در مــــــــــدح آن غزل
از قلم: مولانا عبد المتین منیری
ابھی مولانا محمود دریابادی صاحب کی اس بزم کے احباب سے ناراضگی ختم نہیں ہوئی ہے ، لیکن احباب کو آپ سے دلی محبت ہے اور جہاں آپ کا ابر کرم برستا ہے، ان قطرات سے اس بزم کو بھی سیراب کرنے کی کوشش میں رہتے ہیں؟۔
ابھی مسلم قیادت کے تعلق سے عامۃ المسلمین سے آپ کی شکایت پر مشتمل ایک تحریر سامنے آئی ہے، جو آپ کے مشاہدات پر مبنی ہے۔ ہماری رائے میں کسی کو اپنے مشاہدات کا پابند کرنے کے بجائے ان کے دائرہ کو مزید وسعت دینے پر سوچنے کی ضرورت ہے۔ مولانا نے جو مشاہدہ پیش کیا ہے وہ ایک حد تک درست بھی ہے۔
ہماری رائے میں اس بات کا جذبات سے بلند ہوکر تجزیہ ہونا چاہئے کہ تقسیم سے قبل امت مسلمہ پر حضرت شیخ الاسلامؒ، امام الھندؒ، امیر شریعتؒ اور سحبان الھندؒ جیسی شخصیات کا بڑا اثر تھا، لوگ ان کی تقریروں اور جلسوں میں جوق در جوق آتے تھے، اور گھنٹوں انہیں سنتے تھے، کسی ایک واقعہ کو کُل کی حیثیت نہیں دی جاسکتی، البتہ ایسے واقعات کی بھرپور مذمت ہونی چاہئے، لیکن کیا بات سوچنے کی نہیں ہے کہ جب سیاسی فیصلے کی نوبت آئی تو لوگوں نے ایک ایسے شخص کی بات سنی، جس کی تقریریں ان میں سے اسی نوے فیصد افراد کی سمجھ سے بالا تر تھیں،ان تقریروں میں کوئی لوچ نہیں تھا، اور یہ تقریریں جذبات سے معری ہوتی تھیں، اوربڑے بڑے چوٹی کے خطیب ومقرر اس قائد کے مخالف حلقے میں تھے، بد مذہب اورکافر ہونے اور کھانے پینے میں حلال وحرام کی تمییز نہ رکھنے کے فتوے بھی جس پر بارہا لگتے تھے۔ اس صورت حال میں صرف جاگیر داروں اور زمین داروں پر الزام ڈال کر بری الذمہ ہونا بہت سی حقیقتوں سے منہ چھپانے جیسا عمل لگتا ہے۔
ہمارا خیال ہے کہ ہر قوم چاہے مسلم ہو یا غیر مسلم بلا تفریق سیاسی میدان میں اسی قیادت کی بات مانتی ہے جن کے بارے میں اسے احساس ہو کہ وہ ان کے حقوق کے لئے لڑ رہی ہے، زمینی حقیقتوں کو سامنے رکھ کر فیصلے کرتی ہے،اس کی باتیں صرف جذباتی نہیں ہوا کرتیں، یہاں تقریر سے زیادہ تنظیم کا عمل دخل ہوتا ہے۔ اس کی کم از کم ایک مثال ہمیں تقسیم ہند کے بعد بھی وطن عزیز میں ملتی ہے۔ وہ بھی مسلم لیگ ہی میں۔
تقسیم ہند کے بعد جب ہندستان میں مسلم لیگ ایک گالی بن گئی تھی، تب ترچناپلی کے دور دراز علاقے سے ( قائد ملت) محمد اسماعیل راوتھر مرحوم اٹھ کھڑے ہوئے، ۱۹۵۲ء کے ناگفتہ حالات میں آپ نے انڈین یونین مسلم لیگ کی بنیاد رکھی،اور یہ جماعت اپنے قیام سے ابتک کیرالا کی ریاستی حکومت میں شامل چلی آرہی ہے، اوروہاں پر مسلمانوں کے حقوق کے لئے کوشاں ہے، تقسیم ہند کے بعد کے ابتدائی ایام تھے۔
بیان کیا جاتا ہے کہ وزیر اعظم جواہر لال نہرو کی کیرالا یونیورسٹی میں آمد کے موقعہ پر آپ نے مسلم لیگ پر طعنہ کسا تو اس وقت ایک نوجوان اسٹوڈنٹ لیڈر سی ہیچ محمد کویا نے وزیر اعظم وقت کو مخاطب کرکے کہا تھا کہ لیگ سویا ہوا شیر ہے، اسے نہ جگاؤ، یہی کویا کیرالا کی اولین مارکسٹ اور لیگ مشترک حکومت میں ریاستی طور پر ملک کے طاقت ور ترین وزیر داخلہ اور پھر وزیر تعلیم کی حیثیت سے ابھرے۔اور بدنام زمانہ کیرالا یونیورسٹی کی اسٹرائک کو آہنی ہاتھوں سے اس طرح ختم کیا کہ دوبارہ اس طرح کی کسی اسٹرائیک کا نام سننے میں نہیں آتی تھی۔
محمد اسماعیل راوتھر مرحوم کو بھی جناح کی طرح اردو نہیں آتی تھی، وہ ٹمل اور انگریزی میں بڑے دھیمے انداز سے بولتے تھے،ہندوستان کی پہلی دستورساز کمیٹی میں امبیڈکر کے شریک رہے، دستور ہند میں مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کرنے والی شقیں بنانے اور اس کی نوک پلک سنوارنے میں آپ کا کلیدی کردار رہا،کیرالا کے مستقل ریاست بننے کے بعد ۱۹۶۲ء کے بعد دو مرتبہ آپ ٹامل ناڈو کے بجائے پڑوسی ریاست کیرالا کی ملپورم سیٹ سے بھاری اکثریت سے ممبر پارلمنٹ چن کر آئے، آپ نے الیکش کے موقعہ پر کبھی بھی ووٹ مانگنے کے لئے اپنے حلقے کا دورہ نہیں کیا، ٹامل ناڈو حکومت نے ناگاپٹنم شہر کو آپ کی طرف منسوب کرکے اس کا نام قائد ملت نگر رکھا تھا، اس طرح الگ الگ لڑکوں اورو لڑکیوں کے کالوں کو آپ کے لقب قائد ملت سے موسوم کیا تھا۔ ترجناپلی کا جمال محمد کالج جو اب ڈین یونیورسٹی کا درجہ رکھتی ہے آپ اور آپ کے برادر نسبتی جمال محی الدین (سابق ممبر پارلمنٹ ) کا قائم کردہ ہے، آپ مشہور زمانہ صاحب خیر جمال محمد سیٹھ مدراسی کے داماد تھے، ۱۹۷۲ء میں انتقال سے قبل بارہا آپ سے ملاقات کا شرف ہمیں حاصل ہوا ہے۔ بڑی محبت اور شفقت سے ملتے تھے۔
کہا جاتا ہے کہ حضرت شیخ الھندؒ جب جیل میں تھے تو مولانا قیام الدین عبد الباری فرنگی محلیؒ کی قیادت میں جمعیت علماء کا قیام عمل میں آیا تھا، اور اس کی تشکیل میں آپ کے شریک لوگوں میں مولانا احمد سعید دہلویؒ، مولانا مفتی کفایت اللہ دہلویؒ ، مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ، مولانا میر ابراہیم سیالکوٹیؒ، وغیرہ دیوبندی، بریلوی، اور اہل حدیث سبھی مکاتب فکر کے معتبر اکابر موجود تھے، سنہ ۱۹۶۰ء کی دہائی تک بریلوی مکتب فکر کے نائب صدر بھی جمعیت سے ہوا کرتے تھے، اور بریلوی مکتب فکر کے شاعر انقلاب علامہ انور صابری اپنی شاعری میں جمعیت کی ترجمانی کیا کرتے تھے، اور اب اس زاوئیے سے صورت حال کیا ہے؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۹۷۲ء میں جب مسلم پرسنل لابورڈ کا قیام عمل میں آیا تھا تو اس کے اہم عہدوں پر بریلوی مکتب کے مفتی برہان الحق جبلپوری خلیفہ اعلی حضرت بریلوی، سلطان البھرہ سیدنا جوہر برہان الدین کے بھائی صاحبزادہ یوسف نجم الدین بانی جامعہ سیفیہ سورت، اور شیعہ مسلک کے مجتہد مولانا کلب صادق جیسی اپنے مکتب فکر کی معتبراور نمائندہ شخصیات حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیبؒ ، امیر شریعت مولانا منت اللہ رحمانیؒ اور مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن ندویؒ کے شانہ بہ شانہ ہوا کرتی تھیں، اب صورت حال کیا ہے؟، مختلف مکاتب فکر کی نمائندگی کا تناسب کیا ہے؟۔ ہماری رائے میں صرف عامۃ الناس پر اس کی پوری ذمہ داری ڈالنا انصاف کے تقاضے پورے نہیں کرتا۔
یہاں ایک بات چھوٹی جارہی ہے، واچپائی حکومت کے وزیر داخلہ جن پر پڑوس میں جناح کے قتل کی سازش کا مقدمہ بیسیوں سال تک بنا ہوا تھا، اورجن کے سرپر مرارجی دیسائی حکومت میں وزیر اطلاعات کی حیثیت سے انفارمیشن کے شعبے کو گہرے گیروے رنگ میں رنگنے کا سہرا بندھتا ہے، اور جنہیں سابق وزیرداخلہ سردار پٹیل کا نیا روپ کہا جاتا تھا، اورجنہیں پارلمنٹ میں بی جے پی کی سیٹوں کو ایک سے بڑھا کر بھاری اکثریت دلانے کا ماسٹر مائنڈ کہا جاتا ہے، انہوں نے جناح کے مقبرے کی ویزٹ کے موقعہ پر بیان دیا تھا کہ جناح ایک سیکولر انسان تھے،وہ مذہبی نفرتوں کو پسند نہیں کرتے تھے، اور پھر اسی حکومت کی وزیر خارجہ جسونت سنگھ نے جناح پر کتاب لکھی، ان دونوں کی باتوں کا لب لب یہی تھا کہ ملک کو تقسیم کی طرف لے جانے والے اصل مجرم جناح نہیں تھے، بلکہ اس کی ذمہ دار کانگریس تھی، لیکن آر یس یس نے نہ صرف اس بحث کا چرچا ہونے نہیں دیا، بلکہ ان دونوں قد آور قائدین کا پتہ ہی کاٹ دیا، کیونکہ اگر یہ بحث آگے بڑھتی تو پھر مسلمانوں پر سے تقسیم ہند کا الزام دھل جاتا، اور مسلمان کسی ایک جماعت کے اجیر بن کر نہیں رہ جاتے، اور ہندومسلم نفرت کی دیوار ڈھنے کے امکانات بڑھ جاتے، ایک کمزور کانگریس کی ضرورت چونکہ ہمیشہ باقی رہتی ہے، اس صورت میں کانگریس کی چھپی عامۃ الناس میں آر یس یس کے مساوی بن جاتی، جو انہیں منظور نہ تھی۔
۱۹۴۷ء میں مدراس (چنئی ) میں متحدہ ہندوستان کے اپنے آخری خطاب میں ایک دانشور ومفکر کی کہی ہوئی بات درست لگتی ہے کہ:
((ہندو قوم پرستی کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ یہ جن دو پا ؤوں پرکھڑی ہوئی تھی ان میں سے ایک یعنی انگریزی اقتدار سے نجات پانے کا جذبہ عنقریب گرا چاہتا ہے ۔ اس کے بعد صرف دوسرا پاؤں باقی رہ جاتا ہے، یعنی مسلم قوم پرستی کے مقابلہ کا جذبہ ۔ سو پاکستان کے بن جانے کے بعد اس کا قائم رہنا بھی مشکل ہے۔ بشرطیکہ ہند و علاقے کی مسلمان اقلیت اپنے مسئلے کو حل کرنے کی کوئی ایسی راہ نکال لے جس سے نہ تو ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کشیدگی و نزاع کے اسباب پیدا ہوں اور نہ ہندوستان کے اندر مسلم قوم پرستی کے دعووں اور مطالبوں کو دبانے کے لیے ہندو قوم پرستی کے مشتعل ہونے کا کوئی موقع باقی رہے ۔ یہ حکمت اگر خدا نے مسلمانوں کو عطا کر دی توآپ دیکھیں گے کہ نیشنلسٹ لیڈر اور قومی مذہبی عصبیتوں کے مبلغین مصنوعی خطرے سے اور جعلی ہوؔے پیش کر کر کے موجودہ قوم پستی کو زندہ اور مشتعل رکھنے کی خواہ کتنی ہی کوشش کریں ، وہ بہر حال مرکے رہے گی اور وہ مختلف و متضاد عناصر، جن کی ترکیب سے یہ قوم پرست بلاک بنا ہے، بکھر کر ر ہیں گے ۔ اس لیے کہ اس بلاک کے اندر خود اس کے اپنے عناصر ترکیبی کے درمیان جو تمدنی ، معاشرتی بے انصافیاں ، جو معاشی جفا کاریاں ، جو اغراض و مقاصد کی کشاکشیں ، اور جو طبقاتی منافرتیں موجود ہیں، وہ بیرونی خطرات کے ہٹتے ہی اپنے آپ کو کمزور محسوس کرائیں گی اور ملک کے آئندہ نظام، اختیارات کی تقسیم، حقوق کے تعین اور سماجی نظام کی تشکیل کے مسائل لامحالہ ان کو آپس میں پھاڑ دیں گے ۔ اس تفرقہ کے لیے ایسے طاقت ور اور فطری اسباب موجود ہیں کہ اسے رونما ہونے سے کوئی چیزروک نہیں سکتی ))۔
تاریخ سبق سیکھنے کے لئے ہوتی ہے، نہ کہ یہ مداحی کے لئے ، نہ زخم کریدنے کے لئے، تاریخ کے پہئے کو واپس نہیں موڑا جاسکتا، اگر تاریخ کو پڑھ کر اس سے سبق حاصل کیا جائے، اور قوموں کی زندگی میں ہونے والی غلطیوں کی نشاندہی کرکے ان سے بچنے کی کوشش کی جائے، تو تاریخ سے بہتر کہیں اور سے رہنمائی اور تجربہ نہیں مل سکتا، یہی حکمت خداوندی قرآن کریم میں قصص انبیاء و اقوام کے ذکر میں پوشیدہ ہے۔
لہذا ہمیں تقسیم ہند کے حالات و اسباب جاننے کے لئے صرف عامۃ الناس پر اس کا ٹھیکرا پھوڑنے کے بجائے ۱۹۲۶ء کی نہرورپورٹ کے بعد کے حالات کو گہرائی سے جاننے اورسنجیدگی سے ان کا جائزہ لینا چاہئے،آخر کیا بات تھی کہ جناح جیسے سیکولر مسلمانوں کے حقوق کا علمبردار بن کر کھڑے ہوئے، ہمیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ شدھی کرن صرف ہندومہاسبھا کا مشن نہیں تھا،کانگریس کا رویہ اس کی تکمیل میں معاون تھا، کانگریس میں صرف نہرو جیسے سیکولر مزاج قائدین نہیں تھے، ان میں ان کھدر پوشوں کی اکثریت تھی، جس کا گیروا رنگ نظر نہیں آتا تھا، لیکن ان کا رواں رواں گیروا ہوچکا تھا، کیا کوئی نہرو کی کیبنٹ ممبران اور اس کے جانشینوں، یوپی اور دوسری ریاستوں کے وزرائے اعلی کے سلسلہ میں کہ سکتا ہے کہ یہ اپنی فکر میں مہاسبھائیوں سے کچھ کم تھے؟۔ کہا جاتا ہے کہ نہرو کے جانشین اور ہندوستان کے شریف وزیراعطم لال بہادر شاستری آر یس یس کے آدمی تھے۔ خود کانگریس کے مہاتما ایک شریف اور اہنسا کے علمبردار ہونے کے باوجود کٹر مذہبی انسان تھے۔ مذہب کی پابندی کے ساتھ رواداری کی ایک حد ہوتی ہے، جس کی سرخ لکیر کو یہ لوگ پار نہیں کرتے۔ یہ اور بات ہے کہ مہاتما کو بعد میں اس کا احساس ہوا، اور انہوں نے اس کے ازالے کی سنجیدہ کوشش کی بھی کی، لیکن وقت گذر چکا تھا،اورآپسی اعتماد کو جو ٹھیس پہنچنی تھی وہ پڑ چکی تھی،پہلے پہلے جب بھیانک فسادات ابھرے تو مہاتما نے مسلمانوں ہی کو اس کا دوشی قرار دیا، یہاں تک ۱۹۲۱ء کی ماپلا تحریک کی جس میں ملباریوں پر بے پناہ ظلم ڈھائے گئے تھے، اور ان مجاہدین آزادی سے انڈومان نیکوبار کے جیلوں کو آباداس حد تک آباد کیا گیا کہ آج اس کالا پانی میں دو پارلمنٹ سیٹیں بن گئیں، اور ان مجبور اور شہید ماپلاؤں کی اولاد وہاں سے منتخب ہوکر پارلمنٹ کے لئے منتخب ہوتی ہے، اس ماپلا مسلمانوں کی تحریک کا ساتھ دینے کے بجائے مہاتما نے انہیں مجرم قرار دیا، اور مہاتما کی رضامندی کے لئے اس وقت ہندوستان کی تحریک خلافت کے قائدین نے بھی اس ظلم وبربریت کے خلاف منہ کھولنے کے بجائے اپنے منہ میں گھگھی باندھے رکھی، اور آج بھولے سے بھی ہمارے علماء و دانشوروں کی زبان پر اس تحریک آزادی کا ذکر نہیں آتا۔ جس میں ملباریوں کو پکڑ پکڑ کر کوژیکوڈ کی مال گاڑی پر مویشیوں سے زیادہ بد ترین حالت میں بند کیا گیا تھا، یہاں تک کہ کوئمبتور اسٹیشن پر پہنچتے پہچتے یہ سبھی گرفتارزدگان دم گھٹ کر مر گئے تھے۔
تعلیم وتربیت میں مسلمانوں کا شدھی کرن کرنے کے لئے کانگریس کی تیار کردہ واردھا تعلیمی اسکیم، اور ودیا مندر تعلیم اسکیم ، اور مسلم قیادت کو تسلیم کرنے سے انکار اور عامۃ الناس سے براہ راست ماس کنٹکٹ تاکہ مسلمانوں کی آواز یکجا نہ ہوسکے بلکہ یہ منتشر حالت میں پہنچے، تحریک آزادی کے دوران کانگریس کے ان بنیادی کارناموں کا ہمیں علم ہونا چاہئے، اور یہ جاننے کی کوشش کرنی چاہئے، کہ اس میں اور موجود دور حکومت کی پالیسیوں میں جسے ہم فسطائی کہتے نہیں تھکتے۔ آخر کتنا فرق پایا جاتا ہے؟، اور یہ جاننے کی کوشش کرنی چاہئے کہ کیا ان حالات میں کانگریس کی بلا شرط اتباع پرآمادگی قبول نہ کرنے والوں کو ہم مکمل طور پر ملزم قرار دے سکتے ہیں؟۔
ہمارے خیال میں قیادت ملزم یا ہے عوام؟، یہ بحث انڈا پہلے یا مرغی والی ہے، لیکن یہ ضرور ہے کہ عوام اس کی قیادت کا پرتو ہوتے ہیں،عوام اپنی قیادت سے رہنمائی کے محتاج ہوتے ہیں، انہیں قیادت بتاتی ہے کیا اچھا ہےاور کیا برا؟، اس میں قیادت کی صالحیت سے زیادہ عوام کی سطح اور ان کے جذبات، خواہشات اور ضروریات کو جاننے کی ضرورت ہوتی ہے۔
ہمارے خیال میں ملت کی قیادت پر اعتبارمیں بہتری لانے کے لئے مندرجہ ذیل امور بہت اہمیت کے حامل ہیں۔
- اختلاف رائے کو ذاتی مخالفت تک نہ بڑھنے دیا جائے۔
- اپنی ترجیحات سے قبل مخاطب کی ذہنی سطح اور انکی بنیادی ضروریات اور ترجیحات پر خاص طور پر نظر رہے۔
- کوشش ہو کہ ہرمسلمان توحید، رسالت، آخرت، اسلام میں حرام وحلال اور فرائض و ارکان سے آگاہ ہو، ضروری نہیں کہ ہر بچے کو عالم وحافظ بنانے کی فکر ہو، اس سلسلے میں گاؤں قصبے اور معاشرے کی ضروریات کا خیال رکھا جائے، اور ضرورت کے مطابق معیاری حافظ وعالم تیار کرنے پر پوری توانیاں صرف ہوں۔ہماری توجہ تعداد کے بجائے معیار پر ہو۔
- تعلیم تنظیم اور تجارت کو مسلم معاشرے میں عام کرنے پر پوری توجہ مرکوز ہو۔
- اس وقت ہماری تنظیم اور قیادت دو انتہاؤں میں تقسیم ہے،
ایک طرف مسلمانوں کی ایسی تنظیمیں ہیں جن کی شاخیں ملک کے کونے کونے میں ہیں، لیکن ان میں موثر شخصیات کا فقدان ہے،جس کی وجہ سے اب یہ تحریک کے بجائے این جی اوز کی شکل اختیار کرتی جارہی ہیں، دوسری طرف شخصیات ہیں، جن کی تنظیمیں اپنے اہل وعیال میں محدود ہوکر رہ گئی ہیں، ان میں یا تو مخصوص خاندان سے باہر قیادت کا تصورکا فقدان ہے، یا پھر اس کے دائرے سے باہر قیادت کو ابھر نے نہیں دیا جارہا ہے۔ اس طریقہ کار میں ایک ایسے توازن کی ضرورت ہے کہ باہنر شخصیات کو ان کا حقیقی مقام اور احترام دیا جائے، اور اصولوں پر تنظیمی نظام کو بھی مضبوط کیا جائے۔
یہ موضوع طویل غور وخوض کا متقاضی ہے، آج کی بات یہیں تک، یار زندہ صحبت باقی۔