Site icon

غیر مسلم صحافیوں کی خدمات : فرقہ پرستوں کے بھرم کو توڑنے کی ایک لاجواب کوشش

غیر مسلم صحافیوں کی خدمات : فرقہ پرستوں کے بھرم کو توڑنے کی ایک لاجواب کوشش

از:- شکیل رشید ایڈیٹر ممبئ اردو نیوز

انگریزی زبان کا ایک لفظ ہے Myth جس کے کئی معنوں میں ایک معنی بھرم بھی ہے ۔ بھرم لفظ کے معنی ہیں کسی جھوٹ کو سچ مان لینا ، بلکہ ایسا سچ مان لینا کہ جھوٹ ، جو سچ مانا گیا ہے ، ہمیشہ کے لیے مٹ جائے ۔ ایسا ہی ایک بھرم یہ کہنا یا ماننا ہے کہ ’ اردو مسلمانوں کی زبان ہے ہندوؤں کی نہیں ۔‘ معروف صحافی سہیل انجم نے اپنی تازہ ترین کتاب ’ اردو صحافت کے فروغ میں غیر مسلم صحافیوں کی خدمات ‘ کے ذریعے اس متھ یا بھرم کو توڑنے یا مٹانے کی قابل قدر کوشش کی ہے ۔ میں سہیل انجم کی کئی کتابوں پر تبصرہ کر چکا ہوں ، اور اُن کی کتابوں کو پڑھ کر میری یہ رائے بنی ہے کہ وہ اردو صحافت کے ایک مورخ ہیں ۔ اس کتاب نے میری رائے کو مزید پختہ کیا ہے ۔ لوگ خوب جانتے ہیں کہ آج ملک پر ، ایسے عناصر قابض ہیں ، جو مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان نفرت کی ایک ایسی دیوار کھڑی کرنا چاہتے ہیں ، جسے کبھی گرایا نہ جا سکے ، اور دونوں ہی قوموں کے درمیان اتحاد اور یکجہتی کی ، بھائی چارے اور دوستی کی مشترکہ بنیادیں ہمیشہ کے لیے تباہ و برباد ہو جائیں ۔ اردو زبان ان مشترکہ بنیادوں میں سے ایک ہے ۔ اب اردو کو صرف مسلمانوں کی زبان کا درجہ دے دیا گیا ہے ، اور ہندی بلکہ سنسکرت آمیز ہندی ہندوؤں کی زبان قرار پائی ہے ۔ ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ فرقہ پرست عناصر کو – جو دونوں ہی جانب موجود ہیں – اپنی اپنی قوم کے کچھ ناسمجھوں کی حرکتوں سے اِس دراڑ کو ، جِسے بہت سے لوگ پاٹنے کی کوشش اب بھی کر رہے ہیں ، وسیع کرنے کا اور اُردو زبان کو مسلمانوں کی زبان قرار دینے کا موقع ملا ہے ، نتیجتاً زبان کو بہت نقصان پہنچا اور رہی سہی کَسر آج کے حکمراں پوری کر رہے ہیں ۔ لیکن اُردو کو صرف مسلمانوں کی زبان قرار دینا اور ہندوؤں کو اس زبان سے خارج کر دینا ایک متھ ایک بھرم ہے ، جسے اس کتاب کے توسط سے رد کیا جا سکتا ہے۔

کتاب میں 55 غیر مسلم صحافیوں کا تذکرہ ہے ، جن میں اخبار ’ جامِ جہاں نما ‘ کے دو صحافیوں ہری ہردت اور سدا سکھ لعل کے نام بھی شامل ہیں ، بلکہ یہ نام سر فہرست ہیں اور سہیل انجم نے کتاب کا انتساب بھی انہی دو کے نام کیا ہے ۔ اس لیے کہ یہ دونوں ہندوستان کے اولین صحافی بھی ہیں اور اردو صحافت کے بنیاد گزار بھی ۔ صاحبِ کتاب اپنے ’ پیش لفظ ‘ میں لکھتے ہیں : ’’ اب تقریباً یہ بات تسلیم کر لی گئی ہے کہ ’ جامِ جہاں نما ‘ ہی اردو کا پہلا اخبار تھا … اردو کا دوسرا اخبار پندرہ سال بعد مولوی محمد باقر نے دہلی سے 1837 میں نکالا جس کا نام ’ دہلی اردو اخبار ‘ تھا ۔ اس دوران اردو کے کئی اخبار نکلے ۔‘‘ یاد رہے ’ جامِ جہاں نما ‘ کے ایڈیٹر سدا سکھ لعل اور اس کے مالک ہری ہر دت تھے ، جو خود ایک صحافی تھے ۔ سہیل انجم مزید لکھتے ہیں : ’’ 1822 سے لے کر 1900 تک بے شمار غیر مسلموں نے اردو اخبارات نکالے جِن میں سے کئی بے حد معیاری اور مقبول تھے ۔ متعدد ہندو صحافیوں نے بھی مسلم صحافیوں کے مانند جنگِ آزادی میں شرکت کی اور اپنے اخبارات کے توسط سے برٹش حکومت کے خلاف جنگ لڑی ۔ یہاں اس حقیقت کی یاددہانی ضروری ہے کہ اردو صحافت کی بنیاد غیر مسلموں نے رکھی اور انہوں نے مسلم صحافیوں کے ساتھ اس بنیاد پر شاندار محل کی تعمیر کی ۔ اگر یہ کہا جائے کہ اردو صحافت کے فروغ میں غیر مسلموں کی زبردست خدمات ہیں تو بیجا نہیں ہوگا ۔‘‘ ’ پیش لفظ ‘ میں اس بات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے کہ اس کتاب کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟ ’’ وائے افسوس کہ اس موضوع پر تادمِ تحریر کوئی باضابطہ اور کتابی کام نہیں کیا گیا ۔ کچھ مصنفوں اور قلم کاروں نے الگ الگ مضامین میں ان کی ( غیر مسلم صحافیوں کی ) خدمات کو سراہا اور خراجِ عقیدت پیش کیا ہے ، لیکن جتنے بھرپور انداز میں یہ کام ہونا چاہیے تھا ، نہیں ہوا … میری ایک عرصے سے اس موضوع پر کام کرنے کی خواہش رہی ہے ، اس کے لیے میں مواد اکٹھا کرتا رہا … ابتدا میں یہ خیال تھا کہ سوا سو یا ڈیڑھ سو صفحات پر مشتمل کتاب تیار ہو جائے گی ۔ لیکن جب میں نے کام شروع کیا تو وہ پھیلتا گیا ۔ حالانکہ میں اس کام سے مطمئن نہیں ہوں ۔ یہ ایک نامکمل اور ادھورا کام ہے ۔ اگر مزید تحقیق کی جائے اور غیر مسلم صحافیوں کی سوانح اور ان کے اخبارات کی تفصیلات پیش کی جائیں تو کم از کم ایک ہزار صفحات کی کتاب تیار ہو سکتی ہے ۔ میری خواہش ہے کہ میں اس نامکمل کام کو مکمل کروں ۔‘‘ اللہ اس خواہش کو پورا کروائے ، آمین ۔ کسی ادارے کو سامنے آکر اس اہم کام میں سہیل انجم کی مدد کرنا چاہیے۔

کتاب میں 55 غیر مسلم صحافیوں کے تذکرہ کے علاوہ مصنف کے 13 مضامین بھی شامل ہیں ۔ مضامین اور غیر مسلم صحافیوں کے تذکرہ پر بات ہوگی ، مگر اس سے پہلے علی گڑھ کے نوجوان محقق اسعد فیصل فاروقی کے ’ مقدمہ ‘ کا ذکر ہوجائے ۔ فاروقی نے ابتدا ہی میں یہ واضح کر دیا ہے کہ آج اردو زبان کو مسلمانوں کی زبان سمجھا جاتا ہے اور یہ بات ذہن میں بیٹھی ہوئی ہے کہ یہ زبان باہر سے آئی ہے ، لیکن سچ یہ ہے کہ زبان کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ، تمل ناڈو ، مغربی بنگال ، آسام ، کیرالہ وغیرہ کے مسلمانوں کی مادری زبان نہ ہندی ہے اور نہ اردو ، لیکن اردو تمام ہندوستان اور ہندوستانیوں کے درمیان ایک رابطہ کی زبان رہی ہے ۔ اور اردو کی مقبولیت میں اردو صحافت کا مثبت کردار رہا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں : ’’ یہاں یہ واضح کرتے چلیں کہ اردو صحافت کی یہ ترقی صرف مسلمانوں کی مرہون منت نہیں رہی بلکہ اس کی ترقی میں غیر مسلم صحافیوں کا بھی کلیدی کردار رہا ہے ۔‘‘ اپنی تحریر میں فاروقی نے اردو صحافت کی مختصر تاریخ اور اس پر کیے گیے متعدد تحقیقی کاموں کا ذکر کیا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ سہیل انجم کی کتاب اسی تحقیقی سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے ۔ وہ لکھتے ہیں : ’’ ایک ایسے وقت میں جب فرقہ پرستوں کی جانب سے ہندوستان میں اردو زبان کو بار بار تعصب کا شکار بنایا جاتا رہا ہے اور اس کو مسلمانوں کی زبان کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے سہیل انجم نے غیر مسلموں کی اردو صحافتی خدمات پر جو قلم اٹھایا ہے وہ قابلِ تحسین ہے اور اس موضوع پر ایک بڑا کام ہے ۔‘‘

سہیل انجم کے جو مضامین ہیں اُن میں سے ایک کا عنوان ہے ’ اردو صحافت کی دو سو سالہ تاریخ : ایک مختصر جائزہ ‘ ، اس میں مصنف نے کوزہ میں سمندر کے مصداق اردو صحافت کی پوری تاریخ چند صفحات میں سمو دی ہے ۔ دوسرا مضمون ’ اردو کا پہلا اخبار جامِ جہاں نما ‘ ہے ، اس میں اردو کے اس پہلے اخبار کی تاریخ تفصیل کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے ۔ سہیل انجم نے مختلف حوالوں سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ جامِ جہاں نما اردو کا پہلا اخبار ہے ، وہ لکھتے ہیں : ’’ اردو کے پہلے اخبار کا مسٗلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حل ہو گیا ہے ۔‘‘ تیسرا مضمون ’ اردو صحافت کی خصوصیات ‘ پر ، چوتھا مضمون ’ غیر مسلم صحافیوں کی کہکشاں ‘ اور پانچواں مضمون ’ اخبار سوراجیہ کی قربانیاں ‘ کے عنوان سے ہے ۔ یہ مضمون اخبار سوراجیہ کی جنگِ آزادی میں خدمات کو اجاگر کرتا ہے ۔ اس اخبار میں ’ بغاوت ‘ کی خبریں شائع ہوتی تھیں ، اس کے چار ایڈیٹروں کو قید و بند کی صعوبتوں سے گزرنا پڑا تھا ۔ یہ اخبار الہ آباد سے ، لوکمانیہ تلک کے آشیرواد سے نکلا تھا ۔ اس مضمون کے بعد 55 غیر مسلم صحافیوں کے تذکرے ہیں ، جِن میں کئی نام ہم سب کے لیے شناسا ہیں ، جیسے منشی نول کشور ، منشی دیا نرائن نگم ، لالہ لاجپت رائے ، سردار دیوان سنگھ مفتون ، فکر تونسوی ، کلدیپ نیر ، جی ڈی چندن ، گوپال متل ، موہن چراغی ، مخمور جالندھری ، سوم آنند ، بلراج مین را وغیرہ ۔ ایک نام پی پی مسیح کا ہے ، جو ان دنوں روزنامہ ’ تیج ‘ کے ایڈیٹر ہیں ۔ سہیل انجم نے ’ ہندو مذہب کے اخبارات ‘ ، ‘ سکھ مذہب کے اخبارات ‘ اور ’ عیسائی مشنریوں کے اخبارات ‘ کے عنوان سے ان کی تفصیلات دی ہیں ۔ ’ ہند سماچار کی کہانی ‘ ہے ، سنتوش بھاٹیہ پر ایک مضمون ہے ، اردو کے ایک امریکی مجاہد ڈاکٹر برائن کیو سلور پر ایک مضمون ہے ۔ ڈاکٹر برائن ’ وائس آف امریکہ ‘ کی اردو سروس کے سربراہ تھے ۔ ایک مضمون کا عنوان ’ اردو اخبارات کی ڈائرکٹریز ‘ ہے ، اور ایک مضمون ’ اردو صحافیوں کی خدمت میں ‘ کے عنوان سے ہے ، جِس میں وہ لکھتے ہیں : ’’ اردو صحافیوں کی جو آخری نسل ہے وہ تو اپنا کام کر چکی ہے ۔ دوسری نسل بھی اپنا کام مکمل کرنے کے راستے پر گامزن ہے ۔ البتہ جو تیسری نسل ہے اس کو ابھی اس راستے پر بہت دور تک جانا ہے ۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ صحافت کے رموز و نکات سے واقف ہو ۔ خبر سازی کیا ہوتی ہے ۔ جملے کیسے لکھے جاتے ہیں ۔۔۔‘‘ اس گزارش پر غور بلکہ عمل ضروری ہے ، تاکہ اردو صحافت کا وجود باقی رہے ۔ کتاب کے آخر میں ’ ماخذ ‘ اور مصنف کے سوانحی کوائف ہیں ۔ یہ ایک شاندار کتاب ہے ، اس کے لیے سہیل انجم مبار کباد کے مستحق ہیں ، اور ’ نعمانی کئیر فاؤنڈیشن ، لکھنئو ‘ بھی جس نے بڑی خوب صورتی سے یہ کتاب شائع کی ہے ۔ کتاب 368 صفحات پر مشتمل ہے ، قیمت 500 روپیے ہے ۔ اسے حاصل کرنے کے لیے 9818195929 پر رابطہ کیا جا سکتا ہے ۔

Exit mobile version