Site icon

دین سب پر ظاہر ہو چکا پھر یہ بحث کیوں ؟

sailerawan

تحریر: مسعود جاوید

یکساں سول کوڈ کے تناظر میں کئی ٹی وی چینلز نے اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے غیر ضروری اور غیر متعلق ڈیبیٹ کا سلسلہ شروع کیا ہے ۔ غیر متعلق اس لئے کہا کہ ان میں سے بعض کا موضوع بحث الہیات ، رسالت اور موت کے بعد زندگی یعنی بطور جزا جنت میں عیش و عشرت بشمول شراب طہور، حور و غلمان، ریشم و کمخواب کے لباس فواکہ میوہ جات ، زنجبیل کی خوشبودار مشروبات دودھ اور شہد کی نہریں یعنی ہر وہ چیز جس کا تصور کسی بھی نیکوکار نے عیش و آرام کے لئے تصور کیا  وہاں اس کے لئے وہ چیزیں پلک جھپکتے حاضر ہو جائیں گی،  ہے ۔ اسی طرح جہنم میں عذاب کی اذیتیں اور شکلیں بتانے کے لئے ان باتوں کا ذکر کیا گیا ہے جو حسی اور جسمانی طور پر اس عالم فانی میں ہر انسان دیکھتا سنتا پڑھتا اور محسوس کرتا ہے جیسے آگ، سانپ بچھو اژدہے وغیرہ ۔ 

ظاہر ہے ما بعد الموت کی زندگی ؛ جزا اور سزا کا تعلق عقل سے نہیں عقیدہ سے ہے۔ یہ غیب کی باتیں ہمیں مقدس کتابوں اور ہمارے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے توسط سے ہم تک پہنچی ہیں۔ ہم نے اس پر یقین کیا اسی کا نام عقیدہ ہے۔  عقیدہ نقلی ہوتا ہے عقلی نہیں۔ یعنی یہ باتیں کتابوں سے نقل یعنی کاپی کی جاتی رہی ہیں پڑھی اور سنی جاتی رہی ہیں ان باتوں کو عقلی اور سائینٹیفک طور پر ہم ثابت نہیں کر سکتے ہیں اور نہ ہمیں ان کو ثابت کرنے کی ضرورت ہے۔‌ ایمان بالغیب کا مطلب یہی ہے کہ مومنوں کی سب سے مقدس شخصیت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر مقدس کتاب قرآن کریم نازل ہوئی وہ ٹیکسٹ اور اس کی تشریح احادیث نبویہ علیہ الصلوٰۃ والتسلیم ، رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کا قول و فعل اور موافقت ، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اس کے مطابق عمل اس کے بعد تابعی تبع تابعی کے توسط سے سینہ بہ سینہ تسلسل سے ہم تک پہنچی ہیں ۔ 

جب مذکورہ بالا باتیں ایمان بالغیب کا حصہ ہیں تو ان پر بحث کیوں! 

کرنٹ افیئرز پر ڈیبیٹ ، ٹاک شو اور انٹرویوز ٹی وی چینلز کے پروگراموں کے اہم حصے ہوتے ہیں ۔‌ کرنٹ افیئرز کے تحت اگر یکساں شہری قوانین پر بحث مقصود ہوتی تو وہ مسلمانوں کے عقیدے پر بحث کرنے کی بجائے ان کے عائلی قوانین اور  رسم ورواج  پر ڈیبیٹ کرتے جیسا کہ بعض چینلز نے شروع کیا ہے۔ مگر بعض چینلز عقائد پر بحث کرا رہے ہیں اور اس میں شرکاء اسلامی اسکالرز کے نام پر کوئی صوفی جی ، کوئی حاجی صاحب اور بعض تو ایسے لگتے ہیں کہ انہیں پکڑ کر کسی دکان سے لایا گیا اور ٹوپی پہنا کر بیٹھا دیا گیا! اور مدمقابل ” سابق مسلمان” جو ویسے تو قرآن وحدیث کا حوالہ دیتا رہتا ہے لیکن ناظرین کو گمراہ کرنے کے لئے بہت سی غلط باتیں کرتا ہے مثال کے طور وہ کہتا ہے قرآن میں کہاں لکھا ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو اللہ نے رسول بنا کر بھیجا ہے ؟ ظاہر ہے نام نہاد مسلم دھرم گرو دینی معلومات اور حوالہ جات سے عاری مسلمان ادھر ادھر کی باتیں کر کے یہ تاثر دیتے ہیں کہ مسلمانوں کا دین بھی نعوذ باللہ من گھڑت ہے ۔ حاجی صاحب ، صوفی جی یا ٹوپی پہنے قرآن و حدیث سے نابلد حضرات کو حوالہ دینے میں ناکام دیکھ کر اینکر مہر لگا دیتے ہیں ‘کہ اس کا مطلب قرآن مجید میں یہ لکھا نہیں ہے ‘ ۔ اس سابق مسلم کو جماع اور زنا کا فرق یا تو معلوم نہیں ہے یا ناظرین کو گمراہ کرنے کے لئے ایسی باتیں کرتا ہے کہ یہ کیسا اسلام ہے جو جنت میں حوروں اور دنیا میں باندیوں کے ساتھ بلا قید و شرط بلکہ بالجبر جنسی فعل بقول اس کے ریپ زنا کی اجازت دیتا ہے! 

کاش یہ نام نہاد مسلم دھرم گرو اس کا مدلل اور مسکت جواب دیتے ۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ایسے ٹی وی ڈیبیٹ میں نا اہل حضرات نہ جاکر اسلام اور مسلمانوں پر احسان کریں ۔ ہمارے یہاں جو معاشرتی قوانین ہیں ان کی نہ صرف بخوبی توضیح  کی جا سکتی ہے بلکہ دوسروں کے قوانین سے موازنہ بھی کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ اس کی اہلیت اور صلاحیت رکھنے والے حضرات شریک بحث ہوں۔ دو باتیں بتانے کی ہیں ۔‌ ایک یہ کہ اسلام اور مسلمان دو الگ الگ وجود ہیں۔ مغربی دنیا کے بہت سے دانشوروں جنہوں نے اسلام کا مطالعہ کیا ہے ان کی بھی یہی رائے ہے۔ اسی کے تناظر میں عظیم فلسفی اور مفکر جارج برنارڈ شا نے کہا کہ دنیا کا بہترین مذہب اسلام ہے اور مسلمان اس مذہب کے بدترین پیروکار ہیں‌۔ آپ روزانہ پانچ وقت نماز ادا کیوں کرتے ہیں ؟   پوری دنیا کے مسلمان قبلہ رو ہو کر ہی نماز ادا کیوں کرتے ہیں ؟ رمضان میں ایک مہینہ روزہ کیوں رکھتے ہیں ؟ صدقہ خیرات زکوٰۃ غرباء میں کیوں تقسیم کرتے ہیں ؟ قرض ادا کرنے کے بعد اور گھر کے اخراجات سے زائد رقم ہونے پر کم از کم زندگی میں ایک بار حج کیوں کرتے ہیں ؟ یہ بحث کے موضوع نہیں ہونا چاہیے ۔ 

ہمارا دین ہمیں حکم دیتا ہے 

  • ١- کہ باپ کے مرنے کے بعد بیوی، بیٹے اور بیٹیوں وغیرہ میں باپ کی جائداد قرآن میں بتائے گئے طریقے پر تقسیم کیا جائے۔ 
  • ٢- کہ  شادی بیاہ کے لئے دولہا اور دلہن دونوں کی رضامندی اور گواہوں کی موجودگی میں نکاح ضروری ہے ۔
  • ٣- کہ  نکاح میں یہ اقرار اور عہد کیا جائے  کہ ہونے والی بیوی کا کھانا کپڑا علاج دوا اور مکان ہونے والا شوہر فراہم کرے گا 
  • ٤- کہ ہونے والا شوہر اپنی بیوی سے جہیز اور تلک نہیں لے بلکہ ہونے والی بیوی کو مہر میں نقد ، سونا چاندی یا جائداد دے‌ ۔ 
  • ٥- کہ  نکاح میاں بیوی کے درمیان ایک ایگریمنٹ کی حیثیت رکھتا ہے جس میں اگر ہونے والی بیوی  چاہے تو ہونے والے شوہر سے ایگریمنٹ کرا لے کہ اس کے جیتے جی وہ دوسری شادی نہیں کرے گا ۔ 
  • ٦- کہ دین اسلام میں طلاق سب سے زیادہ ناپسندیدہ فعل ہے جس پر عمل کی اجازت بدرجہ مجبوری ہے‌ ۔ 
  • ٧- کہ طلاق دینے اور لینے سے پہلے کولنگ پریڈ کا موقع دیا جائے جس میں زوجین اچھی طرح غور وفکر اپنے فیصلہ پر نظرثانی کریں۔ یہ کہ طلاق مرحلہ وار ہو اور ماہواری میں نہ دیا جائے ۔ 
  • ٨- میاں بیوی میں ناچاقی حد سے بڑھنے یا کسی عیب کی بنا پر  بیوی قاضی کے سامنے  خلع لے سکتی ہے  ( طلاق دیے۔ سکتی ہے ) یعنی اسے  شوہر کو چھوڑنے کا حق ہوتا ہے جس طرح شوہر کو حق حاصل ہے کہ بیوی کو طلاق دے۔ 
  • ٩-  اسلام میں کسی کو گود لینے سے اس بچہ یا بچی کو بیٹا یا بیٹی کا حق نہیں دیا جاتا ہے اسے آپ کا نام نہیں مل سکتا‌ کیا یہ ظلم  ہے۔ نہیں ظلم نہیں ہے ۔ باپ اپنی جائداد کا %33 کسی کے لئے بھی یعنی منہ بولے بیٹا بیٹی کے لئے بھی وصیت کر کے انہیں مالک بنا سکتا ہے۔ 

مذکورہ بالا باتوں کا حکم ہمیں دین نے دیا ہے اور ہم دین کے پابند ہیں۔‌ اس میں بحث کی گنجائش نہیں ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ بہت سے مسلمان ان باتوں پر عمل نہیں کرتے ! مثال کے طور پر

  • بہت سے مرد اپنی برتری کے گمان میں من مانی طور پر طلاق دیتے ہیں اور منٹوں میں گھر اجڑنے کا سبب بنتے ہیں۔ 
  •  بہت سارے مسلمان اپنی بہنوں اور بیٹیوں کو ان کا حق نہیں دیتے ہیں‌‌۔ 

گرچہ اس کا جواب یہ دیا جا سکتا ہے کہ بہت سے مسلمان تو حرام کام بھی کرتے ہیں؛  شراب بھی پیتے ہیں ، خنزیر بھی کھاتے ہیں ، سود بھی کھاتے ہیں، زنا بھی کرتے ہیں  اور دوسروں کی زمین و جائداد بھی غصب کرتے ہیں تو کمی شریعت میں نہیں ہے اس پر عمل نہیں کرنے والوں میں ہے! ۔لیکن یہ جواب کافی نہیں ہے۔درحقیقت  مذکورہ بالا موضوعات پر شرعی قوانین اور رہنمائی سے عام مسلمانوں کو آگاہ نہیں کیا گیا ‌علماء کی اس کوتاہی کا نتیجہ ہے کہ اپنے صحیح طریقے پر عمل نہیں کرتے ہیں اور غیر اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں غلط فہمی کے شکار ہیں ۔‌

کیا مذکورہ بالا شرعی قوانین پرسنل لاء اور رسم و رواج سے کسی دوسرے مذہب والے کے جذبات مجروح ہوتے ہیں یا کسی کو کسی قسم کی تکلیف ہوتی ہے ؟ ظاہر ہے نہیں۔ کیا غیر مسلموں کے ہندو پرسنل لاء اور رسم ورواج پر عمل کرنے سے مسلمانوں کو تکلیف ہوتی ہے ؟ ظاہر ہے نہیں ۔ 

کیا مسلمانوں کے پرسنل لاء پر عمل کرنے سے ریاست کے نظم و نسق لاء اینڈ آرڈر پر فرق پڑتا ہے ؟ ظاہر ہے نہیں ۔ 

در اصل قانون کے دو حصے ہیں  criminal law یعنی فرد یا ریاست کے خلاف کوئی حرکت۔  یہ  قابلِ سزا جرم ہے اس  کے سد باب کے لئے تعزیرات ہند مرتب کیا گیا  ۔ دوسرا حصہ Civil law جس کا تعلق ہمارے معاشرے میں رائج رسم و رواج اور عادات واطوار سے ہے۔ 

ہمارے آئین کی رو سے criminal law بغیر کسی کے مذہبی شعائر کا لحاظ کیے یہاں کے ہر شہری پر  یکساں طور پر نافذ العمل ہے اور ہم سب ہندوستانیوں نے اس کی پابندی کا عہد کیا ہے۔ قتل ، چوری ، لوٹ مار ، فتنہ فسادات ، دھوکہ دہی ، غصب وغیرہ پہلے زمرہ یعنی کریمنل لاء کے تحت آتے ہیں ۔ یہ قانون ہر شہری پر یکساں نافذ ہوتا ہے جو سزا ہندو ، عیسائی ، سکھ ، جین، بودھ اور پارسی کے لئے ہے وہی مسلمانوں کے لئے ہے۔ تاہم رسم ورواج سے متعلق قوانین یعنی سول لاء مختلف کمیونٹیز کے مذہبی اور ثقافتی جذبات کو مد نظر رکھتے ہوئے اس میں رعایت دی گئی ہے۔ یعنی بعض الگ الگ ریاستوں اور ان کے باشندوں اور مذہبی و ثقافتی گروہوں کے لیے جو قوانین ہیں وہ یکساں نہیں ہیں۔ اور یکساں بنانا آسان بھی نہیں ہے۔ 

تاہم بعض سول کوڈ جس کی تطبیق تمام شہریوں پر کی جاسکتی ہے ان پر اعتراض کہاں تک صحیح ہے ؟ مثال کے طور پر:شادی کے لیے لڑکا اور لڑکی کی عمر کا تعین اور   نکاح کا رجسٹریشن ۔  قانون بنے یا نہ بنے عملاً ہر ماں باپ اپنے بیٹے بیٹیوں کی شادی میں اقل حد  ١٨ سال اور ٢١ سال کا خیال رکھتے ہیں ۔ نکاح کا رجسٹریشن کرانے میں کیا مضائقہ ہے ۔ بیرون ملک فیملی کے ساتھ جانے والے نکاح نامہ کا رجسٹریشن کراتے ہیں۔ میرج سرٹیفکیٹ حاصل کرتے ہیں اگر اسی روش کو قانون سے مربوط کر دیا جائے اور ہر شہری کے لئے لازمی قرار دیا جائے تو کیا حرج ہے! پھوپھیوں ، بہنوں اور بیٹیوں کے حقوق کی ادائیگی یقینی بنانے کے لئے سخت قانون بنانے میں حرج کیا ہے۔ بہنوں اور بیٹیوں کے حقوق دینے سے جہیز کی لعنت میں بھی کمی آئے گی۔

Exit mobile version