مسعود جاوید
میرے ایک بہت ہی عزیز دوست ، سول سوسائٹی کے فعال رکن قابلِ احترام سماجی شخصیت نے اس بابت اپنی مایوسی اور غم وغصہ کا اظہار کیا ہے کہ ان کے ایک مشہور شاعر دوست نے حالات حاضرہ پر جو نظم لکھا ہے اسے اردو ادب نثر و نظم کے پلیٹ فارم نے شامل کرنے سے انکارکردیا ہے۔
ادب سماج کا آئینہ ہوتا ہے اس تعریف کے مدنظر اردو پلیٹ فارم کا انکار بادی النظر میں قطعاً مناسب نہیں ہے لیکن معاملہ صرف ایک پلیٹ فارم کا نہیں ہے۔ عموماً ادبی رسائل اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایسی تخلیقات کی اشاعت سے گریز کرتے ہیں جس میں مقتدرہ پر تنقید ہو۔ اسی لئے ایسی کسی تحریر جس میں حکومت وقت کی ناکامی پر انگلی اٹھائی گئی ہو یا سیاسی طنز و مزاح political satire ہو اس کی اشاعت کر کے ایڈیٹر و ناشر حضرات کسی محکمہ کے عتاب کا شکار ہونے کا رسک نہیں لینا چاہتے ہیں ۔
اصولی طور پر یہ اظہار رائے کی آزادی کو دبانے کی حرکت ہو سکتی ہے لیکن ایسے کتنے اصول دم توڑ رہے ہیں اس لئے کہ جان ہے تو جہان ہے روزی روٹی کا مسئلہ ہے بیوی بچوں کی سلامتی کا مسئلہ ہوتا ہے۔ جب بچوں کا مستقبل زیر نظر ہوتا ہے تو فرد کی آزادی ، اظہار رائے کی آزادی اور صحافتی اخلاقیات کو بالائے طاق رکھ کر جبر کے سامنے انسان سر تسلیم خم کر دیتا ہے۔
شاعر، ادیب ، صحافی ، سیاسی تجزیہ نگار، طنز ومزاح کے فنکار ، دانشور ، وکلاء اور سابق ججز یعنی تقریباً ہر شخص اس قدر سہما ہوا ہے کہ کسی بھی انہونی پر ردعمل کے اظہار کرنے سے بچتا ہے۔
بالفاظ دیگر ادب برائے ادب کی طرف ہم لوٹ رہے ہیں اب ادب کے ہر صنف نظم و نثر کے موضوعات سیاسی طور پر غیر ضرر رساں مضامین ہوتے ہیں۔ اب غزل و دیگر صنف ادب اپنی اوریجنل شکل میں ہے یعنی لب و رخسار ، زلف، بدن کے نشیب و فراز ، مخمور آنکھیں ، مست و بیخود دل ، رندی اور مستی ، اور معشوق کا لہجہ انداز تکلم اور تخاطب اور بس ! پلیز نو پولیٹیکل کنٹینٹ!
اشتراکی ادب کا قبلہ سوویت یونین کے سقوط کے بعد بھوک، روٹی کپڑا اور مکان ، طبقاتی کشمکش ، اشرافیہ و مذہبی رہنماؤں کی مشترکہ قیادت کے ہاتھوں غریبوں کا استحصال، مقتدرہ کے آہنی پنجے ، عدم مساوات وغیرہ اب ادب کے موضوعات نہیں رہے۔
اب ایسا رأسمالی دور ہے جس میں ہر انسان کا اولین ہدف اور مطمح نظر صرف اور صرف پیسہ ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جس میں محدود آمدنی والے شخص کا گزارہ نہیں ہے وہ قناعت پسند بھی ہو تو اس کی بیوی، اس کے بچے اور رشتے دار اسے عار دلاتے ہیں کہ پڑوس میں عالیشان گاڑی ہے بنگلہ ہے ، گھر میں کام والی آیا آتی ہے اور بچے اسٹینڈرڈ انگلش میڈیم اسکول میں جاتے ہیں تو وہ کیوں نہیں ۔ یہ دور امارت میں مقابلہ آرائی کا ہے۔
اردو دنیا کے لوگ اسی طرح کی کشمکش میں آج جی رہے ہیں۔ ان کی مجبوریوں کو سمجھیں ۔ سماجی برائیوں کے خلاف قلم اٹھانا ان کا فریضہ منصبی ہے لیکن جس طرح علماء نے عبادت کو نماز روزہ حج زکوٰۃ تک محدود کر کے اخلاقیات پر تقریر و تلقین کو تقریباً خارج کر دیا اسی طرح ہمارے ادیب، شاعر صحافی اور دانشور سماجی مسائل ، ناخواندگی ، غربت، تعلیمی و معاشی پسماندگی جیسے موضوعات پر زبان و قلم کو محصور کر لیا ہے اس کے سیاسی اسباب کا تجزیہ اور اس کے لئے ذمے دار ملی اور سیاسی لیڈر شپ پر تنقید کو شجر ممنوعہ قرار دے رکھا ہے۔
اب خرد چپ ہیں ارباب جنوں حیراں
اس دور کے انسان کو کیا نام دیا جائے