عین الحق امینی قاسمی، معہد عائشہ الصدیقہ بیگوسرائے
بھارت جیسے ملک میں” یکساں سول کوڈ “یعنی تمام شہریوں کے لئے ایک جیسے خانگی اور عائلی قوانین کے نفاذ سے مٹھی بھر سیاسی طبقے کو تو سکون ملے گا ،مگر مختلف مذاہب سے وابستہ عام شہریوں کی مشکلیں یقیناًبڑھیں گی ،اِس ملک کا جو تانا بانا ہے، دراصل اُس کی بنیاد ” کثرت میں وحدت “ پر ہے ،یہاں ” وحدت “سے مراد الگ الگ مذاہب اور اپنی مذہبی روایتوں پر مضبوطی سے قائم رہتے ہوئے ملک کوترقی دینے اور اس کوعالمی قوت فراہم کرنے کے اجتماعی جذبات سے ہے ۔یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ ہر ایک بھارتی اپنے ملک سے اٹوٹ محبت کرتا ہے ، ملک کے تئیں دفاعی مراحل اور مشکل ترین حالات میں سبھی اپنے اپنے طریقہائے مذاہب کے مطابق کامیابیوں کے لئے آرزو مند رہتے ہیں،عملاً مسلمان ہو ،ہندو ہو ،سکھ یا عیسائی ہو اوربدھسٹ یا پارسی ہو سب کے سب مذہبی ریتیوں کے نام پر گرچہ الگ ہیں؛مگر سماجی ہم آہنگی کو قائم رکھنے ،آپسی بھائی چارے کو بنائے رکھنے اور ملکی دستور پر عمل کرنے جیسی جہتوں میں مندر ،مسجد ،چرچ اور گُردوارے کے فر ق کے ساتھ قابل تعریف شہری اور محب وطن کہلاتے ہیں ۔ اس سچائی کو تسلیم کیا جانا چاہئے کہ اسی ”یکسانیت “ میں ملک عالمی نقشے پر ” باوقار “مقام حاصل کرسکا ہے اور دنیا کی نگاہ میں آج سب سے بڑی جمہوریت کا تنہا مالک ہے ،بھارت کی ” کثرت میں وحدت “ کی یہ خوبی صرف بھارت کے پاس ہے ،دیگر عالمی ممالک اس ممتاز صفت سے محروم ہیں۔ اِن حقیقتوں کی موجود گی کے بعد بھی کیا ایسا لگتا ہے کہ سیاسی بازی گروں کو مضبوط اور وسیع تریکسانیت سے کوئی مطلب ہے؟ ،ملک اور ملک کے لوگ چاہے جائیں ”چولہے کے بھانڑ میں “اُنہیں تو سیاسی روٹی سینکنے سے مطلب ہے ،یہی وجہ ہے کہ رہ رہ کر ملک میں یکساں سول کوڈ کی مانگ صرف سیاسی افراد یا اپنے حدود سے متجاوز کرنے والے سیاسی وقانونی اداروں کی طرف سے ہوتی رہی ہے ،مختلف مذاہب کے پاسدار عام شہریوں کو اِس سے کوئی دل چسپی نہیں رہی ہے ،بلکہ یکساں سول کوڈ کے نام پر اصل مدعوں اور عام لوگوں کے پیش آمدہ مسائل سے اُن کی توجہات ہٹانے کا کام کیا جاتا رہا ہے ۔
ملک میں کورونا وبا کے بعد لوگوں کومعاشی اعتبار سے اب اُس کی مزید مار جھیلنی پڑرہی ہے ،ضروریات کی ساری چیزوں کے دام آسمان چھورہے ہیں، بے روزگاری جیسے مسائل سے ابھر نا مشکل ہورہا ہے ،بچوں کی تعلیمی فیس کا پورا کرنا ایک مستقل مسئلہ ہے ، روز بروزراشن اور گیس کی بڑھتی قیمتوں سے لوگ اُب رہے ہیں ،سرکاری امداد کے نام پر صرف خانہ پوری ہورہی ہے ، میڈیا کے ذریعے ہمارے نوجوانوں کو ایسا برباد کردیا گیا کہ اُنہیں ہندو مسلم کرنے کے علاوہ محنت سے دوروٹی کمانے کی فرصت نہیں، چِرمِراتی سماجی ہم آہنگی اپناجنازہ اپنے ہاتھوں اٹھا نے کو تیار ہے،ایسے میں کسے فرصت کے وہ یونیفارم سول کوڈ کی بات کرے ،ہاں ! ایک طبقہ ہے جس کی سیاست ہی روزی روٹی ہے اور اُسی سیاست کی راہ سے زندگی کی دوسری ترقیاتی راہیں جاملتی ہیں اُنہیں بے روزگاری ،یا سماجی ہم آہنگی،تعلیم یافتہ سماج،یا اشیائے خورد ونوش کی بڑھتی قیمتوں سے کیا مطلب !عام لوگوں کی روز مرہ کی صورت حال ابتر ہے ،کیا یکساں سول کوڈ سے بنیادی ضروریات جیسے مسائل حل ہوجائیں گے یا اِس طرح کے مسائل مزید دن بدن پیچیدہ ہوتے چلے جائیں گے؟دوا علاج اور سہولتوں کا جہاں فقدان ہو ،غریب لوگ خود کشی پر مجبور ہوں ، اچھے اور سستے ہاسپیٹلس سے گاوں کے گاوں محروم ہوں ،کسانوں کو اپنی محنت کا مناسب معاوضہ
نہ ملتا ہو ،جس ملک میں لوگ فٹ پاتھ اور جھگی جھو نپڑی میں زندگی جینے پر مجبور ہوں،وہاں یکساں سول کوڈ کا مطالبہ کیا معنی رکھتا ہے،کیا ملک کے عام غریبوں کو اپنے پشتینی مذہبی ریتی رواج کے مطابق شادی بیاہ اور فسخ وطلاق کا حق ملک کے دستور نے نہیں دہا ہے ؟
بچھ گئے کوئے یار میں کانٹے
کس کو عذ ر بر ہنہ پا ئی ہے
ہندوستان جیسے ملک میں اگر یکساں سول کوڈ نافذ ہوتا ہے تویہ عمل ملک کے مفاد میں نہیں ہوسکتا ، وجہ اُس کی ظاہر ہے کہ یہ ملک اپنی آبادی کے تنوع کے لحاظ سے ایسی کسی بھی ” یکسانیت “ اور” قومی یکجہتی“ کا متحمل نہیں جس میں ایک ہی فرقہ کے لوگ الگ الگ مقام پربعض خانگی عمل کو مثبت اور منفی نظرئیے سے دیکھیں اور عملی جہت سے بھی اُسے ناقابل عمل قرار دیں۔چنانچہ ملکی قانون پر گہری نظر رکھنے والے معروف عالم دین مولانا محمد ولی رحمانی ؒسابق جنرل سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے بہت صاف لفظوں میں کہا ہے :
”یو نیفارم سول کوڈ کا مسئلہ صرف مسلمانوں کے خلاف نہیں ہے ، یہ ہندوں کے خلاف بھی ہے ، اور سکھوں اور عیسائیوں کے خلاف بھی ہے ، اگر یہ نافذ ہوگیا ، تو خود ہندو بھائی اسے تسلیم نہیں کر یں گے ، مثال کے طور پر شادی کے طریقے کو لے لیجئے ، جنوبی ہندوستان کےہندوں کا طور طریقہ شمالی ہندوستان کے ہندوں سے الگ ہے ، جنوبی ہندوستان میں ماموں اور بھانجی کے درمیان رشتہ کو اچھا سمجھا جاتاہے اور شمالی ہندوستان کے ہندوں کے یہاں یہ رشتہ بڑا خراب سمجھا جاتا ہے ، اگر قانون ایک کر دیا گیا ، تو یا تو یہ شمالی ہندوستان کے ہندوں کے خلاف ہوگا ، یا جنوبی ہند کے ہندوں کے خلاف ہوگا۔ یونیفارم سول کوڈ کے نفاذ سے پورے ملک میں بے چینی آجائے گی ، یہ صرف مسلمانوں کا مسئلہ نہیں ہے ، یہ ملک کے اتحاد و سالمیت کا مسئلہ ہے ، یہاں کی پرانی قدروں اور تہذیبوں کے تحفظ کا مسئلہ ہے ، بے شک دستورہند میں اس کی گنجائش رکھی گئی ہے ، مگر دستور بنانے والے بھیم راو امبیڈ کر کا یہ جملہ آج بھی پروسیڈنگ ( Proceeding ) میں موجود ہے۔ کہ کوئی پاگل گورمنٹ ہی اس ملک میں یو نیفارم سول کوڈ نافذ کر سکتی”(حیات ولی ۔ص:110)
مسلمانوں کے لئے مسلم پرسنل لا جان وتن سے زیادہ عزیز ہے ،وہ اپنے پرسنل لا کے خلاف یکساں سول کوڈ کو کسی بھی صورت میں اپنانے کے لئے آمادہ نہیں ہوں گے ،مسلم پرسنل لا سے اُن کی وابستگی ایسی ہی ہے جیسی نماز روزہ اور دین کے دوسرئے فرائض سے ہے،یکساں سول کوڈ پر عمل کرنے کا مطلب ہے اپنے پرسنل لا سے دست بردار ہونا ۔ایک سچا مسلمان اس کو کبھی بھی گوارہ نہیں کرسکتا ،و ہ سب کچھ برداشت کرسکتا ہے ،مگر اپنی تہذیب وروایات اور قرآن وسنت کی ہدایات سے کبھی بھی خود کو الگ رکھنا گوارہ نہیں کرسکتا ۔یکساں سول کوڈ اپنانے کی صورت میں کئی مذہبی اور تہذیبی ایسی خرابیاں اور نقصانات ہیں جن سے مسلمانوں کو نسل درنسل خمیازہ بھگتنا پڑے گا ۔ اس سلسلے میں حکومتوں کو آئینہ دکھانے اور واضح کنہیات کاعلم رکھنے والی اور یونیفارم سول کوڈ کے موضوع پر اردو زبان میں پہلی باضابطہ کتاب لکھنے والی معروف شخصیت امیر شریعت رابع حضرت مولنا سید شاہ منت اللہ صاحب رحمانی رحمة اللہ علیہ تحریر کرتے ہیں:
مسلمان ’ ’ یو نیفارم سول کوڈ ‘ ‘ کے مخالف ہیں۔ ( ۱ ) ہندوں کا مذہبی طبقہ بھی اس سے اتفاق نہیں رکھتا ( ۲ ) مسلمانوں کے اختلاف کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ” یو نیفارم سول کوڈ ‘ ‘ مذہبی تعلیمات سے متصادم ہے ، اس کے نفاذ کے بعد عائلی اور شخصی زندگی میں قرآن وسنت کی ہدایات سےدست بردار ہونا پڑے گا ، اور ایک ایسے قانون کو اپنی زندگی میں نافذ کرنا پڑے گا جس کے نتیجہ میں مذہب کی مقرر کی ہوئی حد یں مٹ جائیں گی اور فرد کی شخصی زندگی سے حلال و حرام کا وجود ختم ہو جاگا۔ مسلمان اس کیلئے تیار نہیں ہیں کہ وہ ان قوانین کے ذریعہ اپنے عائلی اور شخصی معاملات ومسائل کاحل نکالیں جن کا ہر قدم پر مذہب سے ٹکراو ہوتار ہے۔ جن لوگوں نے اسلام کا مطالعہ نہیں کیا ہے اور اسلام کو بعض دوسرے مذاہب کی طرح عبادات اور رسم ورواج کا مجموعہ سمجھتے ہیں ، انہیں یکساں شہری قوانین کے نفاذ کے خلاف مسلم رائے عامہ کی وجہ سمجھ میں نہیں آسکتی ، اور جولوگ مسلمانوں کی مذہب سے وابستگی کا علم نہیں رکھتے ہیں وہ انداز ہ نہیں لگا سکتے کہ مسلم رائے عامہ اس مسئلہ پرکتنی مضبوط ہوسکتی ہے لیکن مسلمانوں کی مذہب سے بھر پور وابستگی اور اسلامی تعلیمات کی وسعت انہیں اجازت نہیں دیتی کہ وہ شخصی زندگی کے مذہبی قوانین سے دست بردار ہوں، کیونکہ یہ مذہبی قوانین بھی دین کا ایک اہم حصہ ہیں ، اور انکی بنیاد بھی اسی طرح قرآن وسنت میں موجود ہے ، جس طرح نماز ، روزہ اوردوسرے عبادات کی، دوسری وجہ یہ ہے کہ ہر مذہب کے ماننے والوں کے کچھ تہذیبی امتیازات ہوتے ہیں جن کا تعلق بڑی حد تک ’ ’ پرسنل لا ‘ ‘ سے ہوا کرتا ہے بعض مذاہب کے یہ امتیازات مذہبی تعلیمات کی بنیاد پر نہیں ، بلکہ رسم ورواج اور جغرافیائی حالات کے ماتحت ہیں، مسلمانوں کے بھی تہذیبی امتیازات ہیں جن کی بنیاد مذہبی تعلیمات پر ہے۔ مسلمان آمادہ نہیں ہیں کہ وہ تہذہبی امتیاز سے دستبردار ہوں اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ مسلمان بلا وجہ امتیازی نقطہ نظر یا علیحدگی پسندی کا جذبہ رکھتے ہیں، وجہ یہ ہے کہ تہذیبی امتیاز ، مذہبی تعلیمات کی بنیاد پر ہے ، یوں بھی تہذیبی رنگارنگی اور عائلی زندگی کے طور طریقوں کی جدا گانہ نوعیت کا نتیجہ علیحدگی پسندی نہیں ہوا کرتا۔ علیحدگی پسندی قومی معاملات سے بے تعلقی مشتر کہ ساجی ربط کی کمی ، رفاہی کاموں سے دوری کی شکل میں سامنے آتی ہے۔ مسجد میں نماز نہ پڑھنے والا ہندو مندر میں پو جا نہ کرنے والا مسلمان ، گرنتھ صاحب پرعمل نہ کرنے والا عیسائی اور بائبل کی مقدس تعلیمات کو اپنے لئے غیر ضروری سمجھنے والا سکھ کبھی علیحدگی پسند نہیں کہا جاسکتا۔ (مسلم پرسنل لا زند گی کی شاہراہ۔ص: 46/47)
صدمے کی بات یہ ہے کہ بعض اپنوں کی طرف سے یکساں سول کوڈ کی حمایت وسپورٹ میں یہ دلیل بھی دی جاتی ہے کہ اس سے ملکی سطح پر یگانگت اور اور یکجہتی پیدا ہوگی ،سوال یہ ہے کہ کیا کبھی دوفرقوں میں اپنی مذہبی روایات پر عمل کو لے کر ٹھنا ٹھنی ہوئی ہے؟کیا دوالگ الگ مذاہب کے لوگ مذہبی امور کی انجام دہی کے حوالے سے آپس میں دودو ہاتھ ہوئے ہیں؟ یاد رکھنا چاہئے کہ مذہبی ریتی رواج الگ الگ حدود میں رہتے ہوئے ادا کرنے میں ہی یکجہتی اور یگانگت کو مضبوطی ملتی ہے ،اگراس کو ایک فارمولے سے انجام دیا جائے تو بجائے یکجہتی کہ اختلاف رونما ہوگا ،آپ دوفرقوں کی شادی کو دیکھ لیجئے کہ اس سے کتنی یکجہتی پیدا ہوتی ہے ،بلکہ مشاہدہ بتلاتا ہے کہ اکثرو بیشتر یہ جذبہ وعمل یکجہتی کو غارت کرنے والا ثابت ہورہاہے ۔اس لئے سمجھنا چاہئے کہ ملک میں یکجہتی کی بقا یکساں سول کوڈ میں نہیں ؛بلکہ الگ الگ پرسنل لا پر عمل کی صورت میں ہے ۔
ایک ملک ایک قانون کی طرح بہت سے ایسے پہلو ہیں جس میں یکسانیت برتنے کی ضرورت ہے ،آخر کیا بہتر ہوتا کہ ایک ملک میں ایک ہی رنگ اور قد وقامت کے لوگ ہوتے ،مالی اعتبار سے بھی ایک ہی درجہ میں سارے بھارتی ہوتے ،سفر کرنے والے سارے مسافروں کے لئے ایک سواری اور سہولتوں کے اعتبار سے بھی ایک کنڈیشنس ہوتیں،سبھوں کے لئے ہوائی جہاز یا سبھوں کے لئے ٹرین کے اے سی ڈبے اور اے سے کلاس میں بھی سبھوں کے لئے یکساں فرسٹ کلاس کا نظم ہوتا ،روزگار کے مواقع یکساں ہوتے ،مزدوروں کی طرح اہل سیاست کی سیلری بھی یکساں ہوتی، سیلری سبھوں کی مختلف ہے مگر کوئی ٹکراو نہیں،آخرمذہبی خانگی معاملات میں الگ الگ ریتیوں سے سیاسی طبقہ کیوں پریشان ہے ، ایک ملک اور ایک ٹیکس کا قانون کیوں نہیں بنتا ،ملک کے الگ الگ حصوں میں ڈیزل، پٹرول ،دوائیں اور گیس کے دام الگ الگ کیوں ہیں،سرکاری سنستھاوں میں الگ الگ جگہوں پر الگ الگ انتظامات کیوں ہیں ،عام شہری اور وی آئی پی شہریوں کے علاج ومعالجہ میں رعایتوں اورسہولتو ں میں یہ واضح فرق کیا بتلا تا ہے؟راجیہ سبھا میں پیش ہونے والا یکساں سول کوڈ بل دراصل 2024 کے الیکشن کی تیاری کا پیش خیمہ ہے ، تاکہ ہندو مسلمان ،کثرت ازدواج اورکثرت اولاد وغیرہ کا شور مچا کر گول بندی کی جائے اور یکساں سول کوڈ کے نام پر ہندو ووٹ کو بسہولت حاصل کیا جاسکے۔ مفکر اسلام امیر شریعت سابع حضرت مولانا محمد ولی رحمانی ؒ جوزندگی بھر یکساں سول کوڈ پر سب سے زیادہ لکھتے پڑھتے ،سمجھتے سمجھاتے رہے ہیں اُنہوں نے سیاسی سازشوں کو بے نقاب کرتے ہوئے ایک جگہ لکھا ہے :
” یکساں سول کوڈ کا شوشہ ایک سازش ہے ملک کے خلاف ،سازش ہے مسلمانوں کے خلاف ، سازش ہے ہندووں کے خلاف ، یہ سازش ہے اس وطن کو توڑنے کی ایک منظم سازش ، لوگ بڑے چکنے چپڑے چہرے کے ساتھ چکنی چپڑی باتیں کیا کرتے ہیں ، کتنا مکر وہ ذہن ہے ان کا ،کتناگندہ دل ہے ،یہ سوچنے کی ضرورت ہے اور دیکھنے کی ضرورت ہے،دیکھنے والی نگا ہ چاہئے،چشم بینا چاہئے تو اندازہ ہوگا کہ وہ کتنی بے ایمانی کے ساتھ کام کر رہے،ہیں اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مذہبی آزادی یا پرسنل لا کا تحفظ اور آئین کی گنجائش مسلمانوں پر یا کسی خاص طبقہ پر کوئی احسان نہیں ہے ، بلکہ یہ ملک کی ضرورت ہے “ ۔
ملک کے معزز شہریوں سے یہ اپیل کی جاتی ہے کہ وہ تعلیم ،روزگار ،صحت اور روز مرہ کی بنیادی ضروریات پر توجہ دے کر اپنی زندگی کو خوشحال بنائیں ،یکساں سول کو ڈ دراصل ملک کی آبادی کو مقاصد سے بھٹکا نے کا بہانا ہے ،ہمارا ملک اس یونیفارم سول کوڈ کا قطعاً متحمل نہیں ،یہ شوشہ بند ہونا چاہئے ،یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی صورت میں بے شمار ایسے نقصانات ہیں ، جن کا یہ ملک متحمل نہیں ۔