قرآن مجید کا پیغام امت مسلمہ کے نام
از:- ڈاکٹر سلیم انصاری
قرآن مجید اللہ کی وہ عظیم کتاب ہے جو پوری انسانیت کے لیے ہدایت اور روشنی کا سرچشمہ ہے۔ یہ کوئی عام کتاب نہیں، بلکہ زندگی گزارنے کا ایک مکمل دستور ہے جو انسان کو صحیح اور غلط میں تمیز سکھاتا ہے۔ اللہ نے ہر قوم اور ہر نسل کے لیے اس میں رہنمائی رکھی ہے، لیکن امت مسلمہ کو خاص طور پر اس کی تعلیمات پر عمل کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ کیونکہ یہ وہ امت ہے جسے "خیر امت” کا درجہ دیا گیا ہے، جو بھلائی کی طرف بلانے اور برائی سے روکنے کی ذمہ داری رکھتی ہے۔
مگر افسوس کہ آج امت مسلمہ شدید بحران کا شکار ہے۔ فرقہ واریت نے ہمیں تقسیم کر دیا ہے، آپسی انتشار نے ہماری طاقت کو کمزور کر دیا ہے، اور اخلاقی زوال نے ہمارے کردار کو داغدار کر دیا ہے۔ دنیاوی لالچ اور مادہ پرستی نے ہمیں دین سے دور کر دیا ہے، جس کی وجہ سے مسلمان ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہو چکے ہیں۔ جس امت کو ایک جسم کی مانند ہونا تھا، وہ گروہوں میں بٹ چکی ہے۔ دشمنوں نے ہماری کمزوریوں کو بھانپ کر ہمیں مزید تقسیم کرنے کی کوشش کی، اور ہم نے اپنی غفلت سے انہیں کامیاب ہونے دیا۔
ایسے حالات میں امت مسلمہ کے لیے واحد راستہ قرآن مجید کی طرف رجوع کرنا ہے۔ یہ وہ کتاب ہے جو ہمیں اتحاد، محبت، اخوت، اور عدل و انصاف کا سبق دیتی ہے۔ یہ دلوں کی سختی کو نرم کرتی ہے، اختلافات کو مٹاتی ہے، اور زندگی کو ایک صحیح سمت عطا کرتی ہے۔ جب تک ہم قرآن کو اپنی زندگیوں میں نافذ نہیں کریں گے، تب تک نہ ہمارے مسائل حل ہوں گے اور نہ ہی ہم دنیا میں عزت حاصل کر سکیں گے۔ وقت آ چکا ہے کہ ہم خود کو قرآن کی تعلیمات کے مطابق ڈھالیں اور ایک بار پھر وہی عظمت حاصل کریں جو ہمارے اسلاف کو حاصل تھی۔
توحید اور اطاعتِ الٰہی
قرآن مجید کا سب سے بنیادی اور اہم پیغام توحید ہے۔ توحید کا مطلب صرف زبان سے اللہ کو ایک ماننا نہیں، بلکہ دل سے اس پر ایمان لانا اور عملی زندگی میں اس کے احکامات کی مکمل پیروی کرنا ہے۔ دنیا اور آخرت کی کامیابی کا راز اسی میں پوشیدہ ہے کہ انسان صرف اللہ کی بندگی کرے اور اس کے سوا کسی اور کے سامنے نہ جھکے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں واضح فرمایا ہے کہ پوری امت مسلمہ ایک ہی امت ہے، اور اس کا رب صرف اللہ ہے، لہٰذا اسی کی عبادت کی جائے۔ یہ پیغام ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہمارا اصل مقصد اللہ کی رضا حاصل کرنا ہے، نہ کہ دنیاوی مفادات کے پیچھے بھاگنا۔
لیکن آج امت مسلمہ کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے اللہ کی اطاعت سے منہ موڑ لیا ہے۔ ہم زبان سے تو اللہ کو اپنا رب کہتے ہیں، مگر ہماری زندگیوں میں دنیاوی خواہشات، طاقت، شہرت، اور مال و دولت کی محبت غالب آ چکی ہے۔ ہم ان چیزوں کے پیچھے ایسے بھاگ رہے ہیں جیسے یہی ہماری اصل منزل ہو۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے دلوں سے سکون ختم ہو گیا، امت اندرونی اختلافات اور فرقہ واریت میں بٹ گئی، اور ہم اجتماعی طور پر کمزور ہو گئے۔ قرآن ہمیں بار بار یاد دلاتا ہے کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری حالت بدلے تو ہمیں اللہ کی طرف رجوع کرنا ہوگا اور اپنی زندگی کو اس کے احکامات کے مطابق ڈھالنا ہوگا۔
اللہ کی طرف رجوع کرنے کا مطلب صرف عبادات تک محدود نہیں، بلکہ زندگی کے ہر پہلو میں اللہ کی مرضی کو مقدم رکھنا ہے۔ ہمارا طرزِ زندگی، اخلاق، لین دین، تعلقات، انصاف، سب کچھ اللہ کی ہدایت کے مطابق ہونا چاہیے۔ اگر ہم واقعی چاہتے ہیں کہ امت مسلمہ دوبارہ عزت، امن، اور ترقی کی راہ پر گامزن ہو، تو ہمیں اللہ کے دین کو اپنی اولین ترجیح بنانا ہوگا۔ جب ہم اپنی خواہشات کی جگہ اللہ کی مرضی کو رکھیں گے، تو اللہ خود ہماری مشکلات آسان کر دے گا اور ہمیں دنیا اور آخرت میں سرخرو کرے گا۔
اتحاد اور بھائی چارہ
آج امت مسلمہ رنگ، نسل، زبان اور فرقہ واریت کی بنیاد پر تقسیم ہو چکی ہے۔ اس تفرقے نے ہمیں کمزور کر دیا ہے اور دشمنوں کو ہم پر حاوی ہونے کا موقع دیا ہے۔ حالانکہ قرآن ہمیں اتحاد، بھائی چارے اور ایک دوسرے کے ساتھ محبت کا درس دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ نہ ڈالو۔ اس کا مطلب ہے کہ ہمارا اصل رشتہ اسلام اور قرآن کی بنیاد پر ہے، نہ کہ قومیت یا مسلک کی بنیاد پر۔ اگر ہم قرآن کی اس ہدایت پر عمل کریں تو ہم ایک بار پھر ایک مضبوط امت بن سکتے ہیں، جس کی جڑیں محبت اور اخوت میں پیوست ہوں۔
رسول اللہ ﷺ نے امت کو ایک جسم کی مانند قرار دیا، جس کا مطلب ہے کہ اگر ایک حصہ تکلیف میں ہو تو پورے جسم کو بے چینی محسوس ہونی چاہیے۔ مگر افسوس کہ آج ہم ایک دوسرے کے دکھ درد سے بے پرواہ ہو چکے ہیں۔ ہمیں دوبارہ قرآن اور حدیث کی تعلیمات کی طرف رجوع کرنا ہوگا اور آپس میں محبت، ہمدردی اور اتحاد کو فروغ دینا ہوگا۔ جب تک ہم ایک دوسرے کے لیے خیرخواہ نہیں بنیں گے، تب تک امت کی کمزوری ختم نہیں ہوگی۔ ہمیں اپنے ذاتی اور گروہی اختلافات کو چھوڑ کر ایک دوسرے کا سہارا بننا ہوگا، تب ہی امت مسلمہ ایک بار پھر عزت و عظمت کی راہ پر گامزن ہو سکتی ہے۔
عدل و انصاف کا قیام
آج دنیا میں ظلم و ناانصافی ہر طرف پھیل چکی ہے۔ طاقتور کے لیے قانون کچھ اور ہے، جبکہ کمزور انصاف کے لیے ترستا رہتا ہے۔ دولت اور اختیار رکھنے والے اپنی مرضی سے فیصلے کرواتے ہیں، جبکہ غریب کو اس کے حقوق سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ قرآن ہمیں عدل و انصاف کا حکم دیتا ہے اور یہ سکھاتا ہے کہ انصاف صرف دوسروں پر نہیں، بلکہ خود پر، اپنے خاندان پر، اور اپنی قوم پر بھی قائم کرنا ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ وہ عدل اور احسان کا حکم دیتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ انصاف صرف ضروری نہیں بلکہ اس میں بہتری اور بھلائی کا پہلو بھی ہونا چاہیے۔ اگر ہم اپنی زندگی میں انصاف کو اپنا لیں، تو ہمارا معاشرہ مضبوط، پُرامن اور خوشحال ہو سکتا ہے۔
عدل و انصاف کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی۔ جب کسی معاشرے میں انصاف کا فقدان ہو، تو وہاں ظلم، بدعنوانی، اور بدامنی پھیل جاتی ہے۔ آج مسلم دنیا کی پسماندگی کی بڑی وجہ بھی یہی ہے کہ ہم نے عدل کو پسِ پشت ڈال دیا ہے۔ سیاست میں انصاف ناپید ہے، کاروبار میں ایمانداری ختم ہو چکی ہے، اور عدالتیں انصاف کے بجائے طاقتور کے حق میں فیصلے دیتی ہیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ امت مسلمہ دوبارہ ترقی کی راہ پر گامزن ہو، تو ہمیں اپنے معاملات میں انصاف کو ترجیح دینی ہوگی، خواہ وہ ہمارے حق میں ہو یا خلاف۔ جب انصاف ہر سطح پر قائم ہوگا، تو ہماری معیشت، سیاست، اور سماج میں استحکام اور خوشحالی آئے گی۔
دیانت داری اور امانت داری
بددیانتی اور کرپشن امت مسلمہ کے زوال کی سب سے بڑی وجوہات میں سے ہیں۔ آج ہر شعبہ زندگی میں خیانت، دھوکہ دہی، اور کرپشن عام ہو چکی ہے۔ لوگ اپنا فائدہ دیکھ کر دوسروں کے حقوق پامال کر دیتے ہیں۔ قرآن ہمیں سختی سے منع کرتا ہے کہ ہم دوسروں کا مال ناحق نہ کھائیں اور نہ ہی کسی کے ساتھ دھوکہ کریں۔ دیانت داری ایک ایسا اصول ہے جو نہ صرف انفرادی زندگی کو بہتر بناتا ہے، بلکہ معاشرے کو بھی ترقی کی راہ پر گامزن کرتا ہے۔ اگر ہر شخص اپنی ذمہ داریوں کو ایمانداری سے نبھائے، تو دنیا کے تمام مسائل حل ہو سکتے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے دیانت داری کو ایمان کا حصہ قرار دیا اور فرمایا کہ جو شخص خیانت کرے گا، وہ جنت میں نہیں جائے گا۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ امت مسلمہ دوبارہ عزت اور عظمت حاصل کرے، تو ہمیں دیانت داری اور امانت داری کو اپنی زندگی کا لازمی اصول بنانا ہوگا۔ ہر مسلمان کو اپنی ذمہ داری ایمانداری سے ادا کرنی ہوگی، چاہے وہ حکمران ہو، تاجر ہو، یا عام مزدور۔ جب ایک معاشرہ دیانت پر قائم ہو جاتا ہے، تو وہاں ترقی، امن، اور خوشحالی خود بخود آ جاتی ہے۔ اس لیے اگر ہم حقیقی معنوں میں کامیاب ہونا چاہتے ہیں، تو ہمیں اپنی زندگی کو خیانت اور دھوکہ دہی سے پاک کرنا ہوگا۔
علم اور تعلیم کی اہمیت
امت مسلمہ کی زوال پذیری کی ایک بڑی وجہ علم سے دوری ہے۔ جب تک مسلمان علم و دانش میں سب سے آگے تھے، تب تک دنیا پر ان کی حکمرانی تھی۔ لیکن جیسے ہی انہوں نے تعلیم کو پس پشت ڈال دیا، ان کا وقار بھی کم ہوتا چلا گیا۔ قرآن کی پہلی وحی ہی "اقْرَأْ” (پڑھ) سے شروع ہوئی، جو اس بات کا واضح پیغام ہے کہ علم کے بغیر ترقی ممکن نہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتے ہیں کہ وہ اہلِ ایمان اور اہلِ علم کے درجات بلند کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ علم نہ صرف دنیا میں کامیابی کا ذریعہ ہے، بلکہ آخرت میں بھی سربلندی عطا کرتا ہے۔ آج اگر امت مسلمہ دوبارہ عزت اور عظمت حاصل کرنا چاہتی ہے، تو اسے جدید علوم اور سائنسی ترقی میں آگے بڑھنا ہوگا۔
تعلیم کو عام کرنا، نئی تحقیق میں حصہ لینا، اور سائنسی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنا امت کی بیداری کے لیے ضروری ہے۔ بدقسمتی سے، آج بہت سے مسلمان تعلیم کی اہمیت کو نظر انداز کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے وہ نہ صرف دنیا میں پیچھے رہ گئے ہیں بلکہ دین کو بھی صحیح طریقے سے سمجھنے سے قاصر ہیں۔ ہمیں دینی اور دنیاوی دونوں علوم کو اپنانا ہوگا، تاکہ ہم جدید دنیا کے چیلنجز کا سامنا کر سکیں اور امت مسلمہ کو ایک بار پھر ترقی کی راہ پر گامزن کر سکیں۔ ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ خود بھی علم حاصل کرے اور دوسروں کو بھی تعلیم کی طرف راغب کرے، کیونکہ ایک تعلیم یافتہ قوم ہی ترقی کی منازل طے کر سکتی ہے۔
دنیا اور آخرت کا توازن
زندگی کے بہت سے معاملات میں مسلمانوں نے اعتدال کی راہ چھوڑ دی ہے۔ کچھ لوگ دنیاوی کامیابیوں میں اتنے مگن ہو جاتے ہیں کہ دین کو بھول جاتے ہیں، جبکہ کچھ صرف دین پر اتنا زور دیتے ہیں کہ دنیا کے معاملات نظر انداز کر دیتے ہیں۔ قرآن ہمیں ایک متوازن زندگی گزارنے کا درس دیتا ہے، جہاں ہم اپنی آخرت کے لیے بھی محنت کریں اور دنیاوی ضروریات کو بھی نظرانداز نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جو کچھ اللہ نے تمہیں دیا ہے، اس سے آخرت کا گھر حاصل کرو اور دنیا میں بھی اپنا جائز حصہ نہ بھولو۔ اس آیت میں واضح پیغام ہے کہ ایک مسلمان کو ایسا طرزِ زندگی اپنانا چاہیے جو دین اور دنیا دونوں کے حقوق ادا کرے۔
یہ توازن حاصل کرنا امت مسلمہ کے لیے بے حد ضروری ہے۔ اگر ہم صرف دنیا کے پیچھے دوڑیں اور دین کو نظرانداز کریں، تو ہماری روحانی ترقی رک جائے گی اور ہم بے سکونی کا شکار ہو جائیں گے۔ اور اگر ہم صرف آخرت کی فکر کریں اور دنیا کے مسائل سے کٹ جائیں، تو امت کمزور ہو جائے گی اور ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جائے گی۔ ہمیں چاہیے کہ ہم عبادت، اخلاقیات، اور دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ جدید ٹیکنالوجی، سائنس، معیشت، اور دیگر شعبوں میں بھی مہارت حاصل کریں۔ جب ایک مسلمان دنیا اور آخرت کے درمیان توازن قائم کر لیتا ہے، تو وہ ایک مثالی زندگی گزار سکتا ہے اور امت کے لیے بھی فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔
نتیجے کے طور پر، یہ واضح ہوتا ہے کہ قرآن مجید امت مسلمہ کے لیے ہدایت اور کامیابی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ اللہ کی عبادت اور اطاعت، اتحاد اور بھائی چارہ، عدل و انصاف، دیانت داری، علم کی ترقی، اور دنیا و آخرت میں توازن وہ بنیادی اصول ہیں جو قرآن ہمیں سکھاتا ہے۔ آج امت مسلمہ کو درپیش چیلنجز کا واحد حل یہی ہے کہ ہم اپنی زندگیوں کو قرآن کی تعلیمات کے مطابق ڈھالیں۔ جب تک ہم اللہ کے احکامات پر عمل نہیں کریں گے، تب تک فرقہ واریت، بدعنوانی اور بے راہ روی جیسے مسائل ہماری ترقی میں رکاوٹ بنے رہیں گے۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ اسلام صرف عبادات کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو ہر پہلو میں رہنمائی فراہم کرتا ہے۔
اگر ہم قرآن کی روشنی میں اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں کو سنواریں، تو امت مسلمہ ایک بار پھر اپنی کھوئی ہوئی عظمت حاصل کر سکتی ہے۔ دنیا نے ہمیشہ انہی اقوام کو عزت دی ہے جو علم و عمل میں آگے رہی ہیں، اور اسلام ہمیں انہی راستوں پر چلنے کی دعوت دیتا ہے۔ ہمیں اپنے اعمال کا محاسبہ کرنا ہوگا، اپنی غلطیوں کو پہچاننا ہوگا اور قرآن کی تعلیمات کے مطابق اپنی زندگیوں کو بدلنا ہوگا۔ جب ہم اپنے قول و فعل میں سچائی، ایمانداری اور عدل کو اپنائیں گے، تب ہی ہم ایک مضبوط اور کامیاب امت بن سکیں گے۔ اللہ ہمیں صحیح راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے دلوں میں قرآن کی محبت پیدا کرے! آمین۔