ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر: حیات اور کارنامے
از قلم: محمد شہباز عالم مصباحی
اسسٹنٹ پروفیسر، سیتل کوچی کالج، سیتل کوچی، کوچ بہار، مغربی بنگال
ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر ہندوستان کے ان عظیم افراد میں سے ایک تھے جن پر ہندوستان کو ناز ہے- امبیڈکر کی پیدائش 14 اپریل 1891 میں مدھیہ پردیش کے مہو میں ہوئی تھی- وہ اپنے چودہ بھائی بہنوں میں سب سے چھوٹے تھے-ان کی زندگی کافی دکھ بھری تھی-وہ چونکہ ہندو دھرم کے لحاظ سے ایک اچھوت خاندان میں پیدا ہوئے تھے جس کی وجہ سے انہیں کافی دقتوں کا سامنا کرنا پڑا-اسکول میں ان کو پانی پینا ہوتا تواسکول کا چپراسی اوپر سے ان کے منھ میں پانی کا گلاس ڈالتا تو وہ پانی پیتے اوراگر کسی دن چپراسی غائب ہوتا اور انہیں پیاس لگتی تو وہ پانی نہیں پی سکتے تھے، بلکہ انہیں پیاسے ہی گھر لوٹنا پڑتا تھا-اس بات کا تذکرہ بھیم راو نے اپنی کتابNo Poen, No Water میں کیا ہے-تاریخ میں ہے کہ اچھوت فیملی میں پیدا ہونے کی وجہ سے امبیڈکر کو کلاس روم میں سب سے پیچھے بٹھایا جاتا تھا اوراستاد اس پر کوئی خاص دھیان بھی نہیں دیتا تھا-
بھیم راو کی فیملی 1897 میں مدھیہ پردیش سے ہجرت کرکے ممبئی کے علاقہ ستارا میں آگئی- یہاں انہوں نے ممبئی یونیورسٹی سے منسلک ایک ہائی اسکول سے دسویں اور بارہویں پاس کیا- پھر ممبئی یونیورسٹی سے سیاسیات و معاشیات میں گریجویشن کیا-اس کے بعد بھیم راؤ برودہ میں ایک ملازمت سے وابستہ ہوگئے- اسی دوران ان کے والد کی موت ہوگئی -بھیم راؤ کی تعلیمی لگن کو دیکھ کر برودہ کے مہاراجا نے ان کو مزید اعلی تعلیم کے لیے اسکالر شپ دینے کا وعدہ کیا جس سے وہ امریکہ گئے اور وہاں کولمبیا یونیورسٹی سے ایم اے کیا- اسی یونیورسٹی نے انہیں ان کے مایہ ناز تھیسسThe Evolution of Provincial Finance in British India پر پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی دی-اس کے بعد اسکالرشپ ختم ہونے کی وجہ سے وہ ہندوستان آگئے-پھروہ 1920میں ایک دوست کی مدد سے لندن گئے جہاں سے انہوں نے اپنے تھیسسThe Problem of the Rupee پر ڈی ایس سی کی ڈگری حاصل کی-
تین سال رہ کر 1923 میں وہ لندن سے ہندوستان آئے اور پھر یہاں انہوں نے نچلے اوراچھوت لوگوں کو مساوی حقوق دلانے کے لیے جنگ چھیڑدی- اس کے ساتھ انہوں نے عورتوں اورغریبوں کے حقوق کے لیے بھی آواز بلندکی-1923 ہی میں انہوں نے ”بہشکرت ہیتکرینی سبھا“ نامی ایک ایسوشی ایسن قائم کیا جس کا مقصد نچلے طبقے کے لوگوں میں تعلیم و ثقافت کو فروغ دینا اوران کی بدترین معاشی حالت کو سدھارنا تھا-1927 میں انہوں نے کولابا ،ممئی میں ”ماہَد مارچ“نکالا تاکہ اچھوت لوگ بھی عام کنووؤں اور تالابوں سے پانی لے سکیں جو کہ اونچی ذات کے ہندوؤں کی جانب سے منع تھا- اسی مارچ میں انہوں نے منوسمرتی کی کاپیاں بر سر عام جلاڈالیں جس میں یہ لکھا ہوا ہے کہ اچھوت اگرکوئی شلوک سن لے تو اس کے کان میں سیسہ پگھلا کر ڈال دینا چاہیے- 1930 میں انہوں نے مندروں میں اچھوتوں کے داخلہ کے لیے کالا رام مندر، ناسک کے پاس ایک تحریک بھی چلائی-اس طرح وہ مساوی انسانی حقوق اور سماجی انصاف کے لیے ہمیشہ لڑتے رہے- ڈاکٹر امبیڈکر نے لندن میں منعقدہ تینوں گول میز کانفرنس میں شرکت کی جن میں بھی انہوں نے اچھوتوں کے حقوق کے لیے اپنے نظریات رکھے- زندگی بھر کی کوششوں کے بعد ان کا یہ نظریہ بنا کہ ہندو مذہب میں رہ کراچھوتوں کو کوئی تابناک مستقبل نہیں مل سکتا جس کی وجہ سے انہوں نے تبدیلی مذہب کا فیصلہ کرلیا اور 1935 میں انہوں نے یہ اعلان کردیا کہ”اگر چہ میں ہندو پیدا ہوا ہوں،لیکن ہندو نہیں مروں گا-“کچھ عرصے کے بعد انہوں نے” انڈیپنڈنٹ لبر ل پارٹی“بھی بنائی-اسی دوران انہوں نے ہندوستان سے جاگیرداری نظام کو ختم کرنے پر بھی بھر پورزور دیا-
15اگست، 1947 میں جب ہندوستان آزاد ہوا اور پنڈٹ جواہر لال نہرو پہلے وزیراعظم بنے توان کو پہلا وزیر قانون بھی بنایا گیا- بعد میں انہوں نے ”ہندو کوڈ بل “پر حکومت سے اختلاف کی وجہ سے اس وزارت سے استعفا دے دیا-
امبیڈکر کی زندگی میں نہایت ہی کامیاب موڑ اس وقت آیا جبکہ قانون ساز اسمبلی نے ہندوستان کی آئین سازی کے لیے ایک کمیٹی مقرر کی اور امبیڈکر کو اس کمیٹی کا چیئرمین منتخب کیا گیا- ڈاکٹر امبیڈکر نے آئین کو پورے طور سے مرتب کرکے دوسال کے عرصے میں اسمبلی کو سونپ دیا- آئین میں پچھڑے قبائل، پچھڑی ذاتیوں اور بیک ورڈ لوگوں کو مکمل سماجی انصاف دیا گیا اوران کے حقوق کا بھر پوردھیان رکھا گیا-انہوں نے آئین میں تمام شہریوں کے لیے ہر طرح کے حقوق ،ان کی آزادی ،اتحاد اور احترام پر خاص توجہ دی- اس طرح انہوں نے ہندوستان جیسے متنوع ملک کو ایک نہایت ہی شاندارسیکولر،جمہوری اور عوامی دستور دیا –
14 اکتوبر، 1956 میں انہوں نے ہندو مذہب کو ترک کرکے اپنے بہت سارے پیروکاروں کے ساتھ بودھ مذہب اختیار کرلیا- بتایا جاتا ہے کہ امبیڈکر اسلام مذہب قبول کرنا چاہتے تھے، لیکن ایس سی اور ایس ٹی کے لیے ریزرویشن کے مسئلے پر گاندھی جی سے بحث ومباحثہ کے دوران ایک دن گاندھی نے ان سے کہا کہ مذہب بدلنا چاہتے ہیں تو سکھ مذہب یا کوئی اور اپنالیں، پر اسلام نہیں-
امبیڈکر جہاں ان ساری خوبیوں کے مالک تھے وہیں وہ ایک بڑے مصنف بھی تھے – انہوں نے بہت ساری قیمتی کتابیں بھی لکھیں- 6 دسمبر، 1956میں باباصاحب ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر اس دنیا کو چھوڑ کر چلے گئے-
آج امبیڈکر جی کے لیے ہم سب کی جانب سے سب سے بڑا خراج یہ ہوگا کہ اس ملک میں جمہوریت کو پامال ہونے سے بچایا جائے اور ان کے مرتب کردہ آئین ہند کی مکمل پاسداری کی جائے-