انقلاب شام ۔حقائق اور غلط فہمیاں
از:- محمد قمر الزماں ندوی
استاذ/مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ
___________________
ملک شام میں یقینا صبح نمودار ہوچکی ہے،اور اس نئی صبح اور اس کی نئی روشنی میں اہل شام اپنے مستقبل کے لیے تابناک اور روشن مستقبل تلاش کر رہے ہیں، لیکن ابھی ڈگر اور پنگھٹ دور ہے اور ہدف کو پانے میں وقت لگے گا، کیونکہ راہ میں ابھی بھی بہت سے اندیشے، خطرات و امکانات اور مشکلات و مسائل کا سامنا ہے ۔
ملک شام کے اس تازہ ترین انقلاب کے بارے میں ماہرین کئی طرح کے امکانات اور خدشات و خطرات کا اظہار کر رہے ہیں ، بعض لوگ ضرورت سے زیادہ خوش فہمی میں مبتلا ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ اب اہل شام کے لیے امتحانات و آزمائش اور خطرات و مشکلات کے دروازے بند ہوچکے ہیں ، اور شام میں امن و استحکام کی فضا ہموار ہو جائے گی، کیونکہ ظالم و جابر حکومت سے اہل شام کو نجات مل چکی ہے ۔ حالانکہ ابھی یہ بات کہنا قبل از وقت ہوگا ،کیونکہ ماہرین کا تجزیہ یہ ہے کہ
،،ابھی شام کو عالمی سازشوں سے نجات حاصل نہیں ہوئی ہے ، جب تک شام سے عالمی طاقتوں کا اثر و رسوخ کم اور ختم نہیں ہوگا ،شام میں امن و شانتی اور استحکام کا خواب شرمندئہ تعبیر نہیں ہوسکے گا ، ماہرین تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ اگر اندورنی خلفشار اور متعدد گروپوں کے مابین جو اختلافات ہیں، اگر اس پر قابو نہیں پایا جاسکا، تو بعید نہیں کہ جس شام میں صبح نمودار ہوچکی ہے، اس کی روشنی پھوٹنے سے پہلے یہ ملک مزید خانہ جنگی اور خلفشار کا شکار ہوکر تاش کے پتے کی طرح بکھر کر کئی حصوں میں تقسیم نہ ہو جائے اور بندر بانٹ والی کہاوت نہ صادق آجائے ۔ اس کا خدشہ، اس لیے ہے کہ وہاں کردوں کا گروہ الگ ہے ، اس کے مطالبات الگ ہیں ،اس کو امریکہ کی پشت پناہی حاصل ہے ، شیعہ سنی اور دوسری جماعتیں بھی اس انقلاب میں شامل ہیں، سب کا باہم متحد ہونا ضروری ہے۔
لیکن ان تمام خدشات و امکانات کے باوجود شام میں جشن کا ماحول ہے ،اس تازہ انقلاب اور تبدیلی سے وہ لوگ بہت خوش اور مطمئن ہیں اور وہ پر امید ہیں کہ مستقبل میں اب ظلم و سفاکی کا خاتمہ ہوگا اور صیدانا جیل جیسا حشر نہیں ہوگا اور اب لوگ آزاد فضا میں سانس لے سکیں گے ۔ شام میں اس نئی صبح کے بعد تعمیر و ترقی ہوگی اور مہاجرین جو دوسرے ملکوں میں پناہ گزیں ہیں، وہ سب گھر واپسی کر سکیں گے ، خدا کرے ایسا ہی ہو اور اس کے امکانات یقینا زیادہ ہیں ،راقم السطور کو بھی اللہ کی ذات سے یقین ہے کہ اہل شام امتحان و آزمائش سے اب نجات پائیں گے اور اب وہ سرخ رو ہوں گے، بلکہ ہوچکے ہیں اس کے آثار و نتائج صاف صاف ظاہر ہورہے ہیں۔
لیکن ایک طبقہ شام کے اس انقلاب کو کسی طرح ملک شام کے حق میں مفید نہیں سمجھتے ،وہ سمجھ رہے کہ اس انقلاب کے بعد شام کے لوگوں کا انجام اور حشر پہلے سے زیادہ برا اور خطرناک ہوگا اور وہ اس جیت، انقلاب اور تبدیلی کو امریکہ اور اسرائیل کی جیت قرار دے رہے ہیں اور اندازہ یہ لگا رہے ہیں کہ امریکہ نے اسرائیل کے لیے راستہ صاف کیا ہے کہ اور آگے بڑھے اور گریٹر اسرائیل کا ان کا خواب پورا ہو ، حکومت شام اس کے لیے رکاوٹ تھی ، اب یہ رکاوٹ ختم ہوچکی ہے ۔ بات کچھ صحیح بھی ہے ، لیکن ان تمام وجوہات کے باوجود شام کا یہ انقلاب شامیوں کے لیے امن و امان کا پیش خیمہ ثابت ہوا ہے اور ظلم و سفاکی کے ایک طویل دور کا خاتمہ ہوا ہے ۔ جس کی تائید کے لیے آپ سب ذیل کی اس تحریر کو پڑھیں حقائق سامنے آجائیں گے اور جو لوگ اس انقلاب کو صرف منفی انداز میں لے رہے ہیں اور منفی نتائج و ثمرات اخذ کر رہے ہیں ،ان کی غلط فہمیاں بھی بہت حد تک دور ہو جائیں گی ۔ (کیونکہ یہ تجزیہ حقیقت پر مبنی ہے ، جس کی تائید دوسرے اہل علم کی تحریروں سے بھی ہوتی ہے کہ کس طرح انقلابیوں نے ایک طویل اور زبردست منصوبہ بندی کے ساتھ اور اللہ کی مدد سے شام کو نجس اور ناپاک دس لاکھ اہل سنت کو بے دریغ شہید کرنے والے قصاب بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ کیا ، بس اللہ سے دعا کیجیے کہ اہل شام کے لیے ہر آفت اور مشکل اب کافور ہو جائے اور شام میں جو صبح ہوئی ہے اس کی روشنی قیامت تک باقی رہے).
اہلِ شام! تم اب مختلف طرح کی کہانیاں سنو گے کہ بشار حکومت کا خاتمہ کیسے ہوا: کیا یہ واقعی شامی حزبِ اختلاف کی کسی فوجی کارروائی کے نتیجے میں گری؟ کیا یہ کسی معاہدے کے تحت سرنڈر کر گئی؟ کیا اس کامیابی کے پیچھے علاقائی اور عالمی طاقتوں کا ہاتھ تھا جنہوں نے شامی حزبِ اختلاف کی مدد کی؟ کیا اسرائیل اور امریکہ نے بشار حکومت کے خاتمے میں کوئی کردار ادا کیا؟ کیا روس، امریکہ، ترکی اور اسرائیل نے آپس میں مل کر بشار حکومت کو گرانے کا منصوبہ بنایا اور شامی گروہوں نے اس پر عمل کیا؟ یہ وہ چند "سازشی نظریات” ہیں جو آپ مختلف حلقوں سے سنیں گے۔ ان میں سے اکثر تو محض جھوٹ اور بے بنیاد الزامات ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ جو کوئی بھی اس قسم کے واہیات نظریات پھیلائے، وہ درحقیقت شامی قوم کی اس عظیم فتح کی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جو دنیا کے جدید ترین جابر نظام کے خلاف حاصل کی گئی۔ آپ ان لغویات پر یقین مت کیجیے، بلکہ ان پر ہنس دیجیے اور بالکل بھی دھیان نہ دیجیے، کیونکہ کئی ایسے عناصر ہیں جن کے اپنے مفادات ان جھوٹی کہانیوں کو پھیلانے سے جڑے ہوئے ہیں۔
میں نے کئی دن اس معاملے پر غور کیا اور بیرونی عوامل کو کھنگالا کہ کیا واقعی شامی باغی محض بیرونی طاقتوں کے ہاتھوں کی کٹھ پتلیاں تھے؟ مکمل تحقیق کے بعد جواب یہ ہے کہ ہرگز نہیں! یہ کامیابی مکمل طور پر شامی قوم کی اپنی تخلیق تھی۔ شاید کچھ ہمسایہ ممالک نے ضمنی مدد فراہم کی ہو، مگر منصوبہ بندی اور عمل درآمد سو فیصد شامیوں نے خود کیا۔ وہ سپاہی اور کمانڈر، جنہوں نے دمشق کو فتح کیا، خالص شامی تھے۔ ہتھیار مقامی طور پر تیار کیے گئے۔ ڈرونز، جنہوں نے اسدی فوج کے اڈوں کو تہس نہس کیا، مکمل طور پر شامی تھے۔ اس تاریخی کارروائی کو چلانے والے دماغ بھی شامی تھے، اور اس کے پیچھے جو مقاصد کارفرما تھے، وہ بھی خالصتاً قومی شامی مقاصد تھے۔
یہ مان لینا سراسر جھوٹ ہوگا کہ روس، امریکہ، اسرائیل اور ترکیہ جیسی عالمی اور علاقائی طاقتوں نے مل کر یہ آپریشن کیا۔ یہ الزام شامی قوم کی عظیم کوششوں کو پسِ پشت ڈالنے کی مذموم کوشش ہے۔ البتہ یہ سچ ہے کہ ترکیہ اور چند عرب خیر خواہوں نے جزوی مدد فراہم کی، لیکن پوری کارروائی بیرونی نہیں تھی۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ خود روس، جو بشاری اقتدار کا سب سے بڑا حمایتی تھا، اس کارروائی سے مکمل طور پر حیران رہ گیا؟ روسی وزیر خارجہ "لاوروف” نے ایک خصوصی بیان میں اس کا اعتراف کیا کہ انہیں کوئی اندازہ نہیں تھا کہ بشار حکومت کا فوجی ڈھانچہ اس حد تک کمزور ہوچکا ہے۔
روس نے یہ بھی تسلیم کیا کہ حلب میں موجود اسدی فوج پہلے ہی شکست خوردہ تھی۔ وہ نہ صرف باغیوں کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں تھی بلکہ ان سے لڑنے کی خواہش بھی کھو چکی تھی۔ اس کی بنیادی وجہ فوجیوں میں شدید بھوک اور بدحالی تھی۔ فوج کے پاس کھانے کو اکثر ایک آلو کا ٹکڑا بھی بمشکل ہوتا تھا، کیونکہ شام کی دولت اسد خاندان اور ان کے بیرونِ ملک شراکت داروں کے بینک اکاؤنٹس میں منتقل ہوچکی تھی۔ اس دوران، شامی عوام اور فوج دونوں بھوک، سردی، اور زندگی کی بنیادی سہولیات کے فقدان میں مبتلا رہے۔
مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ بشار الاسد اور اس کی بیوی شام میں بجلی کی فراہمی روک کر، ہمسایہ ممالک کو ڈالرز کے بدلے بجلی بیچ رہے تھے، جبکہ شامی عوام اندھیرے میں زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔ یہ بھی سچ ہے کہ 2015ء میں جب شام کی بڑی جنگوں کا اختتام ہوا، تو بشار کی فوجی بنیادیں مکمل طور پر کھوکھلی ہوچکی تھیں۔ اس کے بعد ہر محاذ پر زوال تیز تر ہوتا گیا، بالخصوص فوجی میدان میں۔
مجھے کئی ایسے فوجی اہلکاروں نے بعد میں بتایا کہ وہ جنگ کے دوران فاقہ کشی کا شکار تھے۔ ان میں سے ایک نے نپولین کا مشہور قول دہرایا: "فوجیں اپنے پیٹ پر چلتی ہیں” یعنی بھوکے فوجی کبھی جنگ نہیں لڑ سکتے۔ روسی حکام نے اس کا حل تلاش کرنے کی کوشش کی اور شروع میں وہ باغیوں کے خلاف کارروائی کرنے کے بارے میں سنجیدہ تھے، مگر جب انہوں نے یہ دیکھا کہ شامی فوج میں لڑنے کی سکت نہیں رہی، تو روس نے فوری طور پر باغیوں کے خلاف اپنی فضائی کارروائیاں روک دیں۔ ان کا یقین پختہ ہوگیا کہ بشار حکومت کی فوج اپنے اختتام کو پہنچ چکی ہے۔
یہ فتح محض سازش یا بیرونی مدد کا نتیجہ نہیں تھی، بلکہ یہ شامی عوام کی اپنے خون، پسینے اور بھوک سے لکھی گئی کامیابی کی داستان ہے۔
یہاں تک کہ خود ایرانیوں نے بھی یہی صورتحال محسوس کی، چنانچہ انہوں نے فوراً ہی لڑائیوں سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کیا کیونکہ وہ شامی فوج اور روسی فضائیہ کے بغیر تنہا باغیوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے۔ آپ یقین کریں کہ ایرانی اور ان کی ملیشیا بجلی کی رفتار سے باغیوں کے آگے پسپا ہو گئے کیونکہ انہیں اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ جنگ انھیں شکست سے دو چار کرے گی۔ ایرانی بھی شامی فوج کی تیز رفتار شکست پر ویسے ہی حیران تھے جیسے روسی۔
مجھے خود روسی وزارت خارجہ کے مشیر، جناب رامی الشاعر نے بتایا کہ حلب کو آزاد کرانے کا عمل بجلی کی تیزی سے مکمل ہوا کیونکہ شامی فوج نے غیر معمولی رفتار سے فرار اختیار کر لیا تھا، اور حلب کے عوام خود کو اس کٹھن حالات سے نکالنے کے لیے کسی نجات دہندہ کے منتظر تھے، اس لیے انہوں نے انقلابیوں کا پُرجوش خیر مقدم کیا۔ حلب کے لوگوں نے باغیوں سے جو امیدیں وابستہ کی تھیں، وہ پوری ہوئیں کیونکہ انقلابی ان کے ساتھ بھائیوں کی طرح پیش آئے۔ اس حسن سلوک، شائستگی، اخلاقی برتری اور مہربانی کی گواہی پوری دنیا نے دی۔
جناب رامی الشاعر نے مزید کہا کہ تمام شامی شہر انقلابیوں کا ویسے ہی استقبال کریں گے جیسے حلب کے لوگوں نے کیا۔ اور حقیقت میں ایسا ہی ہوا۔ انقلابیوں کی فوج نے حماہ کی طرف پیش قدمی کی، جہاں شامی فوج نے کچھ ہی گھنٹوں تک مزاحمت کی اور پھر وہ بھی پسپا ہو گئی۔ اس کے بعد انقلابیوں نے تیزی سے حمص کے مضافاتی علاقوں کا رخ کیا اور پلک جھپکتے ہی ان علاقوں کو آزاد کرا لیا۔ حمص کا محاصرہ بھی صرف ایک دن یا اس سے کچھ زیادہ تک رہا۔
اس دوران، السویداء کے عوام نے اپنے معمولی اسلحے کے ساتھ مقامی مزاحمتی تحریک کا آغاز کیا اور حکومتی افواج، سیکورٹی فورسز اور ریاست کے دیگر نمائندوں کو شکست دے کر ان سب کو وہاں سے نکال دیا۔ ان کے بعد درعا نے بھی حکومتی افواج کو شکست دی اور دمشق کی طرف پیش قدمی شروع کی۔
اسی دوران انقلابیوں نے حمص کو مکمل طور پر آزاد کرا لیا اور چند گھنٹوں میں دارالحکومت دمشق کا دروازہ کھول دیا۔ بڑے فوجی اور سکیورٹی عہدیدار پہلے ہی فرار ہو چکے تھے، اور ان سے پہلے تو خود شامی صدر کو روسیوں نے جلدی جلدی حمیمیم ایئر بیس سے ماسکو منتقل کر دیا تھا۔ ہزاروں شامی فوجی عراق کی طرف بھاگ گئے، کچھ کھلے میدانوں میں بھٹک رہے تھے، اور کئی نے اپنی فوجی وردیاں اتار کر عام شہریوں کا لباس پہن لیا۔
یہاں تک کہ امریکیوں اور اسرائیلیوں کو بھی حیرت ہوئی، جب انہوں نے شامی فوج کے غیر متوقع زوال کو دیکھا تو اپنے سر کھجانے لگے۔ اسرائیل نے بھی بغیر کسی پیشگی تیاری کے فوراً اپنی حفاظتی اقدامات کرنا شروع کر دیے کیونکہ وہ بھی شامی فوج کے زوال کی اتنی بڑی خبر کے لیے تیار نہیں تھے۔ جیسے ہی شامی فوج کے فرار کی خبریں دنیا بھر کے بڑے دارالحکومتوں تک پہنچیں، سب نے یہ تسلیم کرنا شروع کر دیا کہ شامی حکومت کا باب بند ہو گیا ہے اور اب انہیں باغیوں کی طرف سے پیدا کردہ نئی حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا۔
یہ اس بات کا سب سے بڑا ثبوت ہے کہ اب مغربی ممالک بھی "ہیئۃ تحریر الشام” (النصرہ فرنٹ) کو دہشت گردوں کی فہرست سے نکالنے پر غور کر رہے ہیں۔ اسرائیل کی غیر متوقع حیرانی کا ایک اور ثبوت یہ ہے کہ اس نے شام کے تمام فضائی، زمینی اور بحری فوجی اڈوں پر فضائی حملے شروع کر دیے کیونکہ اب وہ ان فوجی اڈوں کو اپنے لیے خطرہ سمجھنے لگا تھا۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ شام کا فوجی نظام پچھلے پچاس سال سے اسرائیل کے لیے ایک محافظ کتے کا کردار ادا کر رہا تھا، اور تل ابیب شامی فوج کی طاقت کو محفوظ ہاتھوں میں تصور کرتا تھا۔ لیکن جیسے ہی شامی حکومت کا خاتمہ ہوا، اسرائیل نے اپنے تحفظ کی فکر شروع کر دی اور شام کے ہر اسلحہ خانے اور فوجی اڈے کو تباہ کرنے لگا۔
مختصر یہ کہ شامی عوام کو اس سچی اور تاریخی فتح پر زبردست خوشی منانے کا حق حاصل ہے، کیونکہ اگر شامی فوج میں لڑنے کی تھوڑی بھی صلاحیت ہوتی تو یہ فتح اتنی تیزی سے ممکن نہ ہوتی۔ اگر ایسا ہوتا تو روس، ایران اور دنیا بھر کے دیگر اتحادی شامی فوج کی مدد کو آ جاتے۔ لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا، اور شامی عوام نے دنیا کے سب سے بدترین فاشسٹ نظام کو اکھاڑ پھینکا۔
شامیوں کو اس عظیم فتح پر مبارک ہو۔ نیز جب وہ شام کو دوبارہ انسانی اور عمرانی سطح پر تعمیر کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے تو یہ فتح اور بھی حسین اور خوبصورت ہو جائے گی۔ کوئی شک نہیں کہ شامی قوم اندرونی اور بیرونی سازشوں پر قابو پانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ وہ ان گھناؤنی عالمی سیاستوں کا بھی سامنا کرے گی جو شام میں اپنی جڑیں گاڑنا چاہتی ہیں اور یہی سازشیں سب سے بڑی دلیل ہیں کہ شام کی آزادی شامیوں کی اپنی محنت کا نتیجہ ہے، جو قریب اور دور کے دشمنوں کو قطعا پسند نہیں آئی۔ لیکن اللہ کے حکم سے شامی عوام ان سب کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔
(ڈاکٹر فیصل قاسم کالم نگار شام سے تعلق رکھنے والے معروف صحافی ہیں) ۔