کیا آپ اپنے بچوں کی طرف سے فکر مند ہیں؟
کیا آپ اپنے بچوں کی طرف سے فکر مند ہیں؟
بچے آپ کااور ملک کا مستقبل ہیں ان کی طرف سے غفلت بڑے خسارہ کا موجب ہوگا
از:- عبدالغفار صدیقی
والدین اپنے بچوں سے جس قدر محبت کرتے ہیں،اتنی محبت اور کوئی نہیں کرسکتا۔کہتے ہیں کہ اگر کوئی دوسرا شخص بچہ کو اس کے والدین سے زیادہ پیار کرتا ہے تو وہ فریبی اور دھوکہ باز ہے۔اس لیے کہ والدین کی محبت بے غرض ہوتی ہے،وہ اس کا کوئی بدلہ نہیں چاہتے، وہ ایثار و اخلاص کی انتہا تک اپنی اولاد پر قربان ہوجاتے ہیں۔اس کے برعکس دوسرا کوئی بھی فرد خواہ وہ حقیقی بھائی ہی کیوں نہ ہو اس کی محبت میں کوئی نہ کوئی غرض شامل رہتی ہے۔والدین کی یہ محبت بچے کی پرورش و نگہداشت کو آسان بنادیتی ہے۔لیکن ہم میں سے بیشتر والدین بچوں کی محبت میں تربیت کے پہلو سے بے اعتنائی کا شکار ہوجاتے ہیں۔اس کی سب سے بڑی وجہ ہماری ناخواندگی ہے۔ہمیں معلوم ہی نہیں کہ ایک بچے کی کن کن پہلووں سے تربیت کرنا چاہئے۔آج انسانی سماج خاص طور پر مسلم معاشرہ جن گوناگوں مشکلات سے نبرد آزما ہے اس میں ایک مسئلہ اولاد کی بے راہ روی کا بھی ہے۔کہیں صحت کے مسائل ہیں،کہیں اخلاق و عادات کے۔اس کے سب سے زیادہ ذمہ دار والدین ہیں۔مسلم سوسائٹی میں بچوں کی فلاح و بہبود اور ان کی بہتر تعلیم وتربیت کرنے والے ادارے اور تنظیمیں بھی تقریباً مفقود ہیں۔اسکولوں اور کالجوں کا تو ذکر ہی کیامدارس اسلامیہ تک میں بھی طلبہ کی کردار سازی پر بہت کم توجہ دی جاتی ہے۔
ہم مسلمان ہیں اس لیے ہماری سب سے پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ ہمارا بچہ ”مسلم“ہو۔صرف ختنہ کرادینے یا مسلم نام رکھ دینے سے کوئی انسان مسلمان نہیں ہوجاتا۔مسلمان ہونے کے لیے اس کے عقائد کا صحیح ہونا پہلی شرط ہے جسے قرآن و حدیث میں ”ایمان“ کہا گیا ہے۔اس کے بعد اسلامی تعلیمات کے مطابق عمل کرنا ہے جسے ”عمل صالح“ کہا گیا ہے۔ایمان اور عمل صالح کی یہ تعلیم کون دے گا۔کس کی ذمہ داری ہے کہ وہ قوم کے نونہالوں کو اسلامی عقائد و اعمال سے آشنا کرے اور ان پر عمل کرائے؟اس کی بنیادی ذمہ داری والدین کی ہے۔حضرت یعقوب ؑ جب بستر مرگ پر تھے اور جان جان آفریں کے سپرد کرنے والے تھے۔اس وقت انھوں نے اپنی اولاد کو جمع کرکے ”ماتعبدون من بعدی“کا سوال کیا تھا۔یعنی یہ پوچھا تھا:۔”اے میرے بچو! تم میرے بعد کس کی عبادت کروگے؟“ ایک جلیل القدرپیغمبر کو اپنے بعد اپنی اولاد کے ایمان و اسلام کی فکر تھی۔آج ہم میں سے کتنے لوگ یہ فکر کرتے ہیں؟ہم اپنے بچوں کے مکان اور روزگار کی فکر کرتے ہیں۔جب کہ یہ چیزیں فنا ہونے والی ہیں اور بقدر قسمت مل کر رہنے والی ہیں اور جس چیز پر بچوں کی آخرت کا دارو مدار ہے اس جانب سے ہم غافل ہیں۔
دوسرا معاملہ بچوں کے اخلاق کا ہے۔اگر پہلی بات یعنی عقیدے کی اصلاح پر توجہ دے دی جائے تو امید رکھیے کہ اخلاقی اعتبار سے بھی بچے قابل اطمینان حالت پر ہوں گے۔اس کے باوجود ہمیں اپنے بچوں کی عادات و اخلاق پر نظر رکھنا ہے۔ان کو احترام انسانیت،اکرام مسلم،گفتگو کے آداب،بیٹھنے،اٹھنے کا سلیقہ،کھانے پینے کے طور طریقے سکھانے ہیں۔بچے کے اندر گالی دینے،جھوٹ بولنے،چوری کرنے یا کوئی بات چھپانے کی عادت تو پیدا نہیں ہورہی ہے،اس پر نظر رکھنا ہے۔وہ حقوق کی ادائیگی اور فرائض کی انجام دہی میں کتنا پرعزم ہے؟وہ اپنے اوقات کو کس طرح اور کہاں استعمال کررہے ہیں؟اس کے دوست و احباب کس قسم کے ہیں؟وہ کون سے سوشل میڈیا ہنڈل یوز کررہے ہیں؟ان کی سوشل میڈیا پر پوسٹیں کس نوعیت کی ہیں؟وہ رات کو کس وقت سوتے ہیں؟ان کی نمازوں کا کیا حال ہے؟ ان کا اللہ کی کتاب سے کیسا تعلق ہے؟یہ وہ امور ہیں جن پرنظر رکھنا والدین کی دینی ذمہ داری ہے۔اسی کو حدیث میں ”حسن ادب“ کہا گیا ہے۔نبی اکرم ؐ نے فرمایا:” اکرموا اولادکم, واحسنوا ادبہم”.”تم لوگ اپنی اولاد کے ساتھ حسن سلوک کرو، اور انہیں بہترین ادب سکھاؤ“۔(سنن ابن ماجہ)
آج کل سوشل میڈیا جہاں ایک طرف معلومات کا سرچشمہ ہے وہیں دوسری طرف بچوں کے اخلاق کو بگاڑنے میں اس کا اہم رول ہے۔اس پر جوا اور سٹا بھی موجود ہے۔ایسے گیم ہیں جو بچوں کو خودکشی پر مجبور کردیتے ہیں۔سیکڑوں بچے ہر سال اس کا شکار ہورہے ہیں۔بچوں میں جب بلوغت کا دور شروع ہوتا ہے اور جنسی خواہشات پیدا ہوتی ہیں،اس وقت بھی والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان پر نظر رکھیں۔وہ دیکھیں کہ وہ گھر یا خاندان کی کسی لڑکی میں دل چسپی میں تو نہیں لے رہا ہے۔اگر ایسا ہے تو اسے حکمت کے ساتھ سمجھائیں۔اسے حصول تعلیم اور فنون و حکمت سیکھنے میں مصروف رکھیں۔اس لیے کہ یہی وقت اس کی زندگی کی کامیابی یا ناکامی کے لیے انتہائی اہم ہے۔
بچوں کے دین و عقائد اور اخلاق و عادات کے ساتھ ان کی صحت کی فکر بھی والدین کو ہی کرنا ہے۔اچھی صحت کا انحصار دو باتوں پر ہے۔ایک یہ کہ کیا کھانا ہے؟اوردوسری یہ کہ کب کھانا ہے؟ ایک مسلمان کی دینی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کو حلال رزق کھلائے۔حلال کا تعلق صرف غذا سے ہی نہ ہو بلکہ وہ حلال ذرائع سے حاصل بھی کی گئی ہو۔چوری کی مرغی بھی اسی طرح حرام ہے جس طرح خنزیر کا گوشت حرام ہے۔عام طور ہم حلال غذا کا اہتمام تو خوب کرتے ہیں۔بچوں کو آداب طعام بھی سکھاتے ہیں۔لیکن بسا اوقات ہم یہ بات فراموش کردیتے ہیں کہ وہ غذا حلال ذرائع سے حاصل کی گئی ہے یا نہیں۔حرام رزق سے پرورش پانے والی اولاد سے آپ کسی خیر کی توقع کیوں کر کرسکتے ہیں؟پرانے زمانے میں مائیں اپنے بچوں کو دودھ پلاتے وقت بھی اس کا بات خیال رکھتی تھیں۔بعض مائیں بغیر وضو کے دودھ نہیں پلاتی تھیں۔دھیرے دھیرے مسلم معاشرہ ایسی ماؤں سے خالی ہوتا جارہا ہے۔
کھانے پینے کے تعلق سے بازار کی چیزوں سے حد درجہ اجتناب کریں۔ٹھیلوں،ریستورانوں اور ڈھابوں پر فروخت والی اشیاء صحت مند اجزاء سے تقریباً خالی ہوتی ہیں۔اس کے برعکس ان میں صحت کے لیے نقصان دہ عناصر کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ہم بچوں کی ضدپوری کرنے اور زبان کے چٹخارہ کے لیے غیر صحت مند اشیاء کھاتے اور کھلاتے ہیں۔موجودہ زمانے میں آن لائن برگر، پزہ، سینڈوچ، شاورما، مموز وغیرہ کا استعمال دیہاتوں تک میں ہونے لگا ہے۔بچے چاؤ مین اور میگی بڑے شوق سے کھاتے ہیں۔حالانکہ ان چیزوں کے کثرت استعمال سے ان کی صحت بربادہوجاتی ہے۔ اس کے بجائے گھر کا کھانا صحت کو نفع پہنچاتا ہے۔والدین کو چاہئے کہ بچوں کی پسند کی چیزیں گھر پر ہی تیار کریں۔شروع سے ہی بازار کی چیزوں کے بارے میں بچوں کا ذہن بنائیں کہ وہ چیزیں ان کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔مسلم علاقوں میں اس طرح کی اشیاء کثرت سے فروخت ہوتی ہیں۔
چوتھی چیز جس پر بچے کے مستقبل کا دارو مدار ہے وہ اس کی تعلیم ہے۔اس کو ہم دو زمروں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ایک بحیثیت مسلمان بچے کو کونسی تعلیم حاصل کرنی ہے؟اور دوسرے بحیثیت شہری کیا تعلیم حاصل کرنی ہے؟ظاہر ہے کہ ایک مسلمان کی حیثیت سے اسلام کی بنیادی تعلیم ہمارے ہر بچہ کو ملنی چاہئے۔ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ہمارے ملک کا سرکاری تعلیمی نظام دینی تعلیم کے نظم کرنے کا پابند نہیں ہے۔ بلکہ موجودہ دور میں تو سرکاری اسکولوں میں شرک اور کفر کی تعلیم دی جانے لگی ہے۔اس لیے اپنے بچوں کی دینی تعلیم کا نظم ہمیں خود ہی کرنا ہے۔مسلمانوں کے محلوں میں مساجد اس کا بہترین ذریعہ ہیں۔اس ضمن میں بعض دینی تنظیموں نے قابل قدر کوششیں کی ہیں۔بعض ادارے آن لائن دینی تعلیم کا بھی نظم کررہے ہیں۔ان سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔میں مسلم امت میں ایک خرابی یہ محسوس کرتا ہوں کہ وہ دینی تعلیم کے نام پر پیسہ خرچ نہیں کرتی۔مدارس اور مساجد کے مکاتب میں فیس کا اہتمام نہیں ہے۔وہ لوگ جو عصری تعلیم کے لیے ماہانہ ہزاروں روپے خرچ کرتے ہیں،امام صاحب یا مولوی صاحب کو چند سو روپے ماہانہ دینے کو بھی تیار نہیں ہوتے۔الا ماشاء اللہ۔دینی تعلیم کے ساتھ ہمارا یہ رویہ مجرمانہ ہے۔ہر ماں باپ کو یہ سوچنا چاہئے کہ اگر وہ اپنے بچے کی نماز بھی درست نہ کراسکے اور قرآن پاک کی چند سورتیں بھی یاد نہ کراسکے تو ان کی موت کے بعد وہ ان کے لیے کس منہ سے دعائے مغفرت کرے گا۔میں نے بہت سے مقامات پر دیکھا ہے کہ والدین کی نمازجنازے میں خود اولاد شامل نہیں ہوتی۔مروجہ قرآن خوانی بھی مدرسہ کے طلبہ سے کرائی جاتی ہے۔یہ صورت حال بہت تشویشناک ہے۔ بحیثیت شہری ہمیں بچے کی صلاحیت،اس کی دل چسپی،سماج کی ضرورت اوراپنی مالی حالت دیکھ کرتعلیمی منصوبہ بندی کرنا چاہئے۔اس ضمن میں کیرئر کاؤنسلنگ مراکزسے مشورہ بھی کیا جاسکتا ہے۔لیکن یہ منصوبہ بندی بچے کی پرائمری تعلیم مکمل ہونے کے ساتھ ہی کرلینی چاہئے۔اکثر والدین بچوں کے تعلیمی مستقبل کی جانب سے انتہائی بے پروا واقع ہوئے ہیں۔
مستقبل کی فکر کرنا کوئی معیوب بات نہیں ہے۔اسلام ہمیں اس جانب متوجہ کرتا ہے۔شادی کے بعد اولاد کی خواہش مستقبل کو محفوظ بنانے کا ہی ایک ذریعہ ہے۔اگر نکاح کا یہ مقصد نہ ہوتا تو پھر نسل انسانی کی بقاہی خطرے میں پڑجاتی۔اسی لیے قرآن نے عورتوں کو کھیتی سے مشابہت دی ہے،جس طرح ایک کسان اپنے کھیت سے غلہ حاصل کرکے اپنے آنے والے دنوں کو بہتر بناتا ہے،اسی طرح ایک شادی شدہ جوڑااپنی نسل کو باقی رکھتا ہے۔سورہ بقرہ کی آیت 223میں اس جانب توجہ دلاتے ہوئے کہا گیا ہے:۔”وقدموا لانفسکم“ یعنی اپنے لیے آگے(مستقبل) کی سوچو۔قرآن میں اہل ایمان کو ”والتنظر نفس ماقدمت لغد“ (ہر شخص کو یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ اس نے کل کے لیے کیا انتظام کیا ہے)کا حکم دے کر بھی مستقبل کی فکر کرنے کی جانب توجہ دلائی گئی ہے۔اسلام صرف دنیا کی زندگی تک ہی مستقبل کو محفوظ بنانے کی بات نہیں کرتا بلکہ وہ اس دنیا کے بعد آخرت کو بھی محفوظ اور کامیاب بنانے کی جانب توجہ دلاتا ہے۔اس لیے ایک مومن کی ذمہ داری ہے کہ جس طرح وہ آخرت میں اپنی نجات کی فکر کرتا ہے اسی طرح اپنی اولاد کے لیے بھی فکر کرے۔یہ ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے ”قوا انفسکم و اھلیکم ناراً“ (خود کو اور اپنے اہل و عیال کو جھنم سے بچاؤ) کہہ کر ہم سب پر ڈالی ہے۔