اجمیر عرس کو دعوتی و تبلیغی عرس بنانے کی ضرورت
از: محمد شہباز عالم مصباحی
سیتل کوچی کالج ،سیتل کوچی، کوچ بہار، مغربی بنگال
اجمیر شریف کی درگاہ، حضرت خواجہ معین الدین حسن چشتی اجمیری علیہ الرحمۃ کی وہ روحانی خانقاہ ہے جہاں ہر سال لاکھوں عقیدت مند عرس میں شرکت کے لیے جمع ہوتے ہیں۔ یہ ایک ایسا موقع ہے جس سے دینِ اسلام کی حقیقی تعلیمات کو عام کیا جا سکتا ہے اور عوام الناس کی اخلاقی و روحانی تربیت کی جا سکتی ہے۔ لیکن افسوس کہ یہ بابرکت موقع خالص روحانی اصلاح کے بجائے مالی فوائد اور دنیاوی حرص و ہوس کا شکار ہو چکا ہے۔
اخلاقی و روحانی تربیت کی ضرورت:
حضرت خواجہ اجمیریؒ کی خانقاہ کا مقصد لوگوں کو توحید، عشقِ الٰہی، خدمتِ خلق، اور اخلاقی و روحانی ترقی کی طرف راغب کرنا تھا۔ لیکن موجودہ دور میں عرس ایک ایسی محفل بن گیا ہے جہاں یہ تعلیمات کہیں گم ہو چکی ہیں۔ عرس کے دوران لاکھوں زائرین موجود ہوتے ہیں، جو دین کی تعلیمات اور اصلاح کے لیے بہترین موقع فراہم کرتے ہیں۔ مگر خدام اور انتظامیہ کی توجہ اخلاقی تربیت کے بجائے مالی مفادات حاصل کرنے پر مرکوز رہتی ہے۔
خدام کی حرکات:
عرس کے موقع پر خدام کے کردار اور ان کے رویے کو دیکھ کر افسوس ہوتا ہے۔ خدام کی نئی نسل، جو عرس کے انتظامات میں شامل ہوتی ہے، عیاشی اور اخلاقی بے راہ روی کا شکار نظر آتی ہے۔ زائرین، خصوصاً خواتین، کے ساتھ ان کے نازیبا رویے درگاہ کی روحانی فضیلت کو مجروح کرتے ہیں۔ خواجہ اجمیریؒ کی تعلیمات میں عاجزی اور خدمتِ خلق کو اہمیت دی گئی تھی، لیکن موجودہ خدام ان اصولوں کے برعکس عمل کر رہے ہیں۔
سماع کی محفلوں میں خرافات:
سماع کی محفلیں، جو عشقِ الٰہی کو بیدار کرنے اور دلوں کو نرم کرنے کا ذریعہ تھیں، اب تفریح اور نمود و نمائش کا ذریعہ بن چکی ہیں۔ خوبصورت دوشیزائیں سماع کی محفلوں میں غیر مناسب انداز میں شریک ہوتی ہیں، اور یہ محافل روحانی تاثیر کے بجائے دنیاوی دل بستگی کا سامان بن گئی ہیں۔
براہ راست استعانت:
عرس کے دوران خواجہ صاحبؒ سے براہِ راست مدد طلب کرنے اور ان سے اولاد، صحت اور دیگر حاجات مانگنے کا رواج عام ہو گیا ہے۔ یہ عمل بظاہر شرکیہ ہے اور اسلام کی بنیادی تعلیمات، یعنی توحید، کے سراسر منافی ہے۔ حضرت خواجہ اجمیریؒ نے ہندوستان میں توحید کی شمع روشن کی اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے اور اس کے مستعان ہونے کی تعلیم دی۔ مگر انہی کی درگاہ میں توحید کے اصولوں کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے، جو افسوسناک اور قابلِ مذمت ہے۔ بزرگانِ دین کو وسیلہ بنانا جائز ہے، لیکن مدد صرف اللہ تعالیٰ سے طلب کی جانی چاہیے۔
عرس کو دعوتی و تبلیغی موقع میں بدلنے کی ضرورت:
عرس کا یہ موقع خالصتاً روحانی اور اصلاحی ہونا چاہیے۔ خدام اور انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ زائرین کے اخلاق و کردار کو بہتر بنانے کے لیے دینی تعلیمات پر مبنی تقاریر، دروس، اور نشستوں کا اہتمام کریں۔ عرس کے دوران شرک، بے حیائی اور دنیاوی حرص و ہوس کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے اور لوگوں کو اسلام کے بنیادی اصولوں کی تعلیم دی جائے۔
خدام کے لیے اصلاحی تدابیر:
- 1. دینی تربیت: خدام کی دینی اور اخلاقی تربیت کے لیے خصوصی پروگرام منعقد کیے جائیں۔
- 2. عاجزی اور خدمت: خدام کو عاجزی اور خدمتِ خلق کا عملی مظاہرہ کرنے کا پابند بنایا جائے۔
- 3. مالی شفافیت: عرس کے دوران مالی امور میں شفافیت لائی جائے تاکہ زائرین کا اعتماد بحال ہو۔
زائرین کے لیے اقدامات:
- 1. تعلیماتِ خواجہ اجمیریؒ: زائرین کو خواجہ صاحبؒ کی تعلیمات سے روشناس کرایا جائے۔
- 2. شرک سے اجتناب: شرک اور غیر اسلامی اعمال کی اصلاح کے لیے علما اور مشائخ کو دعوت دی جائے تاکہ وہ لوگوں کی رہنمائی کریں۔
- 3. محفلِ سماع کی اصلاح: سماع کی محفلوں کو روحانی مقصد کے لیے مختص کیا جائے اور وہاں غیر شرعی حرکات کو روکا جائے۔
نتیجہ:
اجمیر عرس کو ایک دعوتی و تبلیغی عرس میں تبدیل کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ یہ نہ صرف خواجہ اجمیریؒ کے مشن کو زندہ کرے گا بلکہ لاکھوں زائرین کو دینِ اسلام کے قریب لانے کا ذریعہ بھی بنے گا۔ خدام اور زائرین کو اس موقع سے دینی فائدہ اٹھانے کی ترغیب دی جائے اور اس بابرکت اجتماع کو روحانی ترقی کا ذریعہ بنایا جائے۔ یہی خواجہ صاحبؒ کے مشن کی حقیقی تکمیل ہوگی۔