Site icon

کلمئہ استرجاع تسکین قلب کا بہترین ذریعہ !

کلمئہ استرجاع تسکین قلب کا بہترین ذریعہ !

از:- محمد قمر الزماں ندوی

مدرسہ نور الاسلام موئی کلاں کنڈہ پرتاپگڑھ

مصیبت نام ہے اہل وفا کی آزمائش کا
اسی میں آدمی کے حوصلے معلوم ہوتے ہیں

صابرین کی طرف نسبت کرکے قرآن مجید میں یہ فرمایا گیا ہے کہ وہ مصیبت ،رنج اور تکلیف کے وقت "انا للّٰہ وانا الیہ راجعون” کہا کرتے ہیں، بے شک ہم اللہ ہی کے لئے ہیں اور بے شک ہم اسی کی طرف واپس ہونے والے ہیں، (خواہ آج خواہ چند روز بعد)،حقیقت میں اس کی تعلیم و تلقین سے مقصود یہ ہے کہ مصیبت والوں کو ایسا کہنا چاہیے ،کیونکہ ایسا کہنے میں اجر و ثواب بھی بڑا ہے ،اور اگر دل سے معنی و مفہوم کو سمجھ کر یہ الفاظ ادا کئے جائیں تو رنج و الم اور غم و تکلیف کے دور کرنے اور قلب کو تسلی دینے کے معاملہ میں بھی یہ دعا اور یہ کلمہ اکسیر کا حکم رکھتے ہیں ۔
مفسر قرآن مولانا عبد الماجد دریابادی رح اپنی تفسیر ماجدی میں اس آیت کے ضمن میں بہت چشم کشا بات لکھتے ہیں ، فرماتے ہیں ،:

” اس آیت کے اندر تعلیم تین چیزوں کی ملی ہے ۔ایک یہ کہ ہم سب عبد محض ہیں اور تمام تر اسی کی ملک۔ خود ہم بھی ہماری ہر چیز بھی ،اپنی کوئی شئی بھی نہیں ، نہ بیوی نہ بچے ،نہ مال نہ جائداد ،نہ وطن نہ خاندان ،نہ جسم نہ جان،

جو کچھ ہے سب خدا کا ،وہم و گماں ہمارا۔
(اکبر الہ ابادی)
انسان کے سارے رنج و غم درد و حسرت کی بنیاد صرف اس قدر ہوتی ہے کہ وہ اپنی محبوب چیزوں کو اپنی سمجھتا ہے ۔لیکن جب ذہن اس عام مغالطہ سے خالی ہوگیا اور کوئی سی بھی شئی ہو سرے سے اپنی رہی ہی نہیں تو اب گلہ و شکوہ رنج و ملال کا موقع ہی کیا ؟
دوسری بات یہ کہ بڑے سے بڑے رنج اور صدمے اور دل کے داغ بھی عارضی اور فانی ہیں ،رہ جانے والے کوئی بھی نہیں ۔عنقریب انہیں چھوڑ چھاڑ مالک کی خدمت میں حاضری دینا ہے۔

تیسرے یہ کہ وہاں پہنچتے ہی سارے قرضے بے باق ہو جائیں گے ۔ہر کھوئی ہوئی چیز وصول ہو کر رہے گی ۔یہ تینوں عقیدے جس کے جتنے مضبوط ہوں گے اسی قدر اس کے دل کو دنیا میں امن و سکون حاصل رہے گا ۔ غم و حزن کے بار کو ہلکا کر نے کا جو عارفانہ اور تیر بہدف نسخہ یہاں بتا دیا گیا ہے ، یہ صحائف کائنات میں بے نظیر ہے ۔بلکہ حق یہ ہے کہ قرآن مجید میں اگر صرف یہی ایک آیت ہوتی تو یہی اسے حکیم مطلق کا کلام ثابت کرنے کے لئے واللہ کافی تھی۔

صبر ایک کیفیت نفسی کا نام ہے اور اصلا اس کا تعلق قلب سے ہے ۔زبان سے کلمئہ صبر دہرانے کا حکم اسی کیفیت کو قوی اور موکد بنانے کے لیے ہے ۔ محققین کہتے ہیں کہ آیت میں جو حکم ہے اس کے تین مرتبے ہیں۔

راجعون سے یہ مراد نہیں ہے کہ انسان ابھی کہیں اور ہے اور بھی کسی ایسے مقام یا جہت میں آجائے گا جہاں خدا ہے ۔خدا کے پاس تو وہ اب بھی ہے ۔مراد یہ ہے کہ عالم آخرت میں جس طرح اللہ کی ملکیت و ربوبیت اور سارے ظاہری اسباب کے ٹوٹ جانے سے بالکل واضح و نمایاں ہو جائے گی ۔ اسی طرح یہ خدا ہی کی طرف رجوع بالکل آشکار ہوکر رہ جائے گا ۔درمیانی واسطے سب غالب ہوکر رہیں گے ، مرشد تھانوی رح نے فرمایا کہ یہ کلمئہ استرجاع تمام مصیبتوں کا علاج ہے اور انہیں میں قبض بھی داخل ہے جو سالکوں کو پیش آتا ہے "..(تفسیر ماجدی جلد اول)
آیت کریمہ کی کیا ہی چشم کشا تفسیر کی ہے، حضرت مفسر دریا بادی رح نے

بس ضرورت ہے کہ ہم اسی کیفت، یقین اور اعتماد کے ساتھ اس کلمئہ استرجاع کو مصیبت و تکلیف اور رنج و غم کے وقت زبان و دل سے ادا کریں ہماری ساری پریشانیاں، تکلیفیں اور مصیبتیں کافور ہو جائیں گی ۔
یاد رہے کہ مصبیت اور تکلیف پر صبر سے انسان کے اندر قوت ،روحانیت اور نورانیت پیدا ہوتی ہے ، صبر اور ہر وقت صبر بڑے اونچے مقامات تک پہنچا دیتا ہے ،صبر ہی بلندی کا ذریعہ ہے ، ایک بندہ مصیبت کو اپنی ظاہر بین نگاہ میں ناگوار سمجھتا ہے ۔مگر اس مصیبت اور تکلیف کے پردہ میں خدائی انعام چھپا رہتا ہے اور وہ اس سے بے خبر رہتا ہے ،اگر اس سے باخبر ہو جائے تو اسی طرح حوصلہ و ہمت کے ساتھ گوارا کرلے جس طرح ماں کے مٹھائی کے وعدہ پر بچہ مدرسہ اور اسکول جانے کی زحمت اور مصیبت گوارا کرتا ہے ۔اس وقت مصیبت اس کے لئے باعث زحمت نہیں بلکہ موجب رحمت ہوگی ۔مصیبت کی لذت کو کسی بھی مسرت کی راحت سے وہ کم محسوس نہیں کرے گا ۔شاعر کہتا ہے۔

ہر اک مصیبت کہ تہہ میں رہتی ہے راحت بھی
شب تاریک کے دامن سے ہوتی ہے سحر پیدا

اس لئے کبھی بھی کسی تکلیف ،پریشانی اور مصیبت کو پراگندہ ذہنی اور انتشار فکری کا باعث نہیں ہونے دینا چاہیے ، ورنہ پھر اس سے روح کا سکون اور دل کا چین لٹ جاتا ہے۔

انسان کو حوصلہ و ہمت کے ساتھ صبر کرنا چاہیے ،زبان پر شکوہ کے کلمات نہیں لانے چاہیں۔

رضا بالقضاء اگر انسان اپنا مسلک اور شیوہ بنا لے، تو یہ مصبیت اور تکلیف اللہ کی ملاقات کا ذریعہ بن جاتی ہے اور ایسی صورت میں مصیبت، مصبیت نہیں اور تکلیف ،تکلیف نہیں بلکہ نعمت بن جاتی ہے۔

ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے ایک بندے کے لیے قرب و ترقی کا ایک خاص مقام متعین فرما دیتے ہیں ،مگر وہ بندہ عبادت و ریاضت کے ذریعہ اس مقام تک نہیں پہنچ پاتا ہے تو چونکہ اللہ تعالیٰ اس مقام رفیع پر اس بندے کو فائز کرنا چاہتے ہیں ،اس لئے کسی مصیبت میں مبتلا فرما دیتے ہیں ،پھر جب بندہ اس پر صبر کرتا ہے تو اس کے اجر کے سہارے اس مخصوص اور قابل رشک بلند و بالا مقام تک پہنچا دیا جاتا ہے ۔ (مستفاد از کتاب، باتیں ان کی یاد رہیں گی)
اس لئے کسی تکلیف ،پریشانی اور مصیبت کو بار آور بوجھ نہیں سمجھنا چاہیے ،واویلا نہیں کرنا چاہیے بہت ممکن ہے کے صبر کے بعد یہ مصیبت ہمارے اور آپ کے لیے کسی نعمت کے حصول کا ذریعہ بن جائے ۔ صفی اورنگ آبادی فرماتے ہیں ۔۔۔۔

مصیبت نام ہے اہل وفا کی آزمائش کا
اسی میں آدمی کے حوصلے معلوم ہوتے ہیں

Exit mobile version