نئے سال کی شرعی حیثیت کو سمجھنا اور سمجھانا وقت کی اہم ضرورت
از :۔ پروفیسر ابو زاہد شاہ سید وحید اللہ حسینی القادری
__________________
جس طرح دین اسلام نے کھانے پینے اور پہننے اوڑھنے میں ’’طیبات‘‘ کے استعمال اور زینت کی رعایت کی اجازت دی ہے اسی طرح اس نے اخلاقی پاکیزگی کا خیال رکھتے ہوئے فرحتوں و مسرتوں سے لطف اندوز ہونے کو بھی روا رکھا ہے۔کوئی بھی چیز اس وقت تک حرام نہیں قرار پاسکتی جب تک کہ قرآن اور صاحب قرآن ﷺ نے اس کو صراحتاً حرام قرار دنہ دے دیا ہو۔ ان کے علاوہ جتنی چیزیں ہیں وہ حلال اور مباح ہوں گی ۔لہٰذا اگر کوئی انسان نئے سال کا جشن حدود شرعی میں رہ کر منانا چاہے یا اپنے کسی غیر مسلم بھائی کو مبارک باد دینا چاہے تو کوئی حرج و ممانعت نہیں ہے۔ واضح باد کہ انسان کا کوئی دنیوی فعل بھی اگر شریعت مطہرہ کے مطابق انجام دیا جائے تو وہ عبادت کا درجہ حاصل کر لیتا ہے جیسے نکاح جو صرف اور صرف جسمانی خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ ہے لیکن چونکہ ہمارا یہ عمل اسلامی تعلیمات کے مطابق انجام پاتا ہے اسی لیے نکاح کو بھی عبادت یعنی سنت قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح جب کوئی انسان دینی کام اور عبادت بھی قرآنی ارشادات کے خلاف انجام دیتا ہے تو وہ انسان کے لیے باعث عذاب بن جاتا ہے جیسے ریاکاری کے ساتھ نماز، روزہ، زکوٰۃ ، حج اور دیگر اعمال صالحہ کی ادائیگی۔ اسی طرح اگر کوئی مسلمان شرعی حدود میں رہتے ہوئے کسی مسلم بھائی کو شکرانہ کے طور پر یا پھر غیر مسلم حضرات کو نئے سال کی مبارک باد دے رہا ہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ نیا سکنڈ، نیا منٹ، نیا گھنٹہ، نیا دن، نیا ہفتہ ، نیا مہینہ اور نیا سال ہی نہیں بلکہ اللہ پاک کی جانب سے بندوں کو نئی سانس کا عطا کیا جانا بھی بہت بڑی نعمت ہے چونکہ عین ممکن ہے کہ اسی لمحہ گناہگار بندہ اپنے رب سے توبہ و استغفارکرکے اپنی مغفرت و بخشش کروالے۔ اسی طرح نئے سال کا معاملہ ہے یہ ہمارے لیے رب کی جانب سے عطا کردہ ایک اور مہلت ہے کہ ہم اپنے کردار اور اعمال کا محاسبہ کریں اور بندہ اس مہلت کا صحیح استعال کرلے تو یقینا ایسی ساعتوں اور لمحات کا ملنا بندے کے حق میں مبارک و مسعود ہے ۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں عصر یعنی وقت کی قسم یاد فرمائی ہے جو وقت کے عظیم نعمت ہونے پر دال ہے۔ لہٰذا اس نعمت کے حصول پر کسی کو مبارک باد دینے میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے۔ خلاق دو جہاں انسان کو وجود بخشنے کے بعد اس کی خلقت میں عوامل فجور و تقوی ودیعت فرمائے ہیں یعنی اسے خیر و شر کی فطری ہدایت و تعلیم عنایت فرمائی۔ علاوہ ازیں انسان کو عقل سلیم کی دولت سے بھی سرفرازکیا تاکہ وہ یہ فرق و امتیاز کرسکے کہ کونسے کام کرنے والے ہیں اور کن کاموں سے اجتناب و پرہیز کرنا ضروری ہے۔ فسق و فجور اسے گناہوں اور سیئات کی طرف راغب کرتے ہیں جو انسان کی بدبختی کا اہم سبب ہے۔ ورع و تقوی اسے خیرات و حسنات کی طرف مائل کرتے ہیں جس کے سبب انسان کو سعادتمندی نصیب ہوتی ہے۔ جب انسان بیدار عقل و وجدان کا استعمال کرتے ہوئے سیدھی راہ پر گامزن ہوتا ہے تو فرشتوں پر صعودی فوقیت و برتری حاصل کرلیتا اور جب وہ شیطانی اخلاق و عادات، نفسانی خواہشات کا اسیر ہوکر انواع و اقسام کے گناہوں کا ارتکاب کرتا ہے تو نزولی اعتبار سے جانور سے بدتر بن جاتا ہے۔ قرآن مجید نے واضح الفاظ میں بیان فرمایا کہ ہدایت وہی پائے گا جو دین حنیف اور ملت ابراہیم کا پیروکار ہوگا ۔ تاجدار کائناتﷺ کے وسیلہ سے امت مسلمہ کو حکم دیا گیا کہ ملت ابراہیمی کی پیروی کریں۔ قرآن مجید نے حضرت سیدنا ابراہیمؑ کی صفات عالیہ و محمودہ میں سے ایک صفت جلیلہ کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا آپؑ اللہ تعالی کی پیہم نعمتوں پر شکر ادا کرنے والے تھے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو نیا سال بھی چونکہ رب کی نعمت ہے اور اس پر شکر ادا کرنا اسوہ ابراہیمی کی پیروی کرنے کے مترادف ہے ۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ نئے سال پر مبارک باد دینا اس لیے بھی ناجائز ہے چونکہ نیا سال یہ پیغام لے کر آیا ہے کہ ہماری زندگی کا ایک سال ختم ہوگیا ہے۔ یقینا اس قول میںصد فیصد سچائی ہے لیکن اس نئے سال کو اس زاویے سے بھی تو دیکھا جاسکتا ہے اللہ تعالی نے اپنے گناہگار بندوں کو توبہ و استغفار کا ایک اور موقع عنایت فرمایا تاکہ وہ اپنے گناہوں کی بخشش کروالیں اور حصول قرب الٰہی کے لیے صراط مستقیم پر گامزن ہونے کی سعی جمیل کریں۔ اس نظریہ سے دیکھا جائے تو نئے سال کی آمد پر مبارک باد دیتے ہوئے ایک دوسرے کے حق میں دعا خیر کی جاسکتی چونکہ امام طبرانی نے الاوسط میں روایت نقل فرمائی ہے جس سے اس بات کی تائید ہوتی ہے ۔’’کان اصحاب النبی صلی اللہ علیہ و آل و سلم یتعلمون ھذا الدعاء اذا دخلت السنۃ او الشھر: اللھم ادخلہ علینا بالامن والایمان، واسلامۃ والاسلام، و رضوان من الرحمن، و جواز من الشیطان‘‘۔(طبرانی، الاوسط) حضرت عبداللہ بن ہشام ؓ فرماتے ہیں ’’نئے سال یا مہینے کی آمد پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین ایک دوسرے کو یہ دعا سکھاتے تھے: اے اللہ! ہمیں اس میں امن، و ایمان، سلامتی اور اسلام کے ساتھ داخل فرما۔ شیطان کے حملوں سے بچا اور رحمن کی رضامندی عطاء فرما‘‘۔بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ چونکہ نئے سال کی رات کو اختلاط مرد و زن ہوتا ہے ، شراب و شباب، نغموں اور رقص کی محافل سجائی جاتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ اگر بالفرض محال یہ مان بھی لیا جائے کہ ان امور کی وجہ سے نئے سال کی مبارک باد دینا ناجائز ہے تو ہم سب کا کعبۃ اللہ شریف کا طواف کرنا بھی ناجائز ہوجائے گا چونکہ اس میں بھی 360 بت رکھے ہوئے تھے جن کو قرآن حکیم نے نجس قرار دیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہم بغیر کسی کراہیت کے بلکہ ذوق و شوق اور عشق و محبت کے عالم میں خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہیںاس سے ثابت ہوتا ہے کہ بتوں کے رکھے جانے سے کعبۃ اللہ شریف کی حرمت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی البتہ ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ کعبۃ اللہ شریف کو بتوں سے پاک و صاف کردیا جائے اسی طرح نئے سال کے موقع پر غیرانسانی اور غیر شرعی امور انجام پا رہے ہیں تو بحیثیت امت مسلمہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ان کے خلاف آواز اٹھائیں اور ان کی اصلاح کرنے کی کوشش کریں نہ کہ چشم پوشی سے کام لیتے ہوئے گوشہ نشینی اختیار کرلیں۔ بعض لوگ نئے سال کی مبارک باد دینے اور قبول کرنے کو اس لیے ناجائز قرار دیتے ہیں چونکہ نئے سال کا تہوار عیسائیوں کا ہے اسی لیے مسلمانوں کو اس سے اجتناب کرنا چاہیے اور بطور دلیل یہ حدیث پیش کی جاتی ہے جس میں آقائے نامدار رسول عربی ﷺ نے فرمایا ’’جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ کل قیامت کے دن ان ہی میں شمار ہوگا۔‘‘نئے سال کا جشن منانا عیسائیوں کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ بلا لحاظ مذہب وملت ہر قوم اس کو مناتی ہے اسی لحاظ سے دیکھاتو یہ جشن سال نو نہ عیسائیوں کی مذہبی علامت ہے اور نہ ہی قوم شناخت۔ ہماری یہ منفی سونچ غیر واجبی اور غیر اسلامی اس لیے بھی ہے چونکہ اسلام نے اہل کتاب سے نکاح کی اجازت مرحمت فرمائی اور ہم اہل کتاب کو مبارک باد دے سکتے ہیں یا نہیں اسی میں الجھے ہوئے ہیں۔ علاوہ ازیں اسلام نے تالیف قلب کے لیے غیر مسلم حضرات کو اموال زکوٰۃ دینے کی اجازت بھی دی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے توتالیف قلب کے لیے غیر مسلم حضرات کو نئے سال کی مبارک دینے کا جواز نکلتا ہے عین ممکن ہے کہ ہمارے اس حسن عمل سے مثبت اثرات غیر مسلم حضرات کے قلوب و اذہان پر پڑیں اور وہ اسلام کے مطابق غور وفکر کرنے پر مجبور ہوجائیں۔امید پہ دنیا قائم ہے۔علاوہ ازیں ذرا غور کیجیے کہ عصر دوران کا کوئی مفسر، محدث، فقیہ اور صوفی جس کی نہ صرف اپنی پوری زندگی تعلیمات اسلامی کے مطابق گزری ہو بلکہ ان مبارک ہستیوں کے علمی فیضان سے کئی تشنگان علم نے اپنی علمی پیاس بجھائی ہو اور ان کے نیک کردار سے متاثر ہو کر کئی غیر مسلم افراد داخل اسلام ہوئے ہوں ایسی معتبر و مبارک ہستی کیا صرف اس بناء پر جہنم رسید کردی جائے گی کہ اس نے زندگی کے کسی موڑ پر غیر مسلم کو نئے سال کی مبارک باد دی تھی۔ جو لوگ مذکورہ بالا حدیث پاک کا حوالہ دیکر نئے سال کی مبارک باد دینے کو ناجائز قرار دیتے ہیں پورے وثوق کے ساتھ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کے پیدائشی سرٹیفکیٹ بھی شمسی مہینے کے مطابق بنے ہوئے ہیں قمری مہینے کے مطابق نہیں۔ انسان کا ڈیتھ سرٹیفکیٹ بھی شمسی کیلنڈر کے مطابق بنتا ہے یہاں پر کوئی یہ نہیں کہتا کہ چونکہ تمہارا برتھ سرٹیفکیٹ شمسی کیلنڈر کے مطابق بنا ہے اور یہ عیسائیوں سے مشابہت ہے لہٰذا تمہارا حشر بھی انہی کے ساتھ ہوگا۔ نظام شمسی کے مطابق زندگی کے امور انجام دینے میں کوئی قباحت نہیں ہے پہلی وجہ تو یہ کہ نظام شمسی ہو یا قمری دونوں اللہ تعالی کے جاری کردہ ہیںجو وقت مقررہ تک مصروف کار رہیں گے ۔ آفتاب و ماہتاب عظمت کردار کی عظیم نشانیاں ہیں۔ شمس و قمر کا یہ نظام جاودانی اوقات کے تعین کا اہم ترین ذریعہ ہے۔
اس میں دو رائے نہیں کہ قرآن مجید نے قمری نظام کو فضیلت دی ہے یہی وجہ ہے کہ سوائے نماز کے اسلام کے تمام عبادات اور معاملات کا تعلق قمری نظام سے ہے ۔ دوسری وجہ یہ کہ اسلام میں نماز کے اوقات مکمل طور پر نظام شمسی پر منحصر ہیں۔ علماء اسلام کی تحقیقات اور مفتی بہ قول سے یہ بات بھی ثابت ہے کہ نئے سال کی مبارک بادی دینے میں پہل نہ کرو البتہ اگر کوئی تم کو نئے سال کی مبارک باد دیتا ہے تو اس کے جواب دینے میں کوئی حرج نہیں۔ یعنی احتیاط کا تقاضہ یہ ہے کہ نئے سال کی مبارک بادی دینے میں پہل نہ کی جائے یہ نہیں فرمایا گیا کہ ایسا کرنا ناجائز، حرام یا کفر و شرک میں مبتلا کرنے والا ہے اگر واقعی ایسا ہوتا تو مبارک بادی کا جواب دینا بھی ناجائز اور حرام قرار پاتا۔ واضح باد کہ تاجدار کائنات ارشاد فرماتے ہیں کامل مومن وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں۔اس حدیث کے مطابق بھی یہ جائز ہے کہ جو ہمیں نئے سال کی مبارک باد دے ہم اس کا جواب احسن طریقہ سے دیں ورنہ یہ ہماری بداخلاقی متصور ہوگی۔آخر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ بطفیل نعلین پاک مصطفیﷺ ہمیں قرآن اور صاحب قرآن ﷺ کی تعلیمات کے مزاج کو سمجھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق رفیق عطا فرمائیں۔آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین