیاں دیں۔ یہ داستان صرف ظلم و استحصال کی نہیں بلکہ ان قوموں کی بہادری اور قربانیوں کی بھی ہے جنہوں نے غلامی کی زنجیروں کو توڑ کر آزادی حاصل کی۔
ہندوستان نے تقریباً دو سو سال تک برطانوی سامراج کے تسلط کو برداشت کیا۔ 1757 کی پلاسی کی جنگ کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی نے آہستہ آہستہ پورے برصغیر پر قبضہ جما لیا۔ اس دور میں ہندوستان کے وسائل کو لوٹا گیا، کسانوں کو ان کی زمینوں سے بے دخل کر دیا گیا، اور مقامی صنعتوں کو تباہ کر دیا گیا۔ کاٹن اور دیگر خام مال کو برطانیہ کی فیکٹریوں میں استعمال کیا گیا، جبکہ ہندوستانی عوام غربت کی چکی میں پس رہے تھے۔ ثقافتی لحاظ سے بھی برطانوی حکمرانوں نے ہندوستانی معاشرت کو نقصان پہنچایا۔ انگریزی نظامِ تعلیم کو مسلط کیا گیا تاکہ مقامی لوگ اپنی زبان، تاریخ، اور ثقافت سے دور ہو جائیں1857 ۔1857 کی جنگِ آزادی ہندوستانیوں کے لیے ایک اہم موڑ ثابت ہوئی، لیکن اس کے بعد برطانوی حکومت نے جبر و تشدد میں اضافہ کر دیا۔ کسانوں اور مزدوروں کو مزید دبایا گیا، لیکن عوامی مزاحمت بھی ساتھ ساتھ بڑھتی گئی۔ عدم تعاون تحریک اور سول نافرمانی جیسی تحریکوں نے آزادی کی راہ ہموار کی۔ آخرکار 1947 میں ہندوستان نے آزادی حاصل کی، لیکن اس آزادی کے ساتھ تقسیم کا درد بھی جڑا ہوا تھا۔
چین میں غلامی کی شکل افیون جنگوں کے دوران نمایاں ہوئی۔ 19ویں صدی میں برطانیہ نے افیون کی تجارت کو زبردستی چین پر مسلط کیا، جس نے چینی معیشت اور سماج کو تباہ کر دیا۔ مغربی طاقتوں نے چین کو “نانجنگ معاہدہ” جیسے سامراجی معاہدوں کے ذریعے مجبور کیا کہ وہ اپنی زمینیں اور تجارتی حقوق ترک کرے۔ جاپان اور دیگر مغربی ممالک نے چین کی زمینوں پر قبضہ کیا اور عوام کو ظلم و استحصال کا نشانہ بنایا۔ لیکن چینی عوام نے ماو زے تنگ کی قیادت میں کمیونسٹ انقلاب کے ذریعے سامراجی طاقتوں کا خاتمہ کیا اور اپنی خودمختاری کو دوبارہ قائم کیا۔
افریقہ میں غلامی کی تاریخ بہت پرانی ہے، لیکن جنوبی افریقہ میں نسل پرستی کے نظام، اپارتھائیڈ، نے اس ظلم کو ایک نئی شکل دی۔ سفید فام اقلیت نے سیاہ فام اکثریت کو دہائیوں تک بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھا۔ سیاہ فام افراد کو الگ علاقوں میں رہنے پر مجبور کیا گیا، جہاں بنیادی سہولیات کی کمی تھی۔ انہیں تعلیم، صحت، اور زمین کی ملکیت جیسے حقوق سے محروم رکھا گیا۔ نیلسن منڈیلا کی قیادت میں عوامی تحریکوں نے اس نظام کے خلاف آواز بلند کی۔ 1994 میں جمہوری انتخابات کے ذریعے اپارتھائیڈ کا خاتمہ ہوا اور جنوبی افریقہ میں آزادی کا سورج طلوع ہوا۔
افغانستان میں 2001 کے بعد امریکی تسلط کو غلامی کی ایک شکل کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد امریکہ نے اپنی مرضی کی حکومت قائم کی، لیکن عوام کو سیاسی اور معاشی غلامی میں دھکیل دیا گیا۔ امریکی جنگی حکمت عملیوں اور بمباری نے عام شہریوں کی زندگیاں تباہ کر دیں۔ لیکن طالبان نے عوامی حمایت حاصل کرکے دوبارہ طاقت حاصل کی اور 2021 میں امریکہ کے انخلا کے بعد افغانستان نے ایک نئے دور کا آغاز کیا۔
مشرقِ وسطیٰ میں بھی غلامی کے آثار نمایاں رہے۔ پہلی جنگِ عظیم کے بعد خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے ساتھ مغربی طاقتوں نے مشرقِ وسطیٰ کو اپنی مرضی سے تقسیم کر دیا۔ اس خطے کے وسائل کو مغربی ممالک نے اپنے فائدے کے لیے استعمال کیا۔ لیکن عرب قوم پرستی کی تحریکوں نے غلامی کے خلاف آواز بلند کی اور کئی ممالک نے آزادی حاصل کی۔
یورپ میں بھی غلامی کی داستان موجود ہے، خاص طور پر فرانس میں جہاں عام عوام کو اشرافیہ اور بادشاہت کے جبر کا سامنا تھا۔ 18ویں صدی کے آخر میں فرانس میں انقلاب برپا ہوا جسے “فرانسیسی انقلاب” کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ عوام نے بادشاہت کے نظام اور جاگیرداری کے خلاف بغاوت کی۔ آزادی، مساوات، اور اخوت کے نعروں کے ساتھ اس انقلاب نے نہ صرف فرانس بلکہ دنیا بھر میں آزادی کی تحریکوں کو متاثر کیا۔ اشرافیہ کے جبر اور عوامی استحصال کے خلاف یہ انقلاب ایک روشن مثال ہے کہ ظلم کے خاتمے کے لیے عوامی اتحاد اور قربانی ضروری ہیں۔ انقلاب کے بعد فرانس میں جمہوری نظام قائم ہوا، جس نے غلامی کی زنجیروں کو ہمیشہ کے لیے توڑ دیا۔
تاریخ ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ غلامی کتنا ہی شدید اور طویل کیوں نہ ہو، اس کے خاتمے کے لیے اتحاد، قربانی، اور قیادت کی ضرورت ہوتی ہے۔ چاہے وہ ہندوستان کے کسان ہوں، چین کے مزدور، افریقہ کے مظلوم، یا فرانس کے عوام، ہر قوم نے اپنی آزادی کے لیے قربانیاں دی ہیں۔ ان قربانیوں نے دنیا کو یہ سکھایا کہ آزادی ایک انمول نعمت ہے، جس کے لیے ہر ظلم کا سامنا کیا جا سکتا ہے۔ یہ جدوجہد انسانیت کی تاریخ کا سب سے روشن باب ہے۔
بھارت کے مسلمانوں کو، جو آج مختلف اقسام کی پسماندگی اور اکثریتی سماج کے تعصبات کا سامنا کر رہے ہیں، اپنی بقا اور ترقی کے لیے نہایت حکمت اور شعور کے ساتھ کام کرنا ہوگا۔ موجودہ حالات، جن میں روزانہ کی بنیاد پر ان کی شناخت اور حقوق کو چیلنج کیا جا رہا ہے، اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ وہ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھیں اور ایک مضبوط، منظم، اور مربوط حکمت عملی اختیار کریں۔
یہ بھی پڑھیں
تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کوئی قوم غلامی یا پسماندگی کا شکار ہوئی، اس نے اپنی تعلیم، اتحاد، اور شعور کے ذریعے نہ صرف اپنی حالت بہتر کی بلکہ عظمت کو بھی بحال کیا۔ ہندوستان کے مسلمان بھی اگر اپنی کھوئی ہوئی عظمت کو دوبارہ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے تعلیم کو اپنی ترجیح بنانا ہوگا۔ جدید تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنی مذہبی تعلیم کو بھی مضبوط کرنا ضروری ہے، تاکہ وہ اپنے ایمان اور دنیاوی ترقی کے درمیان ایک توازن قائم کر سکیں۔ مدارس میں جدید مضامین کے اضافے کے ساتھ مسلمانوں کو قومی اور بین الاقوامی تعلیمی اداروں میں اپنی نمائندگی بڑھانی ہوگی۔
تعلیم کے ساتھ ساتھ، مسلمانوں کو اقتصادی طور پر مضبوط بننا ہوگا۔ کاروبار، صنعت، اور دیگر معاشی شعبوں میں اپنی شمولیت بڑھانی ہوگی۔ خود انحصاری اور اقتصادی خود مختاری وہ بنیادیں ہیں جو کسی بھی قوم کو مضبوط بناتی ہیں۔ ماضی کی مثالوں سے یہ بات واضح ہے کہ اقتصادی طور پر مضبوط قومیں ہی اپنے حقوق کا دفاع بہتر طریقے سے کر سکتی ہیں۔ اس کے لیے مسلمانوں کو اپنی کمیونٹی کے اندر تعاون کا نظام قائم کرنا ہوگا، جیسا کہ وقف اور زکوٰۃ کا مؤثر استعمال۔
اتحاد اور اتفاق بھی مسلمانوں کی ترقی کے لیے نہایت ضروری ہے۔ اختلافات اور مسلکی تقسیم نے مسلمانوں کو کمزور کیا ہے، اور اس صورتحال سے نکلنے کے لیے تمام فرقوں کو ایک پلیٹ فارم پر آنا ہوگا۔ اتحاد ہی وہ طاقت ہے جو کسی قوم کو طاقتور بنا سکتی ہے اور اسے مخالف قوتوں کے خلاف کھڑا ہونے کی ہمت دے سکتی ہے۔ مسلمانوں کو اپنی قیادت کو مضبوط کرنا ہوگا، جو ان کے مسائل کو حکمت اور دانشمندی کے ساتھ پیش کر سکے۔
مسلمانوں کو سیاسی میدان میں بھی اپنی شمولیت بڑھانی ہوگی۔ ماضی میں مسلمانوں کی سیاسی بے حسی نے ان کے مسائل کو مزید بڑھا دیا۔ انہیں اپنے مسائل کے حل کے لیے منظم اور حکمت عملی کے تحت کام کرنا ہوگا۔ اپنی الگ شناخت کو برقرار رکھتے ہوئے، مسلمانوں کو قومی دھارے کا حصہ بننا ہوگا۔ سیاسی نمائندگی کے بغیر کوئی بھی کمیونٹی اپنی آواز بلند نہیں کر سکتی۔
اپنی ثقافت اور شناخت کی حفاظت کے لیے مسلمانوں کو اپنی زبان، ادب، اور تاریخ کو زندہ رکھنا ہوگا۔ اردو زبان، جو مسلمانوں کی ثقافتی شناخت کا ایک اہم حصہ ہے، کو فروغ دینا نہایت ضروری ہے۔ اسی طرح، اسلامی ورثے کو محفوظ رکھنے کے لیے تعلیمی اور ثقافتی ادارے قائم کرنے ہوں گے۔
مسلمانوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ احتجاج اور شکایت کے بجائے مثبت عمل اور تعمیری اقدامات ہی ان کی حالت بہتر کر سکتے ہیں۔ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے، انہیں مختلف شعبوں میں اپنی مہارت ثابت کرنی ہوگی، چاہے وہ سائنس ہو، فنون ہو، یا قانون کا میدان۔ ماضی میں مسلمانوں نے اپنے علم اور قابلیت کے ذریعے عظیم کارنامے انجام دیے، اور آج بھی وہ اپنی محنت اور لگن کے ذریعے اپنے لیے ایک نیا راستہ بنا سکتے ہیں۔
تاریخ کا سبق یہ ہے کہ وہ قومیں جو تعلیم، اتحاد، اور خود مختاری کو اپناتی ہیں، وہی اپنی حالت بدلنے میں کامیاب ہوتی ہیں۔ ہندوستان کے مسلمانوں کو اپنی تمام تر مشکلات کے باوجود امید کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔ انہیں اپنے مسائل کو سمجھ کر، حکمت عملی کے تحت کام کرنا ہوگا، تاکہ وہ اپنی عظمت کو دوبارہ حاصل کر
سکیں اور ایک مضبوط قوم کے طور پر ابھر سکیں۔
پہلے تعلیم کو اپنی ترجیح بنانا ہوگا۔ جدید تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنی مذہبی تعلیم کو بھی مضبوط کرنا ضروری ہے، تاکہ وہ اپنے ایمان اور دنیاوی ترقی کے درمیان ایک توازن قائم کر سکیں۔ مدارس میں جدید مضامین کے اضافے کے ساتھ مسلمانوں کو قومی اور بین الاقوامی تعلیمی اداروں میں اپنی نمائندگی بڑھانی ہوگی۔
تعلیم کے ساتھ ساتھ، مسلمانوں کو اقتصادی طور پر مضبوط بننا ہوگا۔ کاروبار، صنعت، اور دیگر معاشی شعبوں میں اپنی شمولیت بڑھانی ہوگی۔ خود انحصاری اور اقتصادی خود مختاری وہ بنیادیں ہیں جو کسی بھی قوم کو مضبوط بناتی ہیں۔ ماضی کی مثالوں سے یہ بات واضح ہے کہ اقتصادی طور پر مضبوط قومیں ہی اپنے حقوق کا دفاع بہتر طریقے سے کر سکتی ہیں۔ اس کے لیے مسلمانوں کو اپنی کمیونٹی کے اندر تعاون کا نظام قائم کرنا ہوگا، جیسا کہ وقف اور زکوٰۃ کا مؤثر استعمال۔
اتحاد اور اتفاق بھی مسلمانوں کی ترقی کے لیے نہایت ضروری ہے۔ اختلافات اور مسلکی تقسیم نے مسلمانوں کو کمزور کیا ہے، اور اس صورتحال سے نکلنے کے لیے تمام فرقوں کو ایک پلیٹ فارم پر آنا ہوگا۔ اتحاد ہی وہ طاقت ہے جو کسی قوم کو طاقتور بنا سکتی ہے اور اسے مخالف قوتوں کے خلاف کھڑا ہونے کی ہمت دے سکتی ہے۔ مسلمانوں کو اپنی قیادت کو مضبوط کرنا ہوگا، جو ان کے مسائل کو حکمت اور دانشمندی کے ساتھ پیش کر سکے۔
مسلمانوں کو سیاسی میدان میں بھی اپنی شمولیت بڑھانی ہوگی۔ ماضی میں مسلمانوں کی سیاسی بے حسی نے ان کے مسائل کو مزید بڑھا دیا۔ انہیں اپنے مسائل کے حل کے لیے منظم اور حکمت عملی کے تحت کام کرنا ہوگا۔ اپنی الگ شناخت کو برقرار رکھتے ہوئے، مسلمانوں کو قومی دھارے کا حصہ بننا ہوگا۔ سیاسی نمائندگی کے بغیر کوئی بھی کمیونٹی اپنی آواز بلند نہیں کر سکتی۔
اپنی ثقافت اور شناخت کی حفاظت کے لیے مسلمانوں کو اپنی زبان، ادب، اور تاریخ کو زندہ رکھنا ہوگا۔ اردو زبان، جو مسلمانوں کی ثقافتی شناخت کا ایک اہم حصہ ہے، کو فروغ دینا نہایت ضروری ہے۔ اسی طرح، اسلامی ورثے کو محفوظ رکھنے کے لیے تعلیمی اور ثقافتی ادارے قائم کرنے ہوں گے۔
مسلمانوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ احتجاج اور شکایت کے بجائے مثبت عمل اور تعمیری اقدامات ہی ان کی حالت بہتر کر سکتے ہیں۔ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے، انہیں مختلف شعبوں میں اپنی مہارت ثابت کرنی ہوگی، چاہے وہ سائنس ہو، فنون ہو، یا قانون کا میدان۔ ماضی میں مسلمانوں نے اپنے علم اور قابلیت کے ذریعے عظیم کارنامے انجام دیے، اور آج بھی وہ اپنی محنت اور لگن کے ذریعے اپنے لیے ایک نیا راستہ بنا سکتے ہیں۔
تاریخ کا سبق یہ ہے کہ وہ قومیں جو تعلیم، اتحاد، اور خود مختاری کو اپناتی ہیں، وہی اپنی حالت بدلنے میں کامیاب ہوتی ہیں۔ ہندوستان کے مسلمانوں کو اپنی تمام تر مشکلات کے باوجود امید کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔ انہیں اپنے مسائل کو سمجھ کر، حکمت عملی کے تحت کام کرنا ہوگا، تاکہ وہ اپنی عظمت کو دوبارہ حاصل کر سکیں اور ایک مضبوط قوم کے طور پر ابھر سکیں۔