Site icon

مسلم پرسنل لاء ـ ایک مختصر تعارف

سیل رواں

از: محمود احمد خان دریابادی 

   اسلام زندگی گزارنے کا ایک مکمل طریقہ ہے، ہر گوشہ حیات کے لئے اس میں رہنمائی موجود ہے ـ جب اسلامی حکومتیں تھیں تب  بیشتر مسلم ممالک میں ہر سطح پر اسلامی قوانین نافذ تھے ـ خواہ اُن کا تعلق زمین جائداد ،خرید وفروخت، صنعت وحرفت، شادی بیاہ، طلاق، خلع، رضاعت، بچوں کی پرورش و پرداخت سے ہو یا جرم سزا، چوری ڈکیٹی، زنا، دھوکہ فریب، غبن وغیرہ سے  ـ 

     ہندوستان میں بھی مسلم بادشاہوں کی جانب سے جگہ جگہ قاضی مقرر کئے جاتے تھے جو عموما شرعی قوانین کے مطابق فیصلے کرتے تھے ـ اگرچہ بعض بادشاہوں نے جبراً  کچھ معاملات میں شرعی قوانین کے علاوہ دوسرے قانون نافذ کئے ہیں ـ تاہم وہ مقدمات جن کا تعلق صرف مسلمانوں ہی کے آپسی معاملات سے ہوتا ہے جیسے شادی جو ایک مسلم مرد عورت کے درمیان ہوتی ہے، طلاق، خلع، عدت، بچے کی پرورش وغیرہ سے متعلق تنازعات میں دونوں فریق مسلمان ہی ہوتے ہیں ایسے معاملات میں شرع کے مطابق ہی فیصلے ہوتے تھے ـ

   انگریزوں کے آنے کے بعد اُنھوں نے اپنا قانون نافذ کیا، عموما دو طرح کے قانون ہوتے ہیں ایک کا تعلق جھگڑے فساد، قتل، چوری ڈکیتی وغیرہ، سے ہوتا ہے ایسے قوانین کو ضابطہ فوج داری یعنی کریمنل کوڈ کہتے ہیں، کچھ قوانین ایسے بھی ہیں جن کا تعلق تجارت، زمین جائداد کی خرید فروخت، ملکیت اور آپسی معاملات ان میں شادی بیاہ، طلاق خلع وغیرہ بھی آتے ہیں ان کو ضابطہ دیوانی یعنی سول کوڈ کہتے ہیں ـ ……… انگریزوں نے دونوں طرح کے قوانیں سول اور کرمنل اپنے ملک انگلینڈ کے مطابق یہاں بھی نافذ کردئے، ……… اُس وقت مسلمانوں نے بہت کوششیں کی کہ کم از کم وہ مسائل جن کا تعلق مسلمان کے آپسی معاملات سے ہے اُن میں شریعت پر عمل کرنے کی آزادی مل جائے ـ آخر کار بہت محنت و جدوجہد کے بعد انگریز سرکار راضی ہوئی، اسی کے بعد 1937 میں شریعت اپلیکیشن ایکٹ بنا ـ وہی ایکٹ آزادی کے بعد مسلم پرسنل لاء کہلایا ـ 

  گویا اب صورت حال کچھ یوں ہے کہ ضابطہ فوجداری کریمنل لاء تمام ہندوستانی باشندوں کے لئے یکساں ہے، ……….. اسی طرح ضابطہ دیوانی سول لاء بھی نناوے فیصد سے زائد یکساں ہے، صرف وہ چند معالات جو انتہائی نجی اور پرسنل ہیں ان میں ملک کی اقلیتیں اگر چاہیں تو اپنے مذہبی قوانین پر عمل کرسکتی ہیں ـ اس میں بھی پہلی شرط یہ ہے کہ دونوں فریق ایک ہی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں ( مثلا مسلمان ہوں) دوسری شرط یہ کہ دونوں فریق اپنے پرسنل لاء کے تحت فیصلہ چاہتے ہوں تب اُن کے پرسنل لاء کے تحت فیصلہ کیا جائے گا ـ یہ چند مسائل وہی ہیں جن کا تعلق اقلیتوں کے نجی اورگھریلو معاملات سے ہے اسی لئے اس کو پرسنل لاء کہا جاتا ہے ـ 

  اس ملک میں سبھی اقلیتوں کے اپنے پرسنل لاء ہیں، ادی واسی ودیگر قبائل کے بھی پرسنل لاء ہیں، ……… ہندوستان کی یہ خصوصیت ہے کہ یہاں تقریبا تین سو پرسنل لاء ہیں جن پر عمل ہوتا ہے ـ

 مسلم پرسنل لاء کی بنیادقران وحدیث ہے، قران مجید میں سورہ بقرہ، سورہ نساء، سورہ نور، سورہ احزاب، سورہ مجادلہ اور سورہ طلاق وغیرہ میں تقریبا چالیس آیتیں ہیں جن میں پرسنل لاء کے مسائل موجود ہیں، صحاح ودیگر احادیث کی کتابوں میں ان پر سینکڑوں حدیثیں ہیں، اسی طرح قران وحدیث کی ہدایت کے مطابق اجماع وقیاس سے بھی ان کا ثبوت ہوتا ہے، فقہ و فتاویٰ کی کتابوں میں ان کی تفصیلات مل جائیں گی۔  آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی شایع کردہ مجموعہ فقہ اسلامی میں ان مسائل کو دفعہ وار ایک جگہ جمع کردیا گیا ہے ـ

  اگلی صحبت میں انشااللہ یونیفارم سول کوڈ، اس کا پس منظر، اس کےعواقب ونتائج پر کچھ عرض کریں گے ۔  (جاری)

Exit mobile version