Site icon

ملی قیادت اور احتساب

ملی قیادت اور احتساب

سید احمد انیس ندوی

ویسے یہ کیا کم معمولی اور کم جگر گردے کا کام ہے کہ جس دور میں اچھے خاصے پڑھے لکھے اور  با شعور لوگ اپنے فکر و نظریے کو گروی رکھ کر صرف فرضی تالیاں پیٹنے میں یا پھر ساکت و جامد تماشہ دیکھنے میں مشغول تھے, اُس دور میں نام نہاد قائدینِ ملت کی اجتماعی اور ملی کوتاہیوں پر چند "سر پھرے” تنقیدی اور اصلاحی آواز بلند کرتے رہے۔ وہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ملت کی اکثریت ان ہی قائدین کی معتقد ہے, اور ان تنقیدی آوازوں کی سزا ہمیں دیر تک اور دور تک بھگتنی پڑے گی, لیکن پھر بھی ان دیوانوں نے اپنی کشتیاں جلا ڈالیں, اپنے راستے مسدود کر لیے, اپنا مطعون اور "اچھوت” ہونا برداشت کر لیا۔ اگر وہ چاہتے تو اپنی ان صلاحیتوں کا استعمال اپنا حلقہ ارادت و اعتقاد بڑھانے میں کر سکتے تھے۔ وہ لیاقت و صلاحیت میں ان سیکڑوں عہدیداران سے بڑھ کر تھے جو اس وقت ملت کی کشتی کے ناخدا بنے ہوئے ہیں۔ ان "دیوانوں” کے لیے بھی بے ضمیری کی بنیادوں پر مال و منصب کی پر کشش عمارتیں تعمیر کرنا بہت آسان تھا۔ کتمان حق کے نتیجے میں یہ بھی سرمایہ ملت کو ذاتی جاگیر بنا سکتے تھے۔ لیکن انھوں نے اس طلسماتی دنیا کا بھرم چکناچور کرنے کی سعی کی, جس کا نتیجہ ابھی بظاہر نظر نہیں آتا۔ اور نتیجہ ظاہر ہونا ضروری بھی نہیں۔ قرآن مجید میں ھل ادلکم علی تجارۃ ۔۔۔۔ کا اصل نتیجہ یغفر لکم ذنوبکم و یدخلکم جنت تجری ۔۔۔ الخ بیان کیا گیا ہے۔ اور فتح و نصرت کو ” و اخری تحبونھا ۔۔۔۔” کہہ کر ثانوی درجہ دیا گیا ہے۔ جب دل پر زخم ہوتے ہیں تو لہجے تو کڑوے ہو ہی جاتے ہیں۔ لہجے کی کڑواہٹ تو سب کو دکھتی ہے, لیکن کیا اصل سبب سب کو نظر نہیں آتا ؟ بلکہ جن کو نظر آتا بھی ہے وہ شعوری طور پر نگاہیں بند کر لیتے ہیں اور ہونٹ سی لیتے ہیں ؟  

سوالات ان سے ہونے تھے جو پچھلی ایک صدی سے ببانگ دہل ملت کے ترجمان اور نمائندہ بنے ہوئے ہیں, اور ملت نے جن کے قدموں میں اپنے خزانے رکھ دیے ہیں۔ مگر سوالات ان سے ہونے لگے جو اپنے ماہانہ اخراجات بھی بہت سوچ سمجھ کر اور احتیاط کے ساتھ پورے کرتے ہیں۔ 

جن نمائشوں پر تنقید ہوئی تھی , کوئی ایک فرد بھی اس تنقید کے دفاع کی پوزیشن میں نہیں تھا, خود اصحاب تملق کو نفس لوامہ کچوکے لگا رہا تھا, مگر اظہار حق کی جرات ہر ایک میں کہاں ؟ –

غلطیوں سے محفوظ کوئی نہیں, لیکن ذرا اپنے دل سے پوچھیے گا کہ زیادہ بڑی غلطی کس کی ہے ؟ –

پچھلے چند سالوں میں آپ کو ایسے ہی لوگ حق بیانی کرتے نظر آئیں گے جن کے پاس ضمیر کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا۔ وہ جانتے ہیں کہ یہ زمین اپنی وسعتوں کے باوجود ان پر ابھی اور تنگ ہونی ہے, لیکن ان کی دعا ہے کہ خدا بس ان کے ضمیر کو زندہ رکھے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہم بے نام و نشان ہو جائیں یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں, ہماری صدا بے اثر ہو یہ بھی کوئی مسئلہ نہیں, بس ہمارا ضمیر زندہ رہے اور ملت کی دہائی دیتے دیتے ملت کے نام پر ہم مال و منصب کے کبھی حریص نہ ہوں کہ اس سے بڑی ذلت اور کوئی ہو نہیں سکتی۔

Exit mobile version