Site icon

اسرائیل حماس جنگ، فاتح کون ؟

اسرائیل حماس جنگ، فاتح کون ؟

از:- عبدالعلیم الاعظمی

اسرائیل اور حماس کے درمیان پندرہ ماہ سے چلنے والی جنگ؛ بلکہ تاریخ کی طویل ترین صہیونی جارحیت بالآخر جنگ بندی کے نفاذ کے ذریعہ 19/ جنوری 2025ء کو اپنے اختتام پر پہنچ جائے گی۔ جنگ بندی کے معاہدہ میں باقاعدہ اس بات کی ضمانت ہے کہ یہ جنگ دوبارہ شروع نہیں ہوگی؛ آخری صہیونی قیدی کی رہائی کے ساتھ فلاڈلفیا کے ایک حصے سے بھی صہیونی فوجیوں کا انخلاء ہو جائے گا۔ اس طویل ترین جنگ میں فتح کس کی ہوئی، کیا اسرائیل اپنے مقاصد کو حاصل کرنے میں کامیاب رہا ہے؟ کیا حماس نے جس مقصد کے لیے 7/ اکتوبر کو حملہ کیا تھا وہ حاصل کر لے گا؟ ذیل میں ہم دونوں کے اہداف و مقاصد کی روشنی میں جائزہ لیتے ہیں۔

اس جنگ کے اختتام پر فلسطینی شہداء کی ایک بڑی تعداد ہے، حکومتی اعداد و شمار کے مطابق یہ تعداد 50/ ہزار کے قریب ہے؛ لیکن درحقیقت فلسطینی شہداء کی تعداد ایک لاکھ سے بھی زائد ہے۔ اس پوری جنگ کے دوران اہل فلسطین نے بے مثال صبر و ضبط اور خدا پر ایمان کے ساتھ اپنی اور اپنے اہل خانہ کی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ تمام تر صہیونی جارحیت، سفاکیت اور نسل کشی کے سامنے سد سکندری کی طرح ڈٹے رہی!!! فلسطینیوں کے عزائم چٹان کی مانند تھی، بقول ابو عبیدہ فلسطینیوں نے دوست و دشمن دونوں کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔ یہ بہت واضح اور کھلی ہوئی حقیقت ہے کہ آزادی قیمت کے عوض حاصل ہوتی ہے۔ آزادی کے لیے سخت ترین قربانی دینی پڑتی ہے، دنیا کے کسی بھی خطے میں ظالم قابض نے بغیر مزاحمت کے تشتری میں رکھ کر آزادی نہیں دی ہے؛ بلکہ سخت ترین مزاحمت کے بعد ہی حاصل ہوئی ہے۔ جہاں ایک طرف اسرائیلی سفاکیت اور جارحیت میں غزہ تباہ و برباد ہوچکا ہے، غزہ ملبوں تلے دبا ہوا ہے، وہیں اسرائیل کو بھی تاریخ کا شدید ترین نقصان پہنچا ہے۔ جانی، مالی، اقتصادی ؛ حتی کہ نفسیاتی نقصانات پہنچے ہیں۔ غزہ میں ان کے ساتھ جو ہوا ہے اور تمام تر سفاکیت کے باوجود بھی اسرائیلی کو جو ناکامی حاصل ہوئی شاید ہی وہ دوبارہ غزہ پر زمینی کاروائی کے بارے میں سوچیں۔ اسرائیل کے بہت سے جانی و مالی نقصانات ابھی پردہ خفا میں ہیں، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ تمام چیزیں عیاں ہو جائیں گی، حقائق سامنے آجائیں گے۔

طوفان الاقصیٰ کا مقصد

7/ اکتوبر 2023ء کو حماس نے اسرائیل پر ایک منظم حملہ کرکے 250/ اسرائیلیوں کو گرفتار کیا۔ حماس نے اپنے جاری کردہ کتابچہ "ھذہ روایتنا لماذا طوفان الاقصیٰ” میں اس کا مقصد یہ لکھا کہ صیہونی جارحیت، غزہ پر حصار، حقوق انسانی کے خلاف ورزی کے رد عمل کے طور پر اسرائیل پر حملہ کرکے اسرائیلیوں کو قیدی بنایا گیا ہے تاکہ اس کے بدلے صہیونی جیلوں میں قید اپنے قیدیوں کو رہا کرایا جاسکے۔ تقریبا یہی بات حماس کے مرکزی قائدین اسمعیل ہنیہ، صالح العروری، ڈاکٹر خلیل الحیہ وغیرہ نے بھی اپنے بیانات میں کہی ہے؛ لیکن تفصیل سے بچتے ہوئے ہم قلم انداز کرتے ہیں۔

اسرائیل کے اہداف

7/ اکتوبر کے حملے کے بعد اسرائیلی فوج نے پہلے تو فضائیہ سے غزہ پر اندھا دھند بمباری کی، پھر 27/ اکتوبر کو بلند و بالا دعوے کے ساتھ غزہ میں زمینی کارروائی کا آغاز کیا۔ اسرائیلی فوج نے غزہ میں زمینی کاروائی کے درج ذیل اہداف متعین کئے :

اسرائیلی فوج نے مذکورہ بالا اہداف متعین کئے تھے، کیا اسرائیل اس کو حاصل کرنے میں کامیاب رہا ہے ؟ کیا اسرائیلی فوج آج بھی اپنے اسی بیانیے پر قائم ہے ؟ کیا اسرائیلی فوج نے اس میں کوئی ہدف حاصل کیا ہے ؟ کیا اسرائیلی فوج آئندہ ان اہداف کو حاصل کرسکتی ہیں۔ سطور ذیل میں ہم اس پر روشنی ڈالتے ہیں۔

پہلی ناکامی

اسرائیلی فوج غزہ میں بلند و بالا دعوے کے ساتھ داخل ہوئی تھی اور یہ بیانیہ اختیار کیا تھا کہ ہم قیدیوں کو فوجی طاقت کے ذریعہ رہا کرائیں گے، حماس سے کوئی معاہدہ نہیں کریں گے، لیکن غزہ میں اسرائیلی فوج کو زبردست ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا، وہ اسرائیل جو حماس کو دہشت گرد قرار دے رہا تھا اور جس کا ہدف قیدیوں کو فوجی طاقت کے ذریعہ رہا کرانا تھا، بالآخر حماس کے ساتھ مذاکرات کی میز پر شریک ہوتا ہے۔ اور 24/ نومبر 2023ء کو حماس اور اسرائیل کے درمیان عارضی جنگ بندی کا معاہدہ ہوتا ہے اور فوجی طاقت کے ذریعہ رہا کرانے کا دعویٰ کرنے والی اسرائیلی فوج کو فلسطینی یرغمالیوں اور عارضی جنگ بندی کے عوض قیدیوں کو رہا کرانا پڑتا ہے۔ یہ اسرائیل کی پہلی ناکامی تھی اور اسرائیل اپنے اس بیانیہ سے خود پیچھے ہٹ گئی جو زمینی کارروائی شروع کرتے وقت متعین کی تھی۔

دوسری ناکامی

اسرائیلی فوج نے اس بات کو تسلیم کرلیا تھا کہ فوجی طاقت کے ذریعہ تمام قیدیوں کی زندہ واپسی ناممکن ہے، اور اسرائیلی فوج نے اس پوری جنگ میں صرف آٹھ نو قیدیوں کو زندہ واپس لانے میں کامیاب ہوئی تھی؛ جب کہ تیس سے زائد قیدی اسرائیلی کوششوں کے درمیان مارے گئے تھے۔ اس کے بعد اسرائیلی فوج نے یہ بیانیہ اختیار کیا کہ "مزاحمت پر فوجی دباؤ ڈالا جائے” اس کا مطلب یہ ہے کہ غزہ میں اتنی بمباری اور اتنی سفاکیت کا مظاہرہ کیا جائے کہ مزاحمت خود بخود قیدیوں کو اسرائیلی شرائط پر رہا کرنے کے لیے تیار ہو جائے، اسمعیل ھنیہ کے خاندان کو نشانہ بنانا، رفح،نصیرات، مواصی اور آخری دنوں میں التابعین اسکول پر خطرناک بمباری، اسی طرح اسمعیل ھنیہ کو شہید کرنا اسی پالیسی کا حصہ تھا اور یہی اسرائیل کا "فوجی دباؤ ” تھا۔ اسرائیلی فوج کی پہلی ناکامی یہ ہے کہ اس نے اپنے خود کے بیانیہ کو تبدیل کرلیا تھا دوسری ناکامی یہ ہے کہ جس فوجی دباؤ کی پالیسی اختیار کی تھی اس میں بری طرح ناکام رہی اور تمام تر جارحیت اور سفاکیت کے باوجود بھی فلسطینی عوام اور مزاحمت پر کوئی اثر نہیں پڑا تھا۔

تیسری ناکامی

اسرائیلی فوج کا ایک اہم ہدف مزاحمت کو ختم کرنا تھا، لیکن مزاحمت اپنی جگہ قائم و دائم ہے، ان کی صفوں کچھ خاص تبدیلی نہیں دیکھنے کو ملی۔ بلکہ اسرائیلی فوج نے اس بات کو تسلیم بھی کیا تھا کہ مزاحمت کو ختم کرنا بہت مشکل ہے، بلکہ اگر اسی طرح مسلسل 4/ سال تک جنگ جاری رہی تو مزاحمت تو ٹوٹ جائے گی، لیکن پھر بھی وہ مکمل طور پر ختم نہیں ہوگی اور تھوڑا سا وقت ملتے ہی وہ دوبارہ کھڑی ہو جائے گی۔ یہ اسرائیلی فوج کی بدترین ناکامی ہے کہ 15/ ماہ کی طویل ترین کاروائی کے بعد بھی مزاحمت کو ختم کرنا تو دور کی بات ہے مزاحمت کی صفوں میں کچھ خاص نقصان نہیں پہنچا سکی۔ امریکی وزیر خارجہ کے کل کے بیان میں یہ الفاظ مزاحمت کے تعلق سے بہت کچھ بیان کررہے ہیں کہ ” حماس کو صرف عسکری طاقت سے شکست نہیں دی جاسکتی ہے، ہمارے اندازے ہیں کہ حماس کی صفوں میں جس اعتبار سے نقصان ہوا ہے، اس سے زیادہ تیزی سے انہوں نے نئے فوجیوں کو بھرتی کیا ہے”

چوتھی ناکامی

اسرائیلی فوج کا ایک ہدف غزہ میں حماس کی مرکزی قیادت کا خاتمہ تھا؛ لیکن جنگ ختم ہونے والی ہے، اسرائیلی فوج حماس کے کسی مرکزی قائد کو ختم کرنے میں ناکام رہی؛ بلکہ اسرائیل فوج اور اسرائیلی انٹلیجنس کو غزہ میں حماس کے سربراہ یحییٰ السنوار اور کمانڈر ابو خالد محمد الضیف کے بارے میں کوئی معلومات تک نہیں ملی سکی تھی۔ بلاشبہ غزہ میں حماس کے مرکزی لیڈر یحییٰ السنوار شہداء کے قافلے میں شامل ہوچکے ہیں؛ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس میں اسرائیل اور ان کے انٹلیجنس کی کوئی کامیابی نہیں ہے؛ بلکہ یحییٰ السنوار نے خود میدان کی اولین صفوں میں آخری لمحے تک مزاحمت کرتے ہوئے اپنی شہادت کا نذرانہ پیش کیا۔ زمینی جنگ کے دوسرے مرحلے میں اسرائیلی فوج نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ یحیٰی السنوار قسام کے سب اہم مجاہدین کے ساتھ خاں یونس کی سرنگوں میں موجود ہیں؛ لیکن خان یونس کا چپہ چپہ چھاننے کے باوجود بھی اسرائیلی فوج کو یحییٰ السنوار کا کوئی سراغ نہیں ملا۔ اسرائیلی بے بس و لاچار فوج جب غزہ میں حماس کی مرکزی قیادت کو نشانہ بنانے میں ناکام رہی تو اس نے بیروت میں پولٹیکل بیرو کے نائب صالح العروری اور تہران میں پولٹیکل بیرو کے سربراہ اسمعیل ھنیہ کو نشانہ بنایا؛ حالاں کہ اسرائیلی فوج کا ہدف حماس کی اندرونی قیادت کو نشانہ بنانا تھا۔ یہ اسرائیلی فوج کی بدترین ناکامی ہے کہ 15/ ماہ کی کاروائی کے باوجود بھی اسرائیلی فوج غزہ میں حماس کی مرکزی قیادت کو ختم کرنے میں ناکام رہی ہے۔

پانچویں ناکامی

اسرائیلی فوج نے یہ ہدف متعین کیا تھا کہ وہ غزہ کو اسرائیلی فوجی چھاونی بنائیں گے؛ لیکن اسرائیلی فوج کی ناکامی کے بعد اسرائیل کو اپنے اس ہدف سے پیچھے ہٹنا پڑا۔ تو اسرائیلی فوج غزہ کو فوجی چھاونی بنانے کے بجائے صرف (مصر کو غزہ سے جوڑنے والی شاہراہ) فلادلفیا پر اپنی فوج باقی رکھنا چاھتی تھی۔ لیکن حالیہ معاہدہ میں اسرائیل کو اپنے اس بیانیہ سے پیچھے ہٹنا پڑا۔ اب جنگ بندی کے تینوں مراحل کے بعد اسرائیلی فوج کا غزہ سے مکمل انخلاء ہو جائے گا۔

کیا اسرائیلی حالیہ معاہدہ میں اپنے سابقہ بیانیہ میں قائم رہا ہے؟

حماس اور اسرائیل کے درمیان جو حالیہ معاہدہ ہوا ہے۔ اس کا مطالعہ کرنے، اس کی شرائط کو دیکھنے کے بعد یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ معاہدہ حماس کی شرائط کے بالکل مطابق ہے، حماس نے شروع سے یہ شرائط پیش کی تھی۔ حماس نے جنگ بندی کے تمام مذاکرات میں دائمی جنگ بندی اور غزہ سے اسرائیلی فوجیوں کے مکمل انخلاء کے بغیر کوئی معاہدہ نہ کرنے کا کہا تھا۔ حالیہ معاہدہ میں حماس کی تمام تر شرائط کو منظور کیا گیا ہے۔ جب کہ اسرائیل جن شرائط پر صلح کرنا چاھتا تھا، اسرائیل کو عارضی جنگ بندی پر اصرار تھا، اسرائیل غزہ سے نکلنے پر راضی نہیں تھا؛ بلکہ اسرائیل تو فوجی طاقت کے ذریعہ قیدیوں کو رہا کرانا چاھتا تھا تاکہ فلسطینی قیدیوں کو رہا نہ کیا جاسکے؛ لیکن اسرائیل کو اپنے تمام تر بیانیہ میں تبدیلی لاکر حماس کی شرائط کے مطابق صلح کرنی پڑی۔

حماس اپنے مقصد یعنی اسرائیلی جیلوں میں قید ہزاروں فلسطینیوں کو رہا کرانے میں کامیاب ہو جائے گا۔ یہ دوسرا موقع ہے کہ جب حماس اور اسرائیل کے درمیان معاہدے کے تحت قیدیوں کو تبادلہ ہوگا، اس سے قبل 2011ء میں ایک قیدی کو پانچ سال کے طویل ترین عرصہ بعد اسرائیل نے ایک ہزار سے زائد قیدیوں کے بدلے رہا کیا تھا۔ حماس کے پاس چار قیدی پہلے ہی سے موجود تھی، جن میں سے ایک دو تو 2014ء سے حماس کی حراست میں ہیں؛ لیکن اسرائیل نے ہمیشہ سے کوئی معاہدہ کے ذریعہ تبادلہ کے تحت رہا کرانے سے انکار کیا۔ طوفان الاقصیٰ میں بڑی تعداد میں قیدی بنانے کا بھی یہی مقصد تھا کہ اسرائیل قیدیوں کے تبادلہ پر مجبور ہوجائے۔

یہ جنگ بندی حماس ؛ بلکہ عالم اسلام کی فتح عظیم ہے۔ ایک طرف مسلمانوں کی ایک چھوٹی سی جماعت جو 17/ سالوں سے محاصرہ میں تھی، جن کو پوری دنیا سے الگ تھلگ اوپن جیل میں رکھا گیا تھا دوسری طرف الکفر الملۃ الواحدہ کے تحت دنیا کے تمام جابر و ظالم جدید ترین ہتھیارات اور وسائل کے ساتھ اسرائیل کے زمانہ بشانہ کھڑے تھے؛ لیکن اس کے باوجود بھی اسرائیل کو ہتھیار ڈالنا پڑا اور حماس کی شرائط کے مطابق صلح کرنی پڑی۔ بلاشبہ یہ اسلام کی صہیونیت پر فتح ہے، یہ حق کی باطل پر فتح ہے۔ یہ اسلام کی فتح ہے۔

Exit mobile version