۱۸ ؍دسمبر عالمی یوم عربی زبان کے موقع پر
عربی زبان کا موجودہ منظر نامہ: غور وفکر کے پہلو
از:- ڈاکٹر جسیم الدین
مترجم، محکمہ کابینہ سکریٹریٹ،پٹنہ،بہار
______________________
زبانوں کی ترویج وتشہیر اور ترسیل وتسہیل ، ان کے بولنےاور برتنے والوں کی دلچسپی اور ذوق وشوق پر منحصر ہے، کسی بھی زبان کو آفاقیت عطا کرنے کے لیے اس کے ساتھ گہری وابستگی ووارفتگی اور اس کی ترویج وتشہیر پر بھی غیر معمولی محنت درکار ہوتی ہے۔وہی زبان اپنا تشخص اور وجود برقرار رکھ پاتی جس کے بولنے ، لکھنے اور پڑھنے والوں کی تعداد روز افزوں ہوتی ہے۔بقول ڈاکٹر احسان الحق:’’زبانوں کا یہ وطیرہ رہاہےکہ وہ اختلاط، مزاحمت اور انقلاب برداشت نہیں کرتیں، فنا ہوجاتی ہیں، یا اپنی ہیئت اور اصلیت کھو بیٹھتی ہیں، یا پرانا چولا بدل کر نیا پہن لیتی ہیں، جس سے ان کی قدیم پہچان تک مشکل ہوجاتی ہے،جس طرح زندہ قوم وہ ہے، جو ہمیشہ انقلابات کامقابلہ کرے، اسی طرح زندہ زبان وہ ہے، جو انقلابات وتغیرات کا ہمیشہ مقابلہ کرےاور ہر دور کی ضروریات کو پورا کرتی رہے‘‘۔
(اردو عربی کے لسانی رشتے، قرطاس،پوسٹ بکس نمبر ۸۴۵۳ کراچی یونیورسٹی، کراچی، دسمبر ۲۰۰۵)
اس میں کوئی شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ عربی زبان کی حفاظت کی ذمہ داری خود خالق کائنات نے لے لی ہے، اس لیے یہ زبان ہمیشہ زندہ وپائندہ رہے گی، لیکن اس کو آفاقیت بخشنے کے لیے اس زبان سے وابستہ ہر شخص کی ذمہ داری ہے وہ اپنے حصے کا فرض ادا کرے۔یہ سچائی ہے کہ ہندستان کے طول عرض میں پھیلے مدارس ومکاتب میں زیر تعلیم طلبہ وطالبات اپنے بنیادی سبق کا آغاز ہی عربی کی ابتدائی کتاب سے کرتے ہیں، یہاں کی بنیادی تعلیم میں درجہ بہ درجہ دیگر کتابوں کے ساتھ عربی قواعدوزبان کی کتابیں بھی پڑھائی جاتی ہیں، لیکن بحیثیت زبان وادب اس معیار پر توجہ نہیں دی جاتی کہ یہاں کے مروجہ نصاب کوپڑھ کر وہ خود کوعربی زبان وادب کے ماہرین کی صف میں شامل کراسکیں، البتہ وہ اس حد تک زبان سے واقف ضرور ہوجاتے ہیں کہ عربی زبان میں لکھی ہوئیں متداول کتابوں کو پڑھ کر سمجھ لیں،بالفاظ دیگر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مدارس میں عربی کی تعلیم بحیثیت زبان وادب نہیں دی جاتی ، بلکہ عربی زبان کو پڑھنے اور سمجھنے کے لیے قدیم نصاب کے طور پر داخل کتب کے ذریعے ان کو عربی سے اس حد تک واقفیت ہوجاتی ہے کہ عربی زبان میں لکھی ہوئیں نصابی کتب کو بہ آسانی سمجھ لیتے ہیں، لیکن وہ عربی زبان میں ارتجالاً با ت چیت اور عربی زبان میں تحریری طور پر اپنے ما فی الضمیر کو ادا کرنے سےقاصرہوتےہیں۔ہاں یہاں ہم ان مدارس کا استثنا کرسکتے ہیں ،جہاں عالمیت یا فضیلت کے بعد عربی زبان میں اختصاص کے شعبے قائم ہیں ، یہاں سے مستفید ہونے والے طلبہ اس حد تک عربی زبان وادب پر عبور حاصل کرلیتے ہیں کہ وہ عربی زبان وادب کو بخوبی سمجھ بھی لیتے ہیں اور اپنے مافی الضمیر کو تحریری شکل دینے میں بھی کامیاب نظرآتے ہیں۔ملک کے بعض نمائندہ مدارس مثلاً دارالعلوم دیوبند، دار العلوم وقف دیوبند، دار العلوم ندوۃ العلما،لکھنؤ، جامعۃ الفلاح،اعظم گڑھ،جامعہ اشرفیہ مبارکپور، اعظم گڑھ، جامعہ سلفیہ بنارس، جامعہ اشاعت العلوم اکل کوا، مہاراشٹر وغیرہ نے عصری تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے نصاب میں جہاں تبدیلی کا اہتمام کیا ہے ، وہیں عربی زبان وادب میں اختصاص کے شعبے بھی قائم کیے ہیں ، جن سے مستفید ہونے والے والے طلبہ عصری جامعات میں قائم شعبہ ہائے عربی میں داخل ہوکر اپنی صلاحیتوں کو مزید صیقل کرکے عربی زبان میں پائے جانے والے روزگار کے مواقع کو بھی حاصل کرلیتے ہیں۔
ملک کی بیشترعصری جامعات اوربعض اسکولوں میں بھی عربی زبان داخل نصاب ہے ،جن یونیورسٹیوں میں عربی زبان وادب کی تعلیم کاسلسلہ جاری ہے ، ان میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی یونیورسٹی، سینٹ اسٹیفنزکالج، دہلی یونیورسٹی، ذاکر حسین دہلی کالج، دہلی یونیورسٹی، جواہر لال نہرو یونیورسٹی، اندرا گاندھی نیشنل اوپن یونیورسٹی، دہلی، لکھنؤ یونیورسٹی، خواجہ معین الدین چشتی لینگویج یونیورسٹی، کشمیر یونیورسٹی، لکھنؤ،بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی، جموں وکشمیر، بنارس ہندویونیورسٹی،ممبئی یونیورسٹی، ممبئی، الٰہ آباد یونیورسٹی، عثمانیہ یونیورسٹی، حیدر آباد، افلو یونیورسٹی، کلکتہ یونیورسٹی، گوروبنگار یونیورسٹی، مالدہ، مغربی بنگال، بردوان یونیورسٹی، آسام یونیورسٹی، برکت اللہ یونیورسٹی بھوپال، پٹنہ یونیورسٹی، پٹنہ،مولانامظہر الحق عربی وفارسی یونیورسٹی، پٹنہ، اور ایم ایس یونیورسٹی، برودہ گجرات بطور خاص قابل ذکر ہیں ، جہاں پیشہ ورانہ طور پر عربی زبان وادب کی تعلیم دی جاتی ہے، یہاں گریجویشن ، پوسٹ گریجویشن ، ڈاکٹریٹ کے علاوہ شارٹ ٹائم اور پارٹ ٹائم کورسیز کے طور پر عربی زبان میں سرٹیفیکٹ، ڈپلوما، اڈوانسڈ ڈپلوما کرائے جاتے ہیں، یہاں فنکشنل عربی پر خاص توجہ دی جاتی ہے اور مارکیٹ کی ڈیمانڈ کے مطابق عربی زبان پڑھائی جاتی ہے، یہاں زیر تعلیم طلبہ وطالبات میں برادران وطن بھی شامل ہوتے ہیں اور وہ عربی زبان کی تعلیم حاصل کرکے روزگار کے مواقع بھی حاصل کرتے ہیں ۔
یہ سچائی ہے کہ عربی زبان صرف ایک مذہبی زبان نہیں ہے ، بلکہ یہ آج معاش کی زبان بھی بن چکی ہے ، بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں عربی زبان بولنے والوں کو ہائر کررہی ہیں، سافٹ ویئر کمپنیاں بھی عربی زبان جاننے والوں کو روزگار کے مواقع فراہم کررہی ہیں، ہندوستان میں سستا علاج دستیاب ہونے کی وجہ سے بیرون ممالک بطور خاص عرب ممالک کے سیکڑوں مریض دہلی واطراف میں موجود ملٹی اسپیشلٹی ہاسپیٹلز کا رخ کرتے ہیں، یہاں مریض اور طبی عملہ کے درمیان رابطے کے لیے مترجم کی ضرورت پیش آتی ہے، اس لیے مڈیکل ٹورزم(السیاحۃ الطبیۃ) میں بھی سیکڑوں کی تعداد میں دہلی واطراف میں عربی مترجم روزگار سے جڑے ہوئے ہیں۔عالمی مارکیٹ میں بھی عربی زبان کے جاننے والوں کی ضرورت پیش آتی ہے، یہاں بھی کال سینٹرس اور کسٹمر کیئرس کے لیے عربی داں افراد کو ہزاروں کی تعداد میں روزگار ملتے ہیں ۔امیزون، منترا، فلپ کارٹجیسی آن لائن کمپنیوں کو عربی داں افراد کی ضرورت پیش آتی ہے اور یہاں بھی بڑی تعداد میں عربی زبان جاننے والے ملازمت کرتے ہیں۔ حکومت کی نوڈل ایجنسی قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے زیر نگرانی پورے ہندستان میں ۲۴۷؍ ایسے سینٹر چل رہے ہیں ،جہاں ایک سالہ عربی سرٹیفکٹ کورس اور ڈپلومہ کرایا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ اردو جاننے والوں کو عربی سکھانے کے لیے دو سالہ ڈپلوما ان فنکشنل عربک کورس بھی چلایا جارہا ہے، جس کے تقریبا ملک بھر میں ۲۲۵؍ سینٹر چل رہے ہیں۔ جن سے مستفید ہونے والے مسلم وغیر مسلم طلبہ وطالبات روزگار کے مواقع حاصل کررہے ہیں۔دہلی یونیورسٹی کے شعبۂ عربی میں جاری پارٹ ٹائم کورسیز سرٹیفیکٹ ، ڈپلوما اور اڈوانسڈ ڈپلوما سے پاس آؤٹ طلبہ وطالبات مڈیکل ٹورزم اور دیگر ملٹی نیشنل کمپنیوں میں روزگار سے جڑے ہوئے ہیں۔ اس کورس کی کامیابی اور افادیت کو دیکھتے ہوئے شعبۂ عربی دہلی یونیورسٹی کے سابق صدر پروفیسر ولی اختر مرحوم نے دہلی یونیورسٹی سے ملحقہ ان کالجز کے۱۲؍ پرسنپلوں کو خطوط لکھ کر یہ مطالبہ کیا جہاں بیرونی زبان کے کورسیز ہیں ، وہاں عربی زبان کو بھی بطور الیکٹویا پارٹ ٹائم کورسیز شروع کیے جائیں ، چار کالجزکے پرنسپلوں کی جانب سےمثبت جواب ملے، لیکن پروفیسر مرحوم کورونا وبا میں داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔ کاش ان کے رفقا اس پہلو پر اپنی توجہ مبذول کرتے اور مرحوم کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرتے۔ہندوستان کی عصری درسگاہوں میں قائم شعبہ ہائے عربی کی روشن تاریخ رہی ہے ، ہمارے پیش رونے جو زریں سلسلہ شروع کیا، اس کو برقرار رکھنا بلکہ اس کڑی کو آگے بڑھا نا اخلاقی فریضہ ہے، ہمیں اس کا بھی محاسبہ کرنا چاہیے کہ آخر وہ کون سے اسباب وعوامل ہیں کہ آج عصری جامعات کے شعبہ ہائے عربی علامہ عبد العزیز میمنی، ابو المحفوظ عبد الکریم معصومی، مختار الدین آرزو، نثار احمد فاروقی اور عبد الحلیم ندوی جیسے لعل وگہر پیدا کرنے سے بانجھ پن کا شکار ہوگئے؟
کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ ہم نے اپنی ذمہ داری سے پہلو تہی شروع کردی ہے اور ایسے افراد کو مین اسٹریم میں لانے لگے ہیں ،جنھیں اپنی ذمہ داری کااحساس تک نہیں۔اگر ایسا ہے تو ہمیں ایسے افراد کو مین اسٹریم میں لانا چاہیے جو اپنے پیش رو کے کام کو آگے بڑھانے کی دلچسپی رکھتے ہوں ، عربی زبان وادب کی ترویج واشاعت ان کا نصب العین ہو، تبھی ہم عربی زبان کی صحیح طور پر آبیاری کرسکتے ہیں، ورنہ تاریخ خود کو دہراتی ہے ،کہیں ایسا نہ ہو کہ ہماری تساہلی اور سلیکشن کمیٹی میں غیر منصفانہ برتاؤ سے شعبہ ہائے عربی کا مستقبل تابناک ہونے کی بجائے اس کی رونق مدھم ہوجائے اور ہمارے مجرمانہ عمل سے ترقی کی رفتار کو قدغن لگ جائے۔گولڈ میڈل اور پوسٹ ڈاکٹورل فیلو جیسے اعلیٰ ریسرچ کامرحلہ مکمل کرچکے متحرک امیدوار کو نظر انداز کرکے صرف تملق اور ذاتی مراسم کی بنا پر تھرڈ ڈویزن کی ڈگری والوں کو دانشگاہوں میں پڑھانے کا موقع دیا جارہاہے، جس سے عربی زبان کی تعلیم ترقی کی بجائے تنزلی کا شکار ہے، بعض اکسپرٹ کی علمی بددیانتی کا جادو سرچڑھ کر بولتاہے ، وہ لائق وفائق امیدوار کو مسترد کرنے کے لیے غیر متعلقہ مضامین سے سوالات کرکے امیج متاثرکرتے ہیں ، تاکہ اپنے من پسند امیدوار کے لیے راہ ہموار ہوجائے۔معاملہ غیر ملکی زبان کا ہوتا ہے اس لیے سلیکشن کمیٹی کے دیگر اراکین سوالات کی سطح میں فرق نہیں سمجھ پاتے ہیں، نتیجتا صحیح اور ذی استعداد امیدوار کو منتخب کرنے لیے مضمون کے ماہر کی رائے لینا ضروری سمجھتے ہیں اور یہ اپنا کام بہ آسانی انجام دے دیتے ہیں۔ہمیں دیانت داری سے کام لیتے ہوئے اہل امیدوار کا انتخاب کرنا چاہیے تاکہ زبان کی تدریس کی صورتحال میں بہتری آئے۔
یہ بھی حقیقت ہےکہ عربی زبان اپنی جائے پیدائش کی حد تک غیر ملکی زبان ہے، اس کے استعمال کی شرح ، اس کی ترویج واشاعت اور اس کے سیکھنے سکھانے والوں کے تاریخی تسلسل پر نظر دوڑائی جائے تو اس کو بھی ہندستان میں فروغ پانے والی زبان کا نام دیا جاسکتا ہے۔اکیسویں صدی میں بھی عربی زبان کا جادو صرف مسلمان ہی نہیں غیر مسلموں کے بھی سر چڑھ کر بول رہا ہے۔شعبۂ عربی دہلی یونیورسٹی سے پاس آؤٹ پروفیسر شیو رائے چودھری نہ صرف شعبۂ عربی دہلی یونیورسٹی کے کئی سال تک صدر شعبہ رہے ، بلکہ انھوں نے مصر میں بھی عربی زبان وادب سے وابستہ رہ کرخدمات انجام دیں۔ان کی کئی تصانیف عربی زبان میں مصدر ومرجع کی حیثیت رکھتی ہے، جن میں ’مدرسۃ الدیوان‘، ’نہضۃ العرب‘ بطور خاص قابل ذکرہیں۔شعبۂ سنسکرت دہلی یونیورسٹی کے استاذ ڈاکٹر بلرام شکلا فارسی کے علاوہ عربی زبان میں دسترس رکھتے ہیں۔ دہلی سے شائع ہونے والے ایک روزنامہ میں شائع رپورٹ کے مطابق:’’دہلی میں لاجپت نگر سینٹرل مارکیٹ کی رہائشی کالونی اور بالخصوص گاندھی پارک، حوض رانی سے متصل آبادی میں غیر مسلموں کے چائے خانوں، پھلوں کی دکانوں، ٹورسٹ دفاتر، کھانے کے ہوٹلوں اور کیمسٹوں پر عربی کا واضح انداز میں استعمال کیا جانا اور کمروں کے خالی ہونے کی صورت میں (سکنۃ للایجار) جیسے جملوں کا عربی میں تحریر کیا جانا عربی سے روزگار کے جڑے ہونے کی دلیل ہے۔ اتنا ہی نہیں گیسٹ ہاؤس کی طرز پر خالی جگہ اور گھر کے استعمال کی اشیا کا پیغام(مفروشات غرف) جیسے الفاظ کا غیر مسلموں کی دکانوں کے دروازوں پر لکھا ہونا عربی کی ضرورت کو تسلیم کراتا ہے۔
ملک کے طول وعرض میں پھیلی ہوئی بائیس سے زیادہ یونیورسٹیاں عربی زبان کی ترویج واشاعت میں سرگرم ہیں۔عصری جامعات کے تقریبا ً۲۵؍ شعبے اس زبان کی تدریس میں مصروف ہیں۔ یہی نہیں ملک کے صدر جمہوریہ ہر سال سنسکرت کے ساتھ عربی کے ممتاز اساتذہ کو اس زبان میں خدمات کے لیے ایوارڈ اور اعزاز سے انہیں نوازتے ہیں۔جو اس زبان کی ملکی اہمیت کو بھی بتاتا ہے ،لیکن بدقسمتی سے اسے بیرونی زبان کے زمرے میں رکھ کر ملک کے مؤقر مقابلہ جاتی امتحان لینے والے ادارے’یونین پبلک سروس کمیشن‘ نے اسے اپنے امتحان کی فہرست سے خارج کردیا، اس پر صدائے احتجاج بھی بلند کی گئی ، لیکن حکومت اپنے فیصلے پر قائم رہی۔تاہم حکومت بہار نے ’بہار پبلک سروس کمیشن‘ (بی پی ایس سی ) کے مقابل جاتی امتحان میں عربی زبان وادب کے مضمون کو ہنوز باقی رکھا ہے، اس لیے عربی زبان وادب سے وابستہ طلبہ وطالبات اس مقابلہ جاتی امتحا ن میں شریک ہوکر انتظامیہ میں بھی آسکتے ہیں، ان کے لیے ترقی کی راہیں یہاںکھلی ہوئی ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ عربی زبان کی معاشی اور تجارتی دنیا میں بھی اہمیت بڑھتی جارہی ہے۔ عربی زبان ہمیں عرب ممالک اور مشرق وسطی سے مربوط رکھتی ہے جو عالمی سیاسی منظر نامے پر مستحکم شناخت کے حامل ہیں۔پٹرول ، گیس اور دوسری قدرتی اشیاء کی پیداوار صرف عرب ملکوں میں ہوتی ہے، جس کے لین دین کے لیے عربی زبان میں بہترین مترجم اور معاہدہ کار کی ضرورت پڑتی ہے، یہ کام ایک اچھا عربی داں ہی انجام دے سکتاہے۔کیا انھیں یہ معلوم نہیں کہ عربی زبان صرف قرآن و حدیث اور مذہب کی زبان نہیں، بلکہ وہ آج صنعت و حرفت اور تجارت کی زبان بھی بن گئی ہے۔ بڑے بڑے تجارتی اور سیاسی ڈیل اس زبان میں انجام پاتے ہیں۔موجودہ عہد گلوبلائزیشن کا عہد ہے۔ پوری دنیا ایک گلوبل ولیج میں تبدیل ہوگئی ہے۔ ایسے میں زبانوں کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ عربی زبان کے ذریعے ہم عربی بولنے والے ممالک سے اپنا سیاسی اور تجارتی رشتہ استورا کرسکتے ہیں۔ ہمیں اس زبان کی ترویج واشاعت میں مخلصانہ رول ادا کرنے کےلیے ضروری ہے کہ ان افراد کی حوصلہ افزائی بھی جائے جو واقعی اس زبان کی آبیاری میں روز وشب کو ایک کیے ہوئے ہیں۔کسی بھی ادارے میں اہل افراد کو موقع دیا جانا چاہیے ،تاکہ وہ خوش اسلوبی سے اس پاکیزہ زبان کی ترویج واشاعت میں اپنا فرض ادا کرےتبھی اس زبان کو وہ حق ملے گا، جس کا یہ زبان متقاضی ہے۔
میرے جنوں کا نتیجہ ضرور نکلے گا
اسی سیاہ سمندر سے نور نکلے گا