محمد عمر فراہی
ایک ہوٹل سے چاۓ پی کر ابھی اپنی موٹر سائیکل کے پاس آکر کھڑا ہی ہوا تھا کہ ایک بڑے میاں چاۓ کا تھرمس لیکر آۓ اور کہنے لگے چاۓ پی لیں صاحب ۔میں نے کہا ابھی تو پی کر آیا ہوں ۔انہون نے کہا ایک اور پی لیں ۔ابھی ایک بھی چاۓ نہیں بیچ پایا ہوں اور مجھے ایک سموسہ کھانا ہے ۔میں نے ان کی عمر کو دیکھتے ہوۓ مدد کے طور پر ایک چائے خرید لی ۔ویسے سڑکوں پر گھوم کر چھوٹے موٹے سامانوں کا دھندہ کرنے والے کچھ تو حقیقت میں مجبور ہوتے ہیں اور کچھ ہر کسی سے اپنی عاجزی کے اسی لہجے میں جھوٹ بول کر بھی دھندہ کرتے ہیں تاکہ لوگ رحم کھا کر کچھ نہ کچھ خرید لیں ۔خیر جو بھی ہو جب میں کچھ صحت مند مسلمانوں اور کشمیری نوجوانوں کو اپنی عورتوں کے ساتھ بھیک مانگتے ہوۓ دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ ان سے اچھا تو یہ ستر سال کا بوڑھا آدمی ہے جسے شاید گھر کی عورتیں چاۓ بنا کر تھما دے دیتی ہیں کہ دن بھر گھر میں بیٹھنے سے تو اچھا ہے بڈھا کچھ نہ کچھ تو گھر کا خرچ نکال ہی لاۓ گا ۔
ویسے ممبئی کے ہوٹلوں سے گھر اور کارخانوں تک چاۓ بھیجنے کی رواج تو ایک زمانے سے چلی آرہی ہے لیکن ممبئی میں اب ہر جگہ تھرمس نما کیتلی میں چاۓ لیکر گھوم کر بیچنے کی یہ رسم پہلی بار اس وقت سے شروع ہوئی جب لاک ڈاؤن میں سارے ہوٹل اور بازار بند تھے ۔اب یہ رواج لاک ڈاؤن کے بعد بھی جاری ہے ۔کچھ نوجوان ہر روز صبح شام کارخانے اور دکان دکان ایک ہاتھ میں ڈسپوزل گلاس کا تھیلا اور دوسرے ہاتھ میں تھرمس لیکر پھرتے رہتے ہیں اور اپنی محنت کے حساب سے پانچ سو سے سات سو تک کما لیتے ہیں ۔ممبئی میں پچھلے دس سالوں میں خاص طور سے راجستھان کے ناگوری مسلمان چاۓ کی اس تجارت میں بہت آگے نکل چکے ہیں ۔
اس کے علاوہ کویڈ 19 کے بعد عالمی اور قومی سطح پر جو بہت سی تبدیلیاں آئی ہیں وہ آن لائن تجارت کے فروغ کا ہے ۔یعنی آپ کے پاس پیسہ اور موبائل ہے تو آپ گھر بیٹھ کر ملبوسات سے لیکر جوتے ،چپل ،کاسمیٹک ،پھل ، فروٹ ،سبزی ، برتھ ڈے کیک اور تینوں وقت کا گرم گرم کھانا بھی اپنے دروازے تک منگوا سکتے ہیں ۔
دوسری سب سے بڑی تبدیلی پرنٹ میڈیا میں آئی ہے ۔میں نے دیکھا ہے دو تہائی سے زیادہ کتابوں اور رسالوں کی دوکانیں بند ہو چکی ہیں ۔ اخبارات کے صفحات میں بھی کمی آئی ہے ۔ سائیکلوں سے لوگوں کے گھروں میں اخبار بانٹنے والے لڑکوں نے چوکیداری وغیرہ کی نوکری کر لی ۔تمام اخبارات اور رسائل آن لائن ہو چکے ہیں اور ان کی لنک وہاٹس اپ وغیرہ پر شیئر ہونے لگی ہیں اور اب مستقبل میں یہ سلسلہ آن لائن ہی چلتا رہے گا یا یوں کہہ لیں کہ یو ٹیوب چینل وغیرہ کی وجہ سے بہت سے آن لائن اخبارات اور رسائل کی اشاعت بھی بند ہو سکتی ہے ۔وقت کی قلت کی وجہ سے اب زیادہ تر لوگ اپنی پسند کے لکھنے والوں کے بلاگ یا فیس بک پیج کو ہی ترجیح دینے لگے ہیں ۔اجتماعیت پہلے سے بھی توڑی جاچکی تھی کویڈ کے بعد اس پر اور بھی برا اثر پڑا ہے ۔بہت سے اہم اجتماعات جو لوگوں کی بھیڑ اکٹھا کرکے ہوا کرتے تھے زوم میٹنگ کی شکل میں انجام دئیے جارہے ہیں ۔ویسے ہمیں احساس ہو یا نہ ہو بیسویں صدی کے بعد دنیا اور ہم بہت تیزی کے ساتھ تبدیل ہو رہے ہیں ۔
ابھی ستر اسی سال ہی ہوئے ہیں جب بیسویں صدی کے لبرل انقلاب نے انسانی معاشرے کو بدلنا شروع کیا تو اکثر مسلمانوں کے علماء و دانشور اور ان کے تاجر بھی حالات کو سمجھ نہیں سکے ۔اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ ایک طرف جہاں مغربی ٹکنالوجی نے مسلمانوں کی تجارت پر ضرب لگائی عالمی نظام کی قیادت مغرب کے سپرد ہوتے ہی بینکوں کے ذریعے سودی تجارت کے فروغ نے مسلمانوں کو کارپوریٹ تجارت سے بالکل دور کر دیا ۔اس موضوع پر میں کچھ سال پہلے لکھ چکا ہوں کہ کیسے غیر مسلم تاجروں نے بھارت سے چھوڑ کر جارہے انگریزوں کی بڑی بڑی کمپنیوں کو بینکوں کی مدد سے خرید لیا اور مسلمانوں کے تاجر جو کہ خود بھی اتنے اہل تھے کہ وہ انگریزوں کی ان کمپنیوں کو خرید سکتے تھے لیکن اسلام میں سود حرام ہونے کی وجہ سے مسلمان صنعت کاروں نے بینکوں سے اتنا ہی تعلق رکھا جتنا ان کی مجبوری تھی ۔لوگ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کی پسماندگی کی وجہ ان کا جدید تعلیم سے دور ہونا ہے جبکہ یہ بات پوری طرح سچ نہیں ہے ۔اصل مسئلہ نئے لبرل سرمایہ دارانہ عالمی نظام اور مسلمانوں کے عقیدے اور مذہب کی کشمکش کا بھی ہے جس نے نہ صرف سودی معیشت کی وجہ سے مسلمانوں کو تذبذب اور انتشار میں مبتلا کر دیا بہت سی غیر اسلامی تجارت جسے غیر مسلموں نے اپنایا جیسے کہ فلم انڈسٹری، شراب اور سگریٹ کے کارخانے ،بیئر بار ، ہوٹل ، بیوٹی پارلر اور کاسمیٹک انڈسٹری وغیرہ جیسے منافع بخش کاروبار جو کہ خالص فیشن اور تفریح سے تعلق رکھتے تھے یہاں پر مسلمانوں نے پیسہ لگانے میں کراہیت محسوس کی ۔کچھ محدود تجارت اور وہ بھی روایتی انداز نے مسلمانوں کو اور بھی پیچھے کر دیا ۔مثال کے طور پر آج بھی مئو مبارک پور بنارس علی گڑھ رام پور اور مرادآباد میں جو پرانے طرز پر مسلمان کام کر رہا ہے گجراتیوں اور سندھیوں نے اسی کام کو کارپوریٹ کی شکل میں جاپانی مشینوں سے شروع کر کے مسلمانوں کی بہت سی صنعتوں کو نہ صرف بند ہونے پر مجبور کر دیا بہت سے مسلمان مالک سے مزدور ہو گئے ۔