Site icon

صحبتِ اہلِ صفا، نور وحضور وسرور

صحبتِ اہلِ صفا، نور وحضور وسرور

(جامعۃ العلوم، گجرات کی ایک وجد آفریں محفل قراءت-روداد اور مبارک باد)

✍️ ڈاکٹر محمد اعظم ندوی

استاذ المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد

رات کے آخری پہر جب ستارے اپنی روشنی سمیٹ رہے تھے، اور اذانِ فجر کی نغمگی کانوں میں رس گھول رہی تھی، نیند سے بیدار ہوا، میں جامعۃ العلوم، ہمت نگر، گجرات میں تھا، میرے بیٹے خزیمہ اور حمزہ -سلمہما اللہ تعالی- یہاں زیرِ تعلیم ہیں، آج 29 رجب 1446ھ مطابق 30 جنوری 2025ء، جمعرات کی صبح میرے لیے ایک خاص سعادت کا پیام لے کر آئی تھی، جب سورج ابھی اپنی فرحت بخش سنہری کرنوں کے ساتھ افقِ خاوَر سے جھانک رہا تھا، جامعہ میں مسابقۂ قراءت کا آغاز ہوا۔

جب پہلا طالب علم قراءت کے لیے دو گلدستوں کے درمیان سجی ایک بیضوی کرسی پر جلوہ افروز ہوا، تو محفل میں ایک گہری خاموشی چھا گئی، فضا میں ساکت سانسوں کی سرگوشیاں تھیں، اور دل ایک انوکھے ترنم کے انتظار میں گم، پھر جو سلسلہ آگے بڑھا، تلاوتِ قرآن کے ہمہ رنگ قوسِ قُزح کا منظر پیش ہورہا تھا، جس میں ہر آواز ایک نیا رنگ بھرتی، اور ہر لفظ کی ادائیگی کا انداز نئے جہان معنی کی سیر کراتا۔

قرآن کی تلاوت طوطی وبلبل کی مانند محض الفاظ کے دوہرانے کا نام نہیں، بلکہ ایک رقت آمیز کیفیت کا نام ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کی تعمیل ہے کہ "إنَّ هذا القرآنَ نزلَ بحُزْنٍ، فإذا قرأتموهُ فابكوا، فإن لم تبكوا فتباكَوا” (یہ قرآن سوز وگداز کے ساتھ نازل ہوا ہے، تو جب تم تلاوت کرو تو سوز وگداز پیدا کرو، اور اگر ایسا نہ کرو تو رونے کی صورت ہی بناؤ)، قرآن کی نغمگی دلوں کو موہ لیتی ہے، اور آب رواں کی مانند مومن کے سینہ میں اترتی چلی جاتی ہے، علم النغمات اسی صوتی جمال کا شاہکار فن ہے، جو سات مشہور لہجات میں جلوہ گر ہوتا ہے—اس مسابقہ میں بھی طلبہ کی تلاوت میں انھی قرآنی لہجات کی جھلک نمایاں تھی، جہاں ہر قاری کی آواز اپنے مخصوص آہنگ میں وحی کے معانی کو مجسم کر رہی تھی، کہیں سوز و گداز تھا، کہیں متانت، کہیں درد، کہیں امید—کہیں حجاز کا سوز، کہیں نہاوند کا ترنم، اور کہیں بیات کا وقار، مجھے ہر آواز ان نغموں پر اکسا رہی تھی کہ:
ہمسایۂ جِبریلِ امیں بندۂ خاکی
ہے اس کا نشیمن نہ بخارا نہ بدخشان
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے، حقیقت میں ہے قُرآن!

قرآن کی یہی وہ تاثیر ہے جس نے صدیوں سے قلوب کو مسخر کر رکھا ہے، جو آج بھی زندہ ہے اور ہمیشہ باقی رہے گی، آج کے اس مسابقۂ قراءت میں وحی کے صوتی اعجاز کا وہی جلوہ نظر آیا، جس نے اہلِ عرب کے فصیح ترین ذہنوں کو بھی جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا، اسی قرآنی لحن، اسی تاثیر اور اسی نورانی کلام کو سن کر ولید بن مغیرہ جیسے "ريحانة قريش” (قریش کے گل سر سَبَد) نے بے ساختہ کہا تھا: "إن له لحلاوة، وإن عليه لطلاوة، وإن أعلاه لمثمر، وإن أسفله لمغدق”—(بے شک اس کلام میں ایک دل آویز چاشنی ہے، اس پر ایک انوکھا حسن چھایا ہوا ہے، اس کا بالائی حصہ ثمر آور اور زیریں حصہ فیض رساں ہے)۔
آج اسی حلاوت، اسی لطافت، اور اسی تاثیر نے جامعۃ العلوم کی فضاؤں کو معطر کر دیا تھا۔

ماشاء اللہ پڑھنے والے ایسے دلنواز تھے کہ ان کی صوتی تاثیر نے سامعین کو بے اختیار اشک بار کر دیا، اور ہر آیت کو روح کی گہرائیوں میں اتار دیا، حسنِ صوت اور تجوید کی ہم آہنگی نے اس مسابقہ کو ایک ایسی روحانی مجلس میں بدل دیا، جہاں تلاوت کے ملکوتی ساز بَرْبَطِ دل پر بجتے رہے، اور ایک عجیب کیفیت تا دیر برقرار رہی، دل کا حال کیا کہوں، بس یہ کہ:

غنچہ پھر لگا کھلنے، آج ہم نے اپنا دل
خوں کیا ہوا دیکھا، گم کیا ہوا پایا

یہ مسابقۂ قراءت محض ایک تقریب نہ تھی، بلکہ وحی کے صوتی جمال کا ایک ایسا مظہر تھا، جس نے دلوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا، قراءت کے سوز اور آہنگ میں وہی کیفیت تھی، جسے نبی کریم ﷺ نے پسند فرمایا، اور اس کے خلاف جانے کو ناپسند فرمایا، یہاں تک فرمایا کہ:
"ليس منَّا مَن لم يتغنَّ بالقرآنِ”
(وہ شخص ہم میں سے نہیں جو قرآن کو نغمگی کے ساتھ نہ پڑھے۔)

یہ نغمگی کوئی عام موسیقیت نہیں، بلکہ وہ آسمانی مضراب ہیں، جن میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی ترتیل کی نقل ہے، جن میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی سوز بھری آواز کی جھلک ہے، یعنی "أوتیتَ مزمارًا من مزامير آل داود” کی تاثیر ہے، آج ان معصوم بچوں کی قراءت میں وہی وجد، وہی ترنم، اور وہی اثر تھا، جسے سن کر صحابہ کی آنکھیں اشکبار ہو جایا کرتی تھیں، اور رسول اللہ ﷺ خود بھی حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے کہہ بیٹھتے تھے:
"اقرأ عليّ القرآنَ”
(مجھے قرآن پڑھ کر سناؤ۔)
جب وہ تلاوت کرتے، تو آپ ﷺ کی آنکھیں برسنے لگتیں، یہی کیفیت آج بھی زندہ تھی، یہی تاثیر آج بھی قائم تھی، یہی نور آج بھی قلوب کو منور کر رہا تھا، آسمان وزمین اور مکان و زمان جیسے ہزارہا فرق کے باوجود۔

زیادہ تر طلبہ نے تدویر میں قراءت کی، وہی انداز جس میں قرآن کے الفاظ ایک خاص متوازن آہنگ اور اعتدال کے ساتھ ادا کیے جاتے ہیں، چند طلبہ نے ترتیل میں بھی تلاوت کی، وہ انداز جس میں حرف حرف کی ادائیگی میں کشش، آواز میں گونج، اور دراز نفَسی کا مظاہرہ ہوتا ہے، ایسا لگتا تھا جیسے یہ طلبہ اپنی آواز میں وہی کیف پیدا کرنا چاہتے ہیں، جو حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی قراءت میں تھا، جب نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا:
"من سره أن يقرأ القرآن غضًّا كما أُنزل، فليقرأه بقراءة ابن أم عبد!”
(جسے یہ بات خوش آتی ہو کہ وہ قرآن کو بالکل اسی تازگی کے ساتھ پڑھے، جیسے وہ نازل ہوا ہے، تو وہ عبداللہ بن مسعود کی قراءت میں پڑھے!)

یہ تلاوتیں جیسے کسی نادیدہ اور غیر محسوس ساز کے تار چھیڑ رہی تھیں، جس میں نہ تصنع تھا، نہ بناوٹ، بلکہ ایک فطری روانی تھی، ہر آیت کی تکرار ایک نئی کیفیت پیدا کر رہی تھی، جیسے کسی مطرب نے دل کی سوئی ہوئی راگنیاں بیدار کر دی ہوں، سامعین قرآن کے سحر میں گرفتار تھے، اور دل ایک انجانے کیف میں ڈوب رہے تھے، ابھر رہے تھے، ایسا لگتا تھا آواز نہیں، اثر بول رہا ہے الفاظ نہیں، معانی کا نور پھیل رہا ہے، زبان نہیں، روح تلاوت کر رہی ہے:
محرم نہیں ہے تو ہی نوا ہائے راز کا
یاں ورنہ جو حجاب ہے، پردہ ہے ساز کا

اس مسابقہ میں تین خوش نصیب طلبہ نے قراءات سبعہ کی تکمیل بھی کی، وہ لمحہ ناقابلِ بیان تھا، اس لمحہ میں گویا وہی احساس تازہ ہورہا تھا جس نے شیخ الصحابہ اور "أقرؤهم لكتاب الله” حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ کو جھوم جانے پر مجبور کیا تھا جب نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا:
"إن الله أمرني أن أقرأ عليك”
اور حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے تھے کہ اللہ نے اس مشت خاک کو اپنی جناب قدسی میں یاد کیا ہے! "آلله سمّاني لك، أذُكرتُ عند ربي”۔
یہ وہ لمحہ تھا جب "اللَّهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتَابًا مُّتَشَابِهًا مَّثَانِيَ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ” کی حقیقت سامنے آ رہی تھی، قرآن کی حقانیت کی سب سے بڑی دلیل وہ کپکپی ہے جو اہلِ خشیت کے جسم پر طاری ہوتی ہے، اور ان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں، اور یہی ہے "تقشعر منه الجلود” کی تفسیر وتعبیر۔

یہ وہی سرور تھا جسے ڈاکٹر حمید اللہ نے اس فرانسیسی موسیقار ژاک ژیلبیر کے قبولِ اسلام میں محسوس کیا تھا، جب اس نے قرآن کی قراءت کو عام موسیقی سے زیادہ اعلیٰ پایا اور کہا تھا: "یہ آہنگ دنیا کے کسی فن میں نہیں، یہ کسی انسان کا تخلیق کردہ نہیں، اگر محمد ﷺ نے واقعی قرآن کو اسی انداز میں سکھایا ہے، تو یہ یقینی طور پر اللہ کی کتاب ہے!”
لیکن پھر ایک دن اس نے سورۃ النصر کی ایک آیت پر شک کا اظہار کیا کہ "أَفْوَاجًا” پر وقف کرنے سے موسیقی کا آہنگ ٹوٹ جاتا ہے، اور جب اسے بتایا گیا کہ بہتر یہی ہے کہ اس پر وقف نہ کیا جائے بلکہ "فَسَبِّحْ” کے ساتھ ملایا جائے، تو وہ خوشی سے جھوم اٹھا کہ یہی اس کے شک کا جواب تھا!

حکم حضرات میں قاریانِ خوش الحان جناب قاری محمد مستقیم فلاحی اور جناب قاری محمد سعید فلاحی صاحبان تھے، جن کی قراءتوں میں ایسی گونج تھی کہ "خاشعا متصدعا من خشية الله” کے مصداق دل لگتا تھا جیسے پھٹا جارہا ہے، اور پھر باری تعالیٰ کی جناب میں سجدہ ریز ہے، مجلس کی صدارت مولانا قاری عبد الحق فلاحی صاحب فرما رہے تھے، جن کی موجودگی نے اس مجلس کو مزید جلال وجمال بخشا، اور انہوں نے اپنی خوبصورت نعت بھی سنائی، شعبۂ قراءت کے قاری انس صاحب ،ان کے رفقاء اور جامعہ کے دیگر اساتذہ نے محفل کے انعقاد میں جو محنت کی، اس کی جھلک ہر گوشہ میں نمایاں تھی، اور یہ سب خاکے تھے حضرت مولانا سیف الدین صاحب اسلام پوری دامت برکاتہم کے بنائے ہوئے جن میں تجوید کے اساتذہ نے خوب رنگ بھرا، اور اسے ہفت رنگ بنادیا، سلیقہ شعاری، حسن ترتیب اور پابندی اوقات اس ادارہ کے امتیازات ہیں جو آج بھی نمایاں تھے۔

محفل ختم ہو چکی تھی، مگر اس کا نور ابھی بھی دلوں میں باقی تھا، میں نے آسمان کی طرف دیکھا، اور میرے لبوں پر یہ دعا بے ساختہ جاری ہوگئی:

اللهم اجعل القرآن ربيع قلوبنا، ونور صدورنا، وجلاء أحزاننا، وذهاب همومنا۔

Exit mobile version