مصارف زکوٰۃ اور مدارس: شبہات کا ازالہ

مصارف زکوٰۃ اور مدارس: شبہات کا ازالہ

از: ڈاکٹر سلیم انصاری

جھاپا،نیپال

_____________________

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، جو انسان کو انفرادی اور اجتماعی دونوں پہلوؤں سے ہدایت فراہم کرتا ہے۔ زکوٰۃ اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک ہے اور یہ مال پر فرض ایک ایسا صدقہ ہے جو مخصوص شرائط کے تحت ادا کیا جاتا ہے۔ زکوٰۃ کا مقصد مال کو پاک کرنا، معاشرے میں غربت کا خاتمہ اور اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنا ہے۔ قرآن مجید اور احادیث میں زکوٰۃ کی اہمیت کو بار بار اجاگر کیا گیا ہے۔ اسی لئے، زکوٰۃ کو کہاں اور کس طرح خرچ کیا جائے، اس بارے میں درست رہنمائی ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے۔اس مضمون میں ہم مصارفِ زکٰوۃ اور مدارس پر تفصیل سے گفتگو کریں گے۔ سب سے پہلے زکٰوۃ کے حوالے سے موجود غلط فہمیوں کا ازالہ کیا جائے گا، پھر زکٰوۃ کے مصارف اور فی سبیل اللہ کی وضاحت پر روشنی ڈالی جائے گی۔ اس کے بعد بعض لوگوں کی سمجھ کے المیے کا جائزہ لیا جائے گا، زکٰوۃ مستحقین کو نہ دینے کے باعث پیدا ہونے والے مسائل کا ذکر ہوگا، اور یہ وضاحت کی جائے گی کہ کیا مدارس اور دینی ادارے زکٰوۃ کے مستحق ہیں۔ مزید برآں، مدارس میں زکٰوۃ کے صحیح استعمال، مہتمم اور ناظم کی شرعی حیثیت کو زیر بحث لایا جائے گا۔ آخر میں مضمون کا خلاصہ پیش کیا جائے گا۔

غلط فہمیوں کا ازالہ

زکوٰۃ کے درست استعمال اور اس کے مصارف کے حوالے سے موجود غلط فہمیوں کو دور کرنا بھی ضروری ہے۔ عام طور پر جب یہ کہا جاتا ہے کہ زکوٰۃ کو کسی مخصوص کام پر خرچ نہیں کیا جا سکتا، تو لوگ اسے غلط معنی دے کر مخالفت کا اظہار کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ بات محض شرعی اصولوں کی پاسداری کے لیے کی جاتی ہے۔ زکوٰۃ کو ان افراد یا مقاصد پر خرچ کرنا جو اس کے شرعی حق دار نہیں ہیں، اس کی ادائیگی کو ناقص بنا دیتا ہے، اور یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی اور فرض عبادت صحیح طور پر ادا نہ کی جائے۔ زکوٰۃ کا مقصد مخصوص مستحق افراد کی مدد اور معاشرتی توازن قائم کرنا ہے۔ اگر زکوٰۃ کو غیر مستحق افراد پر یا غیر شرعی کاموں میں خرچ کیا جائے، تو اس کا مقصد فوت ہو جاتا ہے، اور یہ عمل زکوٰۃ کی روح کے خلاف ہے۔یہ بات سمجھنا انتہائی ضروری ہے کہ زکوٰۃ کے علاوہ دیگر صدقات کا استعمال وسیع اور متنوع دینی اور رفاہی کاموں میں کیا جا سکتا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے بارہا مسلمانوں کو انفاق فی سبیل اللہ کا حکم دیا ہے، جو یہ واضح کرتا ہے کہ صرف زکوٰۃ ہی نہیں بلکہ دیگر مالی امداد بھی اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ایک اہم عمل ہے۔ انفاق فی سبیل اللہ کا مطلب یہ ہے کہ اپنی ضرورت سے زائد مال کو اللہ کی رضا کے لیے خرچ کیا جائے۔ جب صحابہ کرام نے اللہ کے رسول ﷺ سے دریافت کیا کہ اللہ کی راہ میں ہم کتنا خرچ کریں، تو قرآن نے واضح جواب دیا: "جو ضرورت سے زائد ہو” (قُلِ الْعَفْوَ)۔ اس حکم نے یہ بات واضح کر دی کہ ایک مسلمان اپنی ضروریات سے زائد مال کو دینی، رفاہی، اور فلاحی کاموں کے لیے خرچ کرے، جو نہ صرف اللہ کے قرب کا ذریعہ ہے بلکہ معاشرتی توازن اور ترقی میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ زکوٰۃ کے علاوہ صدقات میں اسکولوں، ہسپتالوں، غریبوں کی مدد، اور دیگر رفاہی کاموں پر خرچ کرنا شامل ہے، اور اسلام نے اس کی بھرپور حوصلہ افزائی کی ہے۔ یہ صدقات نہ صرف غربت کے خاتمے میں مددگار ہیں بلکہ ان سے امت مسلمہ کے مسائل کے حل میں بھی بڑی مدد ملتی ہے۔مدارس میں زکوٰۃ کے استعمال کے سلسلے میں بہت سے لوگ جذباتی باتیں کرتے ہیں اور یہ دلیل دیتے ہیں کہ مدارس میں دینی علوم سکھائے جاتے ہیں اور اسے حدیث میں "فی سبیل اللہ” کے تحت شمار کیا گیا ہے۔ ایسے افراد کو سمجھنا ہوگا کہ نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام کے دور میں بھی مدارس اور طلبہ موجود تھے، لیکن اس دور میں زکوٰۃ کو ان مقاصد کے لیے استعمال نہیں کیا گیا۔ اگر اس وقت زکوٰۃ کا استعمال مدارس یا تعلیمی اداروں کے لیے نہیں کیا گیا تو آج بھی دین کے نام پر زکوٰۃ کا بے دریغ استعمال شرعی طور پر جائز نہیں ہوگا۔جہاں تک غریب اور نادار طلبہ کی بات ہے، تو انہیں زکوٰۃ دینا ماضی میں بھی جائز تھا اور آج بھی جائز ہے، لیکن یہ ان کی غربت اور مالی حالت کی بنیاد پر ہوگا، نہ کہ صرف علم حاصل کرنے کی وجہ سے۔ اس سلسلے میں کوئی ضعیف حدیث بھی موجود نہیں جو یہ ثابت کرے کہ دینی مدارس یا تعلیمی اداروں کے لیے زکوٰۃ کا استعمال جائز ہے۔ لہٰذا دین کا نام لے کر زکوٰۃ کا غلط استعمال کرنا شریعت کی روح کے خلاف ہے۔ رہی بات مدارس، تنظیموں یا دیگر دینی کاموں کی، تو ان کے لیے عام صدقات اور خیرات کا استعمال کیا جائے گا، نہ کہ زکوٰۃ کا۔ یہ فرق سمجھنا اور اس پر عمل کرنا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے تاکہ زکوٰۃ کے حقیقی مصارف متاثر نہ ہوں اور اس کا مقصد پورا ہو سکے۔

زکوٰۃ کے مصارف

قرآن مجید میں زکوٰۃ کے مصارف کا ذکر سورہ توبہ کی آیت نمبر 60 میں کیا گیا ہے، جہاں یہ واضح کیا گیا ہے کہ زکوٰۃ کن لوگوں کو دی جا سکتی ہے۔ اس آیت میں زکوٰۃ کے آٹھ مصارف کا ذکر ہے جو مسلمانوں کے لیے زکوٰۃ کے صحیح استعمال کے اصول متعین کرتے ہیں۔فقراء وہ افراد ہیں جو اپنی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے قابل نہیں ہوتے اور مستقل مالی مدد کے محتاج ہوتے ہیں۔ مساکین وہ لوگ ہیں جو انتہائی نادار ہیں اور غربت کی شدت کا شکار ہیں۔ یہ وہ طبقہ ہے جو کسی بھی صورت میں اپنی ضروریات پوری نہیں کر سکتا اور انہیں خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ عاملین وہ افراد ہیں جو زکوٰۃ جمع کرنے، اس کی تقسیم کرنے اور اس کے نظام کو مؤثر بنانے کے لیے کام کرتے ہیں۔ مؤلفۃ القلوب وہ افراد ہیں جن کے دل اسلام کی طرف مائل کیے جاتے ہیں یا ان کی مدد کی جاتی ہے تاکہ وہ اسلام کے قریب آئیں۔ غلاموں کی آزادی کے لیے زکوٰۃ کا استعمال بھی قرآن میں بیان کیا گیا ہے۔ اگرچہ آج غلامی کا نظام عملی طور پر ختم ہو چکا ہے، لیکن اس مصرف کو ہر دور کے حالات کے مطابق استعمال کیا جا سکتا ہے۔ قرض داروں کے قرض کی ادائیگی کے لیے زکوٰۃ کا استعمال ان افراد کے لیے ہے جو اپنے قرض کی ادائیگی کے لیے وسائل نہیں رکھتے۔ اللہ کی راہ میں زکوٰۃ دینا بھی ایک اہم مصرف ہے۔ مسافروں کے لیے زکوٰۃ کا استعمال ان افراد کی مدد کے لیے ہے جو اپنے سفر کے دوران کسی مشکل میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے قابل نہیں رہتے۔یہ تمام مصارف زکوٰۃ کے شرعی اور عملی استعمال کو واضح کرتے ہیں، جو نہ صرف انفرادی مدد بلکہ اجتماعی فلاح و بہبود کے لیے بھی اہم ہیں۔ مسلمانوں کو ان مصارف کے مطابق زکوٰۃ خرچ کرنی چاہیے تاکہ یہ عبادت قبول ہو اور اس کا مقصد پورا ہو۔

"فی سبیل اللہ” کی توضیح

آیتِ زکوٰۃ میں "فی سبیل اللہ” پر بحث کرتے ہوئے علماء کی رائے کو تین مختلف اقوال میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلا قول یہ ہے کہ "فی سبیل اللہ” سے مراد مجاہدین ہیں، جو جمہور علماء کا موقف ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اس میں حجاج اور معتمرین بھی شامل ہیں، اور تیسرا قول کچھ نامعلوم لوگوں کا یہ ہے کہ اس میں تمام خیر و بھلائی کے راستے شامل ہیں۔ تاہم، قرآنی سیاق و سباق اور احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ آیتِ زکوٰۃ میں "فی سبیل اللہ” کا مطلب جہاد فی سبیل اللہ ہوتا ہے۔قرآن مجید میں "فی سبیل اللہ” دو مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے: ایک عمومی معنی، جیسا کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی ترغیب دی گئی ہے، اور دوسرا خاص معنی، جو جہاد فی سبیل اللہ سے متعلق ہے۔ آیتِ زکوٰۃ میں "فی سبیل اللہ” کو جہاد فی سبیل اللہ کے معنی میں لیا گیا ہے، کیونکہ احادیث سے بھی اس کی وضاحت ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر، ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ کی حدیث اس بات کو واضح کرتی ہے کہ "فی سبیل اللہ” کا مطلب خاص طور پر مجاہدین کے لیے زکوٰۃ کا جواز ہے۔ لا تحل الصدقة لغني إلا لخمسة: لغاز في سبيل الله أو لعامل عليها أو لغارم أو لرجل اشتراها بماله أو لرجل كان له جار مسكين فتصدق على المسكين فأهداها المسكين للغني. سنن أبي داود (حدیث نمبر 1635)، شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے. مفہومِ حدیث: مالداروں میں سے صرف پانچ قسم کے لوگ ایسے ہیں جن کیلئے صدقہ لینا جائز ہے، اگر کوئی مالدار جہاد فی سبیل اللہ کیلئے نکلا ہو، یا کوئی زکاۃ کی وصولی کیلئے نکلا ہو، یا کسی مالدار نے اس زکاۃ کو کسی غریب سے قیمتا خریدا ہو، یا کوئی ایسا مالدار ہو جس کا پڑوسی مسکین ہو اور وہ مسکین ملی ہوئی زکاۃ میں سے اپنے مالدار پڑوسی کو ہدیہ یا تحفہ دے۔ اس حدیث میں مجاہد فی سبیل اللہ کیلئے زکات کو حلال قرار دیا گیا ہے جو آیت زکات میں موجود "فی سبیل اللہ” کی تفسیر یا اس کے معنی کی تخصیص کرتا ہے.مزید برآں، جمہور علماء کا موقف ہے کہ "فی سبیل اللہ” کو صرف جہاد کے ساتھ خاص کرنا ضروری ہے۔ اگر اس کو تمام بھلائی کے راستوں پر عام کر دیا جائے تو زکوٰۃ کے مصارف میں ان آٹھ اصناف کا ذکر بے معنی ہو جائے گا، کیونکہ فقرا، مساکین، اور قرض داروں کی مدد بھی خیر و بھلائی کے زمرے میں آتی ہے۔ اس طرح، آیت کے واضح الفاظ کے ساتھ انصاف نہیں ہوگا اور زکوٰۃ کے حصر کا مقصد ختم ہو جائے گا۔صاحبِ مرعاۃ، عبید اللہ مبارکپوری رحمہ اللہ، فرماتے ہیں کہ تیسرے قول کی نہ تو قرآن مجید سے کوئی دلیل موجود ہے، نہ کسی صحیح حدیث سے، بلکہ حتیٰ کہ ضعیف حدیث سے بھی اس کی تائید نہیں ہوتی۔ اجماع اور قیاس سے بھی اس قول کے حق میں کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ درحقیقت، یہ قول صحیح حدیث کے صریح خلاف ہے، اور سلف صالحین میں سے بھی کسی نے اس عموم کو قبول نہیں کیا۔ البتہ، قفال نے اپنی تفسیر میں بعض غیر معروف فقہاء، اور قاضی عیاض نے بعض غیر معروف علماء سے نقل کیا ہے کہ "فی سبیل اللہ” کا مطلب تمام بھلائی کے راستے ہیں۔اگر "فی سبیل اللہ” کو جہاد کے ساتھ خاص کرنے کے بجائے عمومی معنی میں لیا جائے، تو اس میں ہر وہ شخص شامل ہو جائے گا جو اللہ کی رضا کے لیے کوئی عمل انجام دیتا ہو، جیسے نمازی، روزہ دار، صدقہ کرنے والا، قرآن مجید کی تلاوت کرنے والا، یا راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانے والا۔ نتیجتاً، ان تمام افراد اور دیگر کو زکوٰۃ کا مستحق قرار دینا واجب ہو جائے گا، چاہے وہ مالدار ہی کیوں نہ ہوں، حالانکہ یہ بات اجماعی طور پر ناجائز ہے۔

ایک غلط فہمی کا ازالہ

معتبر علماء نے جہاں کہیں بھی زکٰوۃ کو مدارس میں یا طلبہ پر خرچ کرنے کی اجازت دی ہے، وہ طلبہ کی فقر و تنگدستی کی وجہ سے دی ہے، جو آیاتِ زکٰوۃ میں پہلے ہی مستحقین کی فہرست میں شامل ہیں۔ اسی طرح علماء کے اقوال بھی ملتے ہیں کہ وہ اپنا مال طلبہ پر خرچ کرنا زیادہ پسند کرتے تھے۔ اس کے دو مفاہیم ہو سکتے ہیں: ایک یہ کہ اگر طلبہ غریب اور نادار ہیں تو انہیں زکٰوۃ ویسے بھی دی جا سکتی ہے، اور دوسرا یہ کہ اگر طلبہ نادار نہیں ہیں تو سلف صرف زکٰوۃ ہی نہیں نکالتے تھے بلکہ اللہ کی راہ میں زیادہ سے زیادہ خرچ کرتے تھے۔ اس صورت میں ان کا مقصد عام صدقات ہوتا تھا، نہ کہ زکٰوۃ۔خلاصہ یہ ہے کہ مدارس اسلامیہ زکوٰۃ کے آٹھ مصارف میں شامل نہیں ہیں۔ زکوٰۃ کو ان مقامات پر خرچ کرنے کی اجازت نہیں ہے جو ان آٹھ اصناف میں سے نہ ہوں۔ زکوٰۃ کے صحیح استعمال کے لیے شرعی اصولوں کی پابندی ضروری ہے تاکہ زکوٰۃ کی ادائیگی مکمل اور درست ہو اور یہ اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہو۔

سمجھ کا المیہ

فی سبیل اللہ کے مفہوم کو وسیع اور عام معنی میں سمجھنے کا رجحان بعض افراد کے لیے ایک فکری المیہ بن چکا ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جو دیگر اختلافی مسائل میں شدت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہیں، لیکن اس اہم اور حساس مسئلے میں حیران کن حد تک نرمی برتتے ہیں۔ ان کے خیالات نہ تو کسی معتبر عالم کے اقوال پر مبنی ہوتے ہیں، نہ ہی اس معاملے میں کوئی ضعیف حدیث تک ان کے موقف کی تائید کرتی ہے۔ اس کے باوجود، یہ افراد سب سے مختلف اور منفرد رائے اختیار کرتے ہیں، جو ان کے نقطہ نظر کو مشکوک اور غیر مستند بنا دیتی ہے۔ اس قسم کا رویہ نہ صرف علمی اصولوں کے خلاف ہے بلکہ ایک ایسا انتشار بھی پیدا کرتا ہے جو فہم دین کو دھندلا کرنے کا سبب بنتا ہے۔

مستحقین کو زکات نہ دینے سے مسائل

حالیہ دنوں میں مسلمانوں میں زکوٰۃ کے اصل مقصد اور اللہ کے بتائے ہوئے شرعی اصولوں سے ہٹ کر اپنی مرضی سے خرچ کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ زکوٰۃ جو فقراء، مساکین، اور دیگر مستحقین کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے فرض کی گئی ہے، اسے مدارس، تنظیموں، اور دیگر مقامات پر اس انداز میں خرچ کیا جا رہا ہے جو اکثر شرعی اصولوں کے مطابق نہیں ہوتا۔ جب زکوٰۃ اپنے حقیقی مستحقین تک نہیں پہنچتی تو یہ غربت اور افلاس کے دائرے کو مزید وسیع کر دیتی ہے، اور مسلمانوں کی مجموعی حالت میں مزید بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ یہی رویہ مسلمانوں میں بڑھتی ہوئی غربت اور فقر کا ایک اہم سبب بن چکا ہے۔زکوٰۃ کے غیر مستحق مقامات پر خرچ کرنے کے نتیجے میں کئی دیگر مسائل بھی جنم لے رہے ہیں۔ معاشرے میں مانگنے کا رجحان بڑھ رہا ہے، جس سے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد اپنی عزت نفس اور خودداری کھو رہی ہے۔ یہ رجحان مسلمانوں کو ایک بھیک مانگنے والی قوم کے طور پر پیش کر رہا ہے، جو نہ صرف دینی بلکہ سماجی طور پر بھی نقصان دہ ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق، مسلم اکثریتی علاقوں میں غربت کی شرح 35 فیصد تک پہنچ چکی ہے، جو زکوٰۃ کی درست تقسیم سے نمایاں طور پر کم کی جا سکتی تھی۔ مزید برآں، غیر مستحق اداروں اور افراد کو زکوٰۃ دینے کے سبب مستحق افراد مزید مالی مشکلات کا شکار ہو رہے ہیں، جس سے معاشرے میں بے انصافی اور غیر ذمہ داری کا رجحان فروغ پا رہا ہے۔ یہ تمام عوامل امت مسلمہ کو مزید کمزور اور پستی کی طرف لے جا رہے ہیں، جو کہ ہمارے لیے ایک اہم فکری اور عملی چیلنج ہے۔زکوٰۃ کو مدارس اور تنظیموں میں بے دریغ خرچ کرنے کی صورت میں مسلمان ایک سنگین غلطی کے مرتکب ہوتے ہیں، جو نہ صرف شرعی اصولوں کی خلاف ورزی ہے بلکہ ایک بڑا گناہ بھی ہے۔ زکوٰۃ کے غیر مستحق مقامات پر خرچ کرنے سے نہ صرف زکوٰۃ ادا نہیں ہوتی بلکہ یہ عمل جانے یا انجانے میں حرام خوری کے زمرے میں آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کے مصارف کو واضح طور پر بیان کیا ہے، اور ان اصولوں سے انحراف مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی طور پر نقصان پہنچاتا ہے۔ اس رویے سے نہ صرف حقیقی مستحقین محروم رہ جاتے ہیں بلکہ معاشرے میں بے انصافی اور غیر ذمہ داری کو فروغ ملتا ہے، جو امت مسلمہ کی کمزوری کا سبب بنتا ہے۔

مدارس اور دینی ادارے زکوٰۃ کے مستحق ہیں؟

مدارس اسلامیہ زکوٰۃ کے آٹھ مصارف میں شامل نہیں ہیں، کیونکہ زکوٰۃ کے مصارف قرآن مجید میں وضاحت کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں، جو مخصوص افراد اور حالات سے تعلق رکھتے ہیں۔ تاہم، اگر مدارس میں وہ افراد زیرِ تعلیم ہوں یا کام کر رہے ہوں جو فقراء یا مساکین کے زمرے میں آتے ہیں، تو انہیں زکوٰۃ دی جا سکتی ہے۔ زکوٰۃ کا اصل مصرف افراد ہیں، نہ کہ ادارے، لہٰذا مدارس کو زکوٰۃ دینے کے لیے یہ ضروری ہے کہ یہ یقین ہو کہ زکوٰۃ کے پیسے ان مستحق افراد پر خرچ کیے جا رہے ہیں جو شرعی طور پر زکوٰۃ کے حقدار ہیں۔مدارس میں زکوٰۃ دینے کے لیے چند اہم شرائط کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ پہلی شرط یہ ہے کہ زکوٰۃ صرف ان طلباء یا اساتذہ پر خرچ کی جائے جو شرعی طور پر مستحق ہوں۔ یہ طلباء یا اساتذہ وہ افراد ہو سکتے ہیں جن کی مالی حالت واقعی خراب ہو اور جو فقراء یا مساکین کے زمرے میں آتے ہوں۔ دوسری شرط یہ ہے کہ زکوٰۃ کو ادارے کے تعمیراتی کاموں یا ایسے اخراجات پر خرچ نہ کیا جائے جو زکوٰۃ کے دائرے میں نہیں آتے، کیونکہ زکوٰۃ کا مقصد صرف مستحق افراد کی ضروریات پوری کرنا ہے۔ تیسری اہم شرط یہ ہے کہ زکوٰۃ کا حساب شفاف طریقے سے رکھا جائے اور عطیہ دہندگان کو یہ یقین دلایا جائے کہ ان کی زکوٰۃ شرعی اصولوں کے مطابق خرچ ہو رہی ہے۔ یہ اعتماد دینا ضروری ہے تاکہ زکوٰۃ دینے والے افراد کو یقین ہو کہ ان کی زکوٰۃ ان لوگوں تک پہنچ رہی ہے جو اس کے حقیقی حقدار ہیں۔ اس طرح، نہ صرف زکوٰۃ کے صحیح استعمال کو یقینی بنایا جا سکتا ہے بلکہ دینی اداروں پر اعتماد بھی قائم رہتا ہے۔مدارس کے طلبہ اور علماء جو دینی خدمات جیسے درس و تدریس، تصنیف و تالیف، یا دعوت و تبلیغ میں مصروف ہیں، اگر وہ فقر و فاقہ کا شکار ہوں اور صاحبِ نصاب نہ ہوں، تو ان کو زکوٰۃ دینا جائز ہے، لیکن زکوٰۃ کو ان کے لیے تنخواہ یا معاوضے کے طور پر دینا شرعی طور پر جائز نہیں۔ یہ بنیادی فرق سمجھنا بہت ضروری ہے کہ زکوٰۃ فقراء اور مساکین کی مدد کے لیے ہے، نہ کہ کسی خدمت کے عوض ادائیگی کے لیے۔ زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے یہ شرط ہے کہ مستحق کو زکوٰۃ کا مالک بنایا جائے۔ مالک بنائے بغیر زکوٰۃ ادا نہیں ہوتی، اور یہ شرط قرآن اور حدیث دونوں سے ثابت ہے۔ اسی وجہ سے زکوٰۃ کو مسجد، مدرسہ یا کسی رفاہی ادارے کی تعمیر میں خرچ کرنا جائز نہیں، کیونکہ ان صورتوں میں مستحق کو مالک نہیں بنایا جاتا۔

مدارس میں زکوٰۃ کا صحیح استعمال

مدارس میں زکوٰۃ کے صحیح اور شرعی استعمال کا اصول یہ ہے کہ زکوٰۃ ان افراد پر خرچ کی جائے جو شرعی طور پر مستحق ہوں، اور ان مستحقین کو زکوٰۃ کی رقم کا مالک بنانا ضروری ہے۔ مثال کے طور پر، اگر زکوٰۃ کی رقم مستحق طلبہ پر خرچ کرنی ہو، تو یہ رقم ان کے لیے کپڑے، کھانے، یا دوا وغیرہ خرید کر دی جا سکتی ہے، یا براہ راست ان کے حوالے کر دی جائے تاکہ وہ اپنی ضرورت کے مطابق اسے استعمال کر سکیں۔زکوٰۃ کی رقم کو تعمیراتی کاموں، مدرسے کی عمارت کی مرمت، یا دیگر غیر مستحق مقاصد کے لیے خرچ کرنا زکوٰۃ کی شرعی ادائیگی کے اصولوں کے خلاف ہے۔ اس طرح کے استعمال سے زکوٰۃ ادا نہیں ہوتی اور دینے والے کا فرض باقی رہتا ہے اور ساتھ ہی زکات کو اس طرح خرچ کرنے والا ایک سنگین گناہ میں مبتلا ہوتا ہے۔ زکوٰۃ کے مصرف کو درست رکھنے کے لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ مدارس ایک ادارہ ہیں اور زکوٰۃ کا اصل مصرف افراد ہیں، ادارے نہیں۔

مہتمم اور ناظم کی شرعی حیثیت

مدارس کے مہتمم اور ناظم نہایت اہم ذمہ داری کے حامل ہوتے ہیں کیونکہ وہ چندہ دینے والوں کے وکیل کے طور پر کام کرتے ہیں۔ ان پر لازم ہے کہ وہ چندہ دینے والے کی ہدایات اور شرعی اصولوں کے مطابق رقم خرچ کریں۔ اگر زکوٰۃ کی رقم طلبہ کے لیے مخصوص کی گئی ہو، تو مہتمم اور ناظم پر واجب ہے کہ وہ اسے انہی طلبہ پر خرچ کریں جو شرعی طور پر زکوٰۃ کے مستحق ہیں۔ مہتمم اور ناظم کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ زکوٰۃ کے استعمال کے سلسلے میں شفافیت کا مظاہرہ کریں۔ ان کے قبضے کو طلبہ کے لیے ہی شمار کیا جاتا ہے، کیونکہ وہ طلبہ کے قَیِّم اور نگران کے طور پر ذمہ داری ادا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ، زکوٰۃ کے خرچ کا مکمل حساب رکھنا اور یہ یقینی بنانا کہ رقم مستحقین تک پہنچ رہی ہے، مہتمم کی شرعی ذمہ داری ہے۔مدارس کے نظماء کی حیثیت شرعی طور پر زیادہ سے زیادہ نادار طلبہ کے وکیل اور نگران کی ہوتی ہے، اور ان کے لیے زکوٰۃ یا دیگر شرعی مال سے کسی بھی قسم کا ذاتی فائدہ اٹھانا حرام ہے۔ تاہم، افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کئی مدارس اور ادارے زکوٰۃ کی رقم کو باقاعدہ ایک مالی وسیلے کے طور پر استعمال کرتے ہیں، جو نہ صرف ایک سنگین دینی جرم ہے بلکہ ان کے لیے حرام خوری کا سبب بھی بن جاتا ہے۔ یہ لوگ نہ صرف خود کو حرام میں مبتلا کرتے ہیں بلکہ اپنی اولاد کے لیے بھی جہنم کی آگ کا سامان جمع کرتے ہیں۔ اگرچہ کئی مدارس میں زکوٰۃ کی رقم کو صحیح مقاصد کے لیے خرچ کیا جاتا ہے، لیکن عمومی طور پر دینی تعلیم کے نام پر زکوٰۃ کا غلط استعمال ایک پریشان کن مسئلہ بن چکا ہے۔ اس رویے نے مدارس اور دینی اداروں کو زکوٰۃ خوری کے الزام کا شکار بنا دیا ہے، جو نہ صرف شرعی طور پر ناقابل قبول ہے بلکہ امت کے اعتماد کو بھی مجروح کرتا ہے۔نتیجے کے طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ زکوٰۃ نہ صرف مسلمانوں کی مالی عبادت کا ایک اہم حصہ ہے بلکہ معاشرتی توازن اور انصاف قائم کرنے کا ایک ذریعہ بھی ہے۔ زکوٰۃ کا بنیادی مقصد معاشرے کے کمزور طبقات کی مالی امداد اور ان کی زندگیوں کو بہتر بنانا ہے، اور اس کے لیے ضروری ہے کہ ہر مسلمان زکوٰۃ کے شرعی اصولوں کو سمجھے اور ان پر عمل کرے۔ یہ عبادت نہ صرف اللہ کی رضا کا ذریعہ ہے بلکہ ایک ایسا نظام بھی فراہم کرتی ہے جو غربت کے خاتمے اور کمزور افراد کی مضبوطی میں کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے۔
مدارس اور دینی ادارے یقینی طور پر معاشرتی اور دینی میدان میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، لیکن زکوٰۃ کے استعمال میں شرعی حدود کا پاس رکھنا نہایت ضروری ہے۔ مدارس، ادارے، تنظیمیں، جلسے جلوس اور دیگر دینی کاموں کے لیے ضروری ہے کہ زکٰوۃ اور فطرانے کے علاوہ عام صدقات اور دیگر تعاون کا استعمال کریں۔ اس سے نہ صرف ان کاموں کے لیے زیادہ وسائل مہیا ہوں گے بلکہ دین کی خدمت کا دائرہ بھی وسیع ہوگا، اور ضرورت مندوں کی بہتر طریقے سے مدد کی جا سکے گی۔ دین کی دیگر ضروریات کو پورا کرنے کے لیے عام صدقات اور عطیات کا استعمال کرنے سے ہم نادانستہ طور پر زکٰوۃ کا مال کھانے سے بچ سکتے ہیں، جو اسلام میں ایک سنگین گناہ ہے۔ اسی طرح، ہمیں زکٰوۃ کے مصرف کے لیے حیلے بہانے بنانے کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی۔زکوٰۃ کو غیر مستحق مقاصد پر خرچ کرنا ایک بڑا مسئلہ ہے، جو نہ صرف زکوٰۃ کی ادائیگی کو باطل کر دیتا ہے بلکہ معاشرتی انصاف کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔ اس غلط استعمال سے نہ صرف مستحقین کی ضروریات پوری نہیں ہوتیں بلکہ ان کی مشکلات مزید بڑھ جاتی ہیں۔ لہٰذا، ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ زکوٰۃ کے استعمال میں احتیاط اور شرعی رہنمائی کو مدنظر رکھے تاکہ یہ عبادت اپنے حقیقی مقصد کو پورا کر سکے اور امت مسلمہ کی فلاح کا ذریعہ بنے۔ زکوٰۃ کا درست استعمال ہی امت کے مالی اور سماجی نظام کو کامیاب اور مضبوط بنا سکتا ہے۔
اللہ ہم سب کو زکٰوۃ صحیح طریقے سے ادا کرنے، درست جگہ خرچ کرنے اور اس کی کوتاہی سے محفوظ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

Exit mobile version