فتنۂ ارتداد : اسلام سے دور کرنے کی منظم سازش
از:- مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ جھارکھنڈ
____________________
اسلام مخالف طاقتیں روز اول سے اس کوشش میں رہی ہیں کہ کسی طرح مسلمانوں کو دین سے بیزار کر کے راہ ہدایت سے ہٹا کر راہ ضلالت پر ڈال دیا جائے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ایمان قبول کرنے والوں پر ظلم وستم کے پہاڑ اسی لیے توڑے جاتے تھے کہ وہ کسی طرح کلمہ کا انکار کرکے پھر سے ضلالت وگمراہی اور شرک وبت پرستی کی راہ پر لگ جائیں، لیکن یہ کام اس دور میں ممکن نہیں ہو سکا؛ کیوں کہ جامِ وحدت پی کر جو ایمان ویقین ان کے سودائے قلب میں جاگزیں ہو گیا تھا اور معرفت الٰہی کی جو لذت انہیں ملی تھی، اس نے اس قدر انہیں سرشار کر دیا تھا کہ ایمان کا سرور کسی بھی ظلم وستم سے دور نہیں ہوسکا، بعد میں مسیلمہ کذاب کے زمانہ میں خود اس نے اور جھوٹے مدعیان نبوت ومہدیت نے ایک شیطانی نظام کے تحت مسلمانوں کو برگشتہ کرنے کا کام کیا ، فرقۂ باطنیہ کے عروج نے کتنے ایمان والوں کو موت کے گھاٹ اتارا، اور کتنوں کو مصنوعی جنت کا خواب دکھا کر ایمان واسلام سے دور کرنے میں کامیابی حاصل کی۔
ہندوستان میں حزب الشیطان نے اس مہم کے ذریعہ بھولے بھالے اور سیدھے سادے مسلمانوں کو اپنا شکار بنایا، قلوب میں شکوک وشبہات پیدا کرکے مسلمانوں کو دین سے برگشتہ کرنے اور اسلامی احکام ومعتقدات پر اعترضات کرکے اس کی حقانیت پر سوالات کھڑے کیے ، کبھی نیچریت نے زور پکڑا، کبھی حدیث کا انکار کیا گیا اور کبھی اسلام کے سارے احکامات وجزئیات کو قرآن کریم تک محدود کر دیا گیا ، ہندوستان سے باہر متشرقین نے اس کام کا بیڑا اٹھایا اور بزعم خود علمی انداز میں اسلام کے مسلمات کو اعتراضات کا نشانہ بنایا، ہندوستان کا وہ طبقہ جو ہندوستان سے آکسفورڈ ، کیمرج اور دوسری یورپی درسگاہوں میں حصول تعلیم کو فخر و مباہات کا ذریعہ سمجھتا تھا اور مغرب سے آنے والی ہر ہوا ان کے دماغ کو تروتازہ رکھتی تھی، متشرقین کے احساسات وخیالات اوران کی غلط فہمیوں پر مبنی تخیلات و تحقیقات کو ہندوستان بر آمد کر لیا اور اپنی ہمہ دانی کے زُعم میں اسے ہندوستان میں تیزی سے پھیلانے کا کام کیا، اس طرح ہندوستان کی حد تک متشرقین یورپ کی ضرورت باقی نہیں رہی، وہاں کے بیش تر فضلاء اور فارغین نے مرعوبیت کے زیر اثر متشرقین کے شکوک وشبہات پھیلانے کے کام کو اپنے ذمہ لے لیا ، اب نقل (قرآن وحدیث) کے بجائے عقل میزان ہو گئی اور جو بھی چیز کھوپڑی میں نہیں سما سکی، اس کا انکار کیا گیا اور بڑی تعداد میں مسلمان اس سے متاثر ہوئے، روس کے انقلاب کے بعد ایک بڑا طبقہ مارکسزم اور لینن واد کے زیر اثر گیا، جس کی وجہ سے مارکسی اور ترقی پسند ادب نے یہاں فروغ پایا ، معاش کے حصول اور سرمایہ دارانہ نظام کو معطل اور کالعدم کرنے کے چکر میں مذہب بیزاری ، دین سے دوری ، اس قدر عام ہوگئی کہ دین ومذہب، خدا ورسول ، جنت وجہنم ، تقدیر خیر وشر کا تصور ذہن سے نکل گیا ، اس شجر خبیث سے جو سلسلہ چلا اس نے دہریت اور خدا کے تصور کے بغیر ساری کائنات کوعناصر میں ظہور ترتیب کا نتیجہ قراردیا ، اس لیے اس دور کے بہت سے ادبا، شعراء اور مفکرین نے مرنے کے بعد دفن ہونے کے بجائے، ’’پنج تنر میں ویلین‘‘ ہونے کے لیے اپنے کو آگ کے حوالہ کرنے کی وصیت کی اور دنیا ہی میں ان کو آگ نے جلا کر نمونۂ عبرت بنا دیا ، فکری ارتداد کا یہ سلسلہ مختلف عنوانوں سے آج بھی جاری ہے، بقول حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، ’’ارتداد دبے پاؤں آتا ہے، غیر محسوس طریقہ پر داخل ہوتا ہے اور ایسا میٹھا زہر بن کر حلق سے اترتا ہے کہ زہر کھا کر بھی انسان تحسین و تعریف کے جملے کہتا ہے۔‘‘
ایک دوسرے طبقہ نے ارتداد کے جراثیم، مذہب کی چادر اوڑھ کر پھیلانا شروع کیا، مہدویت اور قادیانیت کی تحریک نے ختم نبوت کے عقیدے پر چوٹ کیا اور مرزا غلام احمد قادیانی اور ان کے چیلوں نے ارتداد کی نئی مہم شروع کی، یہ مہم مذہب کی آڑ میں شروع کی گئی تھی؛ اس لیے زیادہ خطرناک تھی، چنانچہ مولانا ثناء اللہ امرتسری ؒ، حضرت علامہ انور شاہ کشمیریؒ ، قطب عالم حضرت مولانا محمد علی مونگیریؒ وغیرہ نے اس کو اکھاڑ پھینکنے کے لیے پوری توانائی لگادی، حضرت مونگیری کا یہ جملہ ایک زمانہ میں زبان زد خلائق تھا کہ ’’قادیانیوں کے خلاف اتنا لکھو اور اتنا چھاپو اور اس قدر تقسیم کرو کہ ہر مسلمان جب صبح اٹھے تو اس کے سرہانے قادیانیوں کے خلاف کوئی نہ کوئی رسالہ اور کتابچہ موجود ہو‘‘، علماء کی جد وجہد نے کام کیا، اس فتنہ کے سیلاب بلا خیزپر بند باندھا گیا، اس کی طغیانی میں کچھ کمی آئی ہے، پاکستان میں اسے پارلیامنٹ کے ذریعہ غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے باوجود اس فتنہ کا پورے طور پر قلع قمع اب بھی نہیں کیا جا سکاہے، اور انگریزوں کی یہ کاشت امریکہ ، برطانیہ ہی میں نہیں، ہمارے ملک میں بھی اپنے قدم جمانے میں لگی ہوئی ہے، اس کے عبادت خانے مختلف شہروں میں موجود ہیں، اس کے مکتبے اور رسائل اس کے معتقدات کو پھیلانے میں لگے ہوئے ہیں۔
قادیانیت ہی کی ایک شاخ شکیل بن حنیف کا فتنہ ہے، جوان دنوں یونیورسٹی اور کالج کے طلبہ میں برگ وبار لا رہا ہے، شکیل بن حنیف (ولادت 1964ء) پیدا عثمان پور رتن پورہ دربھنگہ میں ہوا، تعلیم انجینئرنگ کی پائی، اس نے پہلے لکچھمی نگر دہلی میں ایک مکان کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنایا اور اب ان دنوں اورنگ آباد شہر سے باہر ’’پڑے گاؤں‘‘ میں جا کر پڑگیا ہے، رحمت نگر کے نام سے پوری کالونی پولیس اکیڈمی کے قریب بنا لیا ہے اور جس طرح قادیانی جال میں پھانس کر قادیان لے جاتے ہیں اسی طرح یہ اپنے ماننے والوں کو اورنگ آباد بلاتا ہے، اور ذہنی تطہیر کے مرحلہ سے گذارتا ہے، یہ فتنہ اس قدر بڑھ رہا ہے کہ ابھی ایک سال قبل ایک مذہبی خانوادہ میں نکاح پڑھانے کے لیے جانا ہوا، ایک بڑے عالم بھی تشریف لے گیے تھے، نکاح سے قبل خبر ملی کہ یہ لڑکا شکیل بن حنیف کا مرید ہے، بلا کر حضرت نے بہت سمجھایا ، مہدی موعود کی علامت والی حدیثیں بھی سنائیں لیکن وہ ٹس سے مس نہیں ہوا، مجبوراً ہمیں اس نکاح کو روک دینا پڑا، حضرت مولانا جب کوئی حدیث سناتے تو وہ کہتا کہ یہ علامت شکیل بن حنیف میں پائی جا رہی ہے، بالآخر وہ گاؤں چھوڑ کر شکیل کے پاس چلا گیا ، یہ ایک واقعہ ہے، لیکن اس سے معلوم ہوتا ہے، کہ اس کا فتنہ دیندار مسلم گھرانوں تک پہونچ رہا ہے، اس لیے اس کے تعاقب کی سخت ضرورت ہے، واقعہ یہ ہے کہ فتنوں کے اندھیرے ہماری دیواروں تک پہونچ گیے ہیں، اور ہمارے دروازوں پر دستک دے رہے ہیں۔
اس لیے اس فتنہ کو اکھاڑ پھینکنے کے لیے ہرسطح پر کام کرنے کی ضرورت ہے، ہمت اور ثابت قدمی کے ساتھ اہل خانہ کی فکری و ایمانی تربیت اس انداز میں کرنی چاہیے کہ وہ فتنوں سے با خبر رہیں، تاکہ ان کے جال میں نہ پھنسیں، جن علاقوں میں فتنے پھیل رہے ہیں، اس کا جائزہ لے کر علماء، ائمہ مساجد ، مذہبی تنظیموں کو متوجہ کیا جائے، تاکہ اس فتنہ کے تدارک کے لیے وہ آگے آسکیں ۔ بچوں کو فکری ارتداد سے بچانے کے لیے انہیں مشنری اسکولوں اور ایسے اداروں میں پڑھانے سے بھی گریز کرنا چاہیے، جہاں دیوی دیوتاؤں کی پوجا ، وندنا ، یوگا، پرارتھنا،ان کی روٹین کا حصہ ہو اور جہاں عیسائیت اور ہندوازم کو قومی ثقافت و کلچر ، تہذیب وراثت کا حصہ بتاکر بچوں کے معصوم ذہنوں کو زہر آلود کیا جا رہا ہو۔