ستارے "شام” کے خونِ شفَق میں ڈوب کر نکلے
از:- ڈاکٹر محمد اعظم ندوی
_______________
دنیا کی تاریخ شاید ہی کسی خطہ پر ان آزمائشوں کی شاہد رہی ہو جن سے مشرق وسطیٰ کے ممالک کو دوچار ہونا پڑا ہے، یہاں کے شہروں پر بم برسائے گئے، گاؤں کے گاؤں اجاڑ دیے گئے، لاکھوں انسان اپنے گھروں، زمینوں اور اپنی شناخت سے محروم کر دیے گئے، یہ خطہ صرف اپنے وسائل کی لوٹ مار کا شکار نہیں ہوا، بلکہ ظلم وجبر کے ایسے تجربات سے گزرا ہے جو انسانی شعور کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتے ہیں، شام کے المیہ کی سب سے دردناک تصویر اُس پاک دامن، باعفت اور مظلوم بیٹی کی کہانی میں جھلکتی ہے، جو انیس برس کی عمر میں قید وبند کی تاریکیوں میں ڈال دی گئی، وہ مومنہ جس کا دامن شرم وحیا اور عزت ووقار کے موتیوں سے روشن تھا، اپنی جوانی کی حسین ترین ساعتیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے گنوا بیٹھی، جب تیرہ برس بعد وہ دنیا کی روشنی میں لوٹی، تو اس کے ساتھ وہ تین معصوم بچے بھی تھے جن کے چہروں پر سوال تھے، اور جن کے باپ کا کوئی نام نہ تھا،نہ جانے کتنی مسلم بہنوں کو وہاں جنسی استحصال اور زیادتیوں سے گزرنا پڑا ہوگا، یہ سب سن کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں، یہ مظلومیت انسانی ضمیر کو جھنجھوڑ دینے والی ہے، ایک ایسی چیخ جو دلوں کو دہلا دیتی ہے۔
مگر ان زخموں نے ان کے عزم کو کبھی شکست نہ دی، نہ وہ جھکے، نہ انہوں نے اپنے وقار کا سودا کیا، نہ مایوسی کو اپنے قریب پھٹکنے دیا، یہ کہانی صرف ایک فرد کی نہیں، بلکہ ایک قوم کے صبر وشکیبائی، غیرت وحمیت، اور عزیمت کی وہ گواہی ہے جو وقت کی دھند میں کبھی ماند نہیں پڑے گی، یہ المیہ ان کے حوصلوں کی وہ شمع بن گیا، جو ظلم کی تاریکیوں میں روشنی پھیلاتی رہی، دمشق میں ایک بار پھر وہی پرچم بلند ہو رہا ہے جو مشرقِ وسطیٰ کی سب سے حسین بہار "عرب بہاریہ” کا امین تھا، وہ انقلاب جو خوابوں کی زمین پر امیدوں کے پھول بن کر کھلا، مگر جبر واستبداد کے قدموں تلے روند دیا گیا، افسوس کہ جاہلیت کے ٹھیکیداروں نے اپنی طاقت سے اسے کچلنے کی کوشش کی، مگر ان کے گمان کی بنیادوں میں خام خیالی کے سوا کچھ نہ تھا، یہ صرف ایک تحریک نہیں تھی، بلکہ ایک عہد تھا جوپھر شام میں پورا ہوا، معروف نوجوان تیونسی شاعر ابو القاسم الشابی مرحوم نے کہا تھا، اور یہ اشعار تیونس کے قومی ترانے کا حصہ ہیں:
إذا الشعب يوماً أراد الحياة
فلا بد أن يستجيب القدر
ولا بد لليل أن ينجلي
ولا بد للقيد أن ينكسر
(جب کوئی قوم زندہ رہنے کا عزم کر لے، تو تقدیربھی اس کی لاج رکھ لے گی، رات کی تیرگی مٹ کر رہے گی، اور زنجیریں ٹوٹ کر بکھر جائیں گی)۔
ظالم حکمرانوں کی سلطنتیں ہمیشہ تین ستونوں پر کھڑی رہتی ہیں، سرکاری مشینری کا بے رحمانہ تشدد، درباریوں اورمقربین کی بدعنوانیاں، اور میڈیا کا مکروہ چہرہ، یہی حربہ تھا جسے دمشق کے ڈکٹیٹر بشار نے اپنی حکومت کو قائم رکھنے کے لیے نہایت سفاکی کے ساتھ آزمایا، لیکن اللہ کا فیصلہ دیکھئے کہ "صیدنايا” کی تاریک کوٹھریاں، جہاں 2011 سے اب تک 13 ہزار تک قیدیوں کو سزائے موت دی جا چکی تھی، جہاں مظلوموں کی آہیں دبائی گئیں، آج امید کے مینار بن چکی ہیں، قیدی آزاد ہو چکے ہیں، اور شام کی فضائیں ان کے لیے مسکرا رہی ہیں،”شام آزاد ہے” کے نعروں سے گونجتی گلیاں اور رقص کرتے عوام تاریخ کے صفحات پر ایک نیا باب لکھ رہے ہیں، تاریخ کا سبق یہی ہے کہ ظلم ہمیشہ اپنی ہی بنیادوں سےزمیں بوس ہو جاتا ہے، وہی عوام، جنہیں خوف سے خاموش کر دیا گیا تھا، ایک دن جاگے، ان کے ہاتھوں نے ظالموں کے مجسمے گرا دیے،ان کے بچوں نے ان پر پیشاب کردیا، ان پر جوتوں کی بارش کی، ان کے محلوں میںبے خوفی سے قدم رکھا، اور وقت کے آمر کو اپنے آقاؤں کے دربار میں پناہ مانگنے پر مجبور کر دیا، تشدد اور ظلم کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ وہ انجام کو مؤخر تو کر سکتا ہے، مگر بدل نہیں سکتا، عرب حکام کے لیے یہی وقت ہے کہ انکار کی روش کو ترک کر کے حقیقت کو تسلیم کریں، اورعوام کی آواز کو دبانے کے بجائے اسے سننے کی ہمت پیدا کریں، فیصلہ عربوں کے ہاتھ میں ہے، یہ ظلم کی داستان محض المیہ نہیں، بلکہ اس خطہ کی روح پر ایک گہرا زخم ہے، وہ زمین، جو کبھی تہذیب و تمدن کی امین تھی، آج تباہی وبربادی کی علامت بن چکی ہے، لیکن ان حادثات میں ایک سبق بھی چھپا ہوا ہے، اور وہ یہ کہ ظلم کا انجام بھیانک ہوتا ہے؛ یہی وجہ ہے کہ شامی عوام کا یہ قافلہ، جو کبھی ظلم واستبداد کے بوجھ تلے دب گیا تھا، آج اپنی تقدیر کے ماتھے پر آزادی کا جھومر سجائے سر بسجود ہے، وہ سڑکیں، جن پر کبھی خون کے دھبے پڑے تھے، آج ان پر فتح کا جشن ہے، دمشق کی فضا میں جو گھٹن برسوں سے طاری تھی، آج وہ آزادی کی خوشبو سے معطر ہو چکی ہے:
عقابی شان سے جھپٹے تھے جو، بے بال وپر نکلے
ستارے شام کےخون شفق میں ڈوب کر نکلے
ہُوئے مدفون دریا زیر دریا تیرنے والے
طمانچے موج کے کھاتے تھے جو، بن کر گہر نکلے
یہ صرف ابتدا ہے، شامی عوام کے دلوں کی آواز یہ ہے کہ تم نے ہماری کمزوریوں کے عارضی لمحات کو ہماری دائمی حقیقت سمجھ لیا، اور ہماری تاریخ کو فراموش کر دیا، یہ بھول گئے کہ یہ وہی قوم ہے جو صدیوں سے تہذیبوں کی معمار رہی ہے، اور جس کا مقام ہمیشہ تاریخ کے صفحات پر نمایاں رہا ہے، یہ تمہارا مغالطہ ہے کہ طاقت کا توازن ہمیشہ ایک جیسا رہتا ہے، تم یہ سمجھنے سے قاصر ہو کہ تاریخ کے پیمانے کبھی ایک حالت میں نہیں ٹھہرتے، عرب اپنی داخلی جد وجہد کے بعد نہ صرف اپنے حالات کو سدھاریں گے بلکہ دنیا کے نقشہ پر اپنی کھوئی ہوئی عظمت کو بھی دوبارہ حاصل کریں گے، دنیا کے غیور مسلمانوں کا شامی مسلمانوں کے تئیں یہی احساس ہے کہ آپ پر جو ظلم ڈھایا گیا، قتل وغارت گری، جلاوطنی، اور اذیت کی داستانیں رقم کی گئیں،ان پر ہمیں شدید افسوس ہے، اور سب سے بڑھ کر، ہم ان مظلوم خواتین کے لیے شرمندہ ہیں، جنہیں عقوبت خانوں میں بے انتہا مظالم کا سامنا کرنا پڑا، مہاجر کیمپوں میں اپنی عزت کو داؤ پر لگانا پڑا، یہ شرمندگی ہمارے دلوں پر بوجھ ہے، اور آج ہم ان کے قدموں میں گر کر معافی کے طلبگار ہیں، ان سے درگزر کی درخواست کرتے ہیں، ہم ان عرب حکومتوں پر نادم ہیں، جنہوں نے اپنے دروازے آپ پر بند کر دیے، حالانکہ آپ وہ لوگ ہیں جو ہمیشہ دوسروں کے لیے مہمان نوازی اور کشادہ دلی کی مثال رہے ہیں، ہم آپ کی بہادری اور عزم پر فخر کرتے ہیں، آپ کی کامیابی پر ناز کرتے ہیں، اور آپ سے محبت کا اظہار کرتے ہیں، تاہم، یہ محبت اور یہ فخر، ایک گہری تشویش کے ساتھ جڑا ہوا ہے، ہمیں ڈر ہے کہ وہی اندھیرا جو آپ نے پیچھے چھوڑ دیا، کسی اور شکل میں دوبارہ لوٹ نہ آئے۔
یہی خوف ہے جو اسلام پسند مبصرین کو آمادہ کررہا ہے کہ آپ کو وہ ایک نصیحت کریں، اور وہ یہ کہ آپ عرب بہاریہ یا اس سے قبل ہونے والی غلطیوں کو نہ دوہرائیں، علاقائی طاقتیں اپنے خنجروں کو دھار دار کرنے میں لگ گئی ہیں، اور آپ کے انقلاب کی چمک انہیں برداشت نہیں ہو رہی ہے لیکن آپ کے پاس موقع ہے کہ آپ ان غلطیوں سے سبق لیں جو ہم نے بہار عرب کے آغاز میں کی ہیں، اور ان کی قیمت بہت بھاری چکانی پڑی ہے، خدا نہ کرے آپ بھی اپنی فتح وکامرانی کی وہی قیمت ادا کریں، اپنی جد وجہد کو مضبوط بنائیں، اپنی صفوں میں اتحاد رکھیں، اور ان اسباق کو اپنی حکمت عملی کا حصہ بنائیں تاکہ آپ کے انقلاب کا شعلہ وہ آگ بنے، جو نہ صرف آپ کو جابر حکومتوں سے آزاد کرے بلکہ عرب دنیا کی ہر دیوار استبداد کو بھی راکھ کر دے، آپ کی کامیابی صرف آپ کی نہیں، بلکہ ہر اس شخص کی امید ہے جو آزادی، انصاف اور وقار کے لیے لڑ رہا ہے، سیاسیات میں ایک چیز اصول کی حیثیت رکھتی ہے کہ جتنی زیادہ انقلاب کے بعد کی عبوری مدت طویل ہوگی، اتنی ہی زیادہ انقلاب مخالف قوتوں کو اپنی صفیں منظم کرنے کا موقع ملے گا، معاشی حالات جتنے خراب ہوں گے، عوام کی مایوسی اور انقلاب سے امیدیں ٹوٹنے کا خدشہ بھی اتنا ہی بڑھ جائے گا، یہی وجہ ہے کہ سیاست دانوں کی باہمی چپقلش اور سودے بازی کے بجائے فوری استحکام کو ترجیح دینا ضروری ہے، شام میں 18 ماہ کی عبوری مدت کی بات سن کر تعجب ہوا تھا، کیوں کہ ایسی تاخیر انقلابی مقاصد کے لیے خطرہ بن سکتی ہے، جیسا کہ سوڈان میں دیکھا گیا؛ اس لیے ترجیح ایک متفقہ آئین، فوری انتخابات، اور تکنیکی ماہرین کی حکومت کو دی جانی چاہیے تاکہ معیشت بحال ہو اور شام دوبارہ خطہ کی طاقتوں کا کھلونہ نہ بن جائے، انقلاب کے بعد مصالحت اور قومی اتحاد کے نام پر ظلم کو فراموش کرنا ایک سنگین غلطی ہوگی، جیسا کہ تیونس میں "بوس خوك” کے تجربہ سے سبق ملا، یعنی ایک ایسا نعرہ دیا گیا تھا کہ اپنے ہر بھائی کو چوم کر معاف کردو، فتح مکہ کی عام معافی سے سخت ترین مجرموں کو غلاف کعبہ تھامنے پر بھی مستثنی رکھا گیا تھا، عدالت صرف انتقام یا عبوری انصاف تک محدود نہیں ہونی چاہیے، بلکہ مکمل انصاف پر مبنی ہو، جو ظالموں اور مظلوموں دونوں کے حق میں مساوی ہو، شفاف اور منصفانہ مقدمات، بین الاقوامی مبصرین کی موجودگی، اور مضبوط شواہد کے ساتھ انصاف فراہم کیا جائے تاکہ نہ صرف تاریخ محفوظ ہو بلکہ قانون کی حکمرانی کی بنیاد رکھی جا سکے، عرب دنیا میں آزاد عوام اور خود مختار ریاستوں کے درمیان یورپ کی طرز پر اتحاد قائم کرنے کی کوشش ایک قابلِ ستائش مقصد ہے، لیکن اس میں لیبیا جیسے تجربات کی غلطیوں سے سبق لینا ضروری ہے، جہاں سیاسی عدم استحکام اور داخلی کشمکش نے انقلاب کے بعد اتحاد اور ترقی کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کیں، ان غلطیوں سے بچ کر ہی حقیقی اتحاد ممکن ہے۔
دوسری طرف اسرائیل کے شدید حملوں نے خطہ کے سیاسی افق پر ایسے سوالات اٹھائے ہیں، جن کے جوابات صرف وقت دے سکے گا، سارے ثبوت ظلم وعدوان کے ضائع کئے جا چکے ہیں، اسلحوں کے ذخائر ناکارہ کردئیے گئے، یہ بات واضح ہے کہ یہ جنگ محض زمینی حدود کی نہیں، بلکہ سیاسی، اسٹریٹیجک اور نظریاتی بالادستی کی ہے، اسرائیل نے یک طرفہ گولان کی پہاڑیوں کے حوالہ سے 1974 کے جنگ بندی معاہدہ (Disengagement Agreement) کوختم کر چکا ہے، اسرائیلی افواج شام کی سرحد سے متصل غیر فوجی علاقہ پر قبضہ کر چکی ہیں، بفر زون کراس کیا جاچکا ہے، لاذقیہ میں واقع شام کی سب سے بڑی بندرگاہ تباہ کی جاچکی ہے، شام پر اسرائیل کے بڑھتے ہوئے حملوں اور زمینی پیش قدمیوں نے خطہ میں ایک نئے باب کا آغاز کر دیا ہے، ان کارروائیوں کی جڑیں شام کے سیاسی عدم استحکام اور داخلی کشیدگی میں پیوست ہیں، بشار الاسد کے زوال کے بعد پیدا ہونے والے سیکیورٹی خلا نے اسرائیل کو موقع دیا کہ وہ اپنی سرحدوں کے قریب مزید مضبوط ہو، اور ایران کے اثر ورسوخ کو محدود کرنے کے لیے عملی اقدامات کرے، یہ سب کچھ اس بڑے مقصد کا حصہ ہے، جس کے تحت اسرائیل خطہ میں اپنی بالادستی برقرار رکھنا چاہتا ہے اور کسی بھی ممکنہ خطرے کا پیشگی سدباب کرنا چاہتا ہے تاکہ گریٹر اسرائیل کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو، اسرائیل کی یہ کارروائیاں ایک گہری حکمت عملی کا پتہ دیتی ہیں، جس میں نہ صرف خطہ کے وسائل اور طاقتوں کی سمت کو تبدیل کرنا ہے بلکہ اپنے مخالفین کے لیے میدانِ عمل کو تنگ کرنا بھی شامل ہے، یہ حملے شام کے داخلی حالات کو مزید پیچیدہ بنا رہے ہیں، جہاں ایک طرف عوام پہلے ہی تباہ کن جنگ کے نتائج بھگت رہے ہیں، خطہ میں نئی محاذ آرائیاں جنم لے رہی ہیں۔
عربوں کو چاہیے کہ ان نازک حالات میں سابقہ تجربات سے روشنی حاصل کریں اور ان زخموں کو اتحاد، حکمت، اور ترقی کی بنیاد بنائیں، سیاسی اختلافات کو پسِ پشت ڈال کر اس خطہ کی تعمیر نو اور مظلوم اقوام کے دکھوں کا مداوا کریں، یہ وقت کا تقاضا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کے ممالک اپنی تاریخ کو جنگ وجدل کے بجائے امن، وحدت، اور تعمیر کے عنوانات سے سنواریں، ظلم کے خلاف مزاحمت صرف ہتھیاروں سے نہیں، بلکہ شعور اور بصیرت سے کی جاتی ہے، اور یہی راستہ مشرقِ وسطیٰ کے تابناک مستقبل کی ضمانت ہے، مشرق وسطی کی تحریکیں، وہاں کے زخم، اور وہاں کا مستقبل ایک ہی داستان کے مختلف صفحات ہیں، وہ قوتیں جو ماضی میں عربوں کی جدوجہد کو دفن کرنے پر تلی تھیں، آج بھی سرگرم ہیں، لیکن اے جوانان عرب! کیا تم اس خوف میں قید رہو گے؟ کیا تم ان خوابوں کو یوں ہی ادھورا چھوڑ دو گے جو آئندہ نسلوں کی آزادی کے ضامن بن سکتے ہیں؟ یہ لمحہ فیصلہ کا ہے، عمل کا ہے، اور تاریخ کے رخ کو اپنے حق میں موڑنے کا ہے، جو مشعل جل چکی ہے، اسے بجھنے نہ دو، وہ خواب جنہیں ادھورا چھوڑا گیا، وہ امیدیں جو تمہاری نگاہوں سے باندھی گئی ہیں، انہیں حقیقت کا لباس دو، یاد رکھو، تاریخ ان کے ساتھ ہوتی ہے جو اپنی ہمتوں سے راستے بناتے ہیں، اور ان کے خلاف ہوتی ہے جو وقت کے دھارے میں بہہ جانے کو مقدر سمجھتے ہیں، تمہارے فیصلے صرف تمہارے نہیں، آئندہ نسلوں کے مقدر کا حصہ بنیں گے، تو کیا تم اپنی نسلوں کو مایوسی اور اندھیروں کا وارث بناؤ گے، یا انہیں آزادی اور امید کے چراغ دے جاؤگے؟۔