Site icon

مولانا سید جعفر مسعود حسنی ندوی کا انتقال ملت اسلامیہ کا عظیم حادثہ: جنرل سکریٹری بورڈ

مولانا سید جعفر مسعود حسنی ندوی کا انتقال ملت اسلامیہ کا عظیم حادثہ: جنرل سکریٹری بورڈ

نئی دہلی: 17؍جنوری 2025

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا محمد فضل الرحیم مجددی صاحب نے اپنے تعزیتی بیان میں کہا کہ مولانا سید جعفر مسعود حسنی ندوی صاحب رحمۃاللہ علیہ ناظر عام ندوۃ العلماء لکھنؤ کی اچانک وفات کے حادثہ نے ملت اسلامیہ بالخصوص ندوی برادری کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا، مولانا سید جعفر مسعود حسنی ندوی مرحوم مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی رحمۃاللہ علیہ کے خانوادے کے فرد فرید تھے، آپ کی ولادت 13/ ستمبر 1965 کو تکیہ رائے بریلی، اترپردیش میں ہوئی، آپ کے والد ماجد ملک کے مایہ ناز مربی عربی زبان وادب کے مشہور ومعروف ادیب وصاحب قلم حضرۃ الاستاد مولانا سید محمد واضح رشید حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ تھے جو حضرت مولانا علی میاں ندوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے حقیقی بھانجے تھے ۔
جنرل سکریٹری بورڈ نے آگے کہا کہ مولانا سید جعفر مسعود حسنی ندوی رحمہ اللہ نے حفظ قرآن اور ابتدائی تعلیم اپنے وطن رائے بریلی میں حاصل کی اس کے بعد دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں داخلہ لیا اور علوم شرعیہ کے ساتھ عربی زبان وادب میں بھی مہارت پیدا کی، ندوۃ العلماء لکھنؤ سے 1981 میں عالمیت اور 1983 میں فضیلت کی سند حاصل کی، اس کے بعد 1986 میں لکھنؤ یونیورسٹی سے عربی زبان وادب میں ایم اے کیا بعد ازاں 1990 میں سعودی عرب کی مشہور دانش گاہ "جامعة الملك سعود” کے زیر اہتمام ٹیچرز ٹریننگ کا کورس مکمل کیا۔
آپ نے اپنی عملی زندگی کا آغاز درس وتدریس سے کیا ، آپ لکھنؤ میں واقع دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کی معروف شاخ مدرسہ عالیہ عرفانیہ میں طویل مدت تک تدریسی فرائض انجام دئیے۔ آپ کا اصل موضوع تفسیر وحدیث اور فکر اسلامی تھا ، اب تک بے شمار ادبی ، فکری وتاریخی مقالات ومضامین لکھ چکے تھے اور ندوۃ العلماء لکھنؤ سے نکلنے والے پندرہ روزہ عربی جریدہ ” الرائد ” کے 2019 سے مدیر اعلی ( رئیس التحریر ) تھے ، آپ کو عربی زبان وبیان پر بڑی قدرت حاصل تھی ، عربی زبان میں معیاری مضمون نگاری کے ساتھ کئی کتابوں کا اردو سے عربی میں ترجمہ بھی کیا تھا ۔
آپ کی تصنیفات میں خاص طور پر 1۔في مسيرة الحياة ( حضرت مولانا علی میاں ندوی کی خودنوشت "کاروان زندگی” کا عربی ترجمہ) 2۔الشيخ محمد يوسف الكاندهلوي ؛ حياته ومنهجه في الدعوة (محمد الحسنی الندوی کی اردو کتاب کا عربی ترجمہ ) 3۔الامام المحدث محمد زكريا الكاندهلوي ومآثره العلمية( حضرت مولانا علی میاں ندوی کی اردو کتاب کا عربی ترجمہ )4۔ دعوۃ للتأمل والتفکیر (دعوت فکر ونظر ) 5۔بصائر (حضرت مولانا علی میاں ندوی رحمہ اللہ علیہ کی عربی کتاب کا اردو ترجمہ)
آپ کی طرز زندگی بہت سادہ ، قلم توانا ، طرز نگارش صاف، شستہ اور شگفتہ تھی۔مرشد امت حضرۃ الاستاد مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ کے وصال کے بعد ندوۃ العلماء کی مجلس انتظامیہ نے آپ کو اتفاق رائے سے ندوۃ العلماء کا ناظر عام منتخب کیا اور تادم حیات آپ نے پوری تندہی کے ساتھ ادارہ کی ترقی کی فکر کرتے رہے ۔
جنرل سکریٹری بورڈ مولانا محمد فضل الرحیم مجددی صاحب نے اپنے تعزیتی بیان میں یہ بھی کہا کہ مرحوم بڑی خوبیوں کے مالک، انتہائی سادگی کے پیکر اور شرافت ونجابت اور خاندانی روایات کے امین تھے۔ ابھی گزشتہ نومبر کی 15/16/ تاریخ کو جامعۃ الھدایت جے پور میں منعقد ہونے والے رابطہ ادب اسلامی کے سمینار میں بنفس نفیس شرکت کی اس موقع پر ان سے مختلف نشستوں میں مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال کا موقع ملا ،آج بھی انکی جدائی پر یقین نہیں ہوتا مگر مشیت الٰہی کے فیصلہ پر سر تسلیم خم کرنا ہی ہے،اللہ سبحانہ وتعالیٰ مولانا مرحوم کی مغفرت فرمائے اور درجات بلند کرےاور اس ملت اور خاص طور پر مادرعلمی کے لئے ان کا بدل عطا فرمائے۔ آمین

Exit mobile version