Site icon

کیا ہم اب بھی فراست سے محروم رہیں گے؟!

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی 

         دو روز قبل ایک ویڈیو نظر سے گزری – مقرّر نے مسلمانوں کی حالتِ زار بیان کرتے ہوئے بڑی پیاری مثال دی – اس نے کہا : موبائل کی نوکیا نامی کمپنی ، جو موبائل فون بنانے والی کمپنیز کی فہرست میں سب سے آگے تھی ، جس نے موبائل انڈسٹری پر 10 سال سے زائد عرصے تک حکومت کی تھی ، جس کا مارکیٹ میں 97.6% ہولڈ تھا ، جس کا کاروبار کبھی 50 بلین ڈالرز تھا ، بند ہوگئی اور دوسری کمپنی نے اسے صرف 7 بلین ڈالرز میں خرید لیا ۔ ایسا اس وجہ سے ہوا کہ وہ حالات سے بے خبر رہی – اسی طرح مسلمان ہیں ، جو خوش فہمی میں جیتے ہیں اور انہیں اندازہ نہیں کہ حالات کس رخ پر جارہے ہیں ۔

           آج صبح سے میرے بہت سے احباب نے مجھے وہ دو پوسٹر بھیجے ہیں جو شعبۂ مناظرہ ، دار العلوم دیوبند کے طرف سے شش ماہی اجلاس عام کے سلسلے میں جاری کیے گئے ہیں – ایک پوسٹر میں لکھا گیا ہے کہ مہتمم دار العلوم و شیخ الحدیث مفتی ابو القاسم نعمانی حفظہ اللہ اس اجلاس کے مہمان خصوصی ہوں گے اور دیگر سینیئر اساتذہ : جو تفسیر ، حدیث ، فقہ ، تجوید اور دیگر مضامین کی تدریس کرتے ہیں ، ان کی صدارت ، نگرانی ، حکمیت ، نظامت وغیرہ میں یہ اجلاس ہوگا – ان میں سے ہر ایک کے ساتھ ‘حضرت اقدس’ کا سابقہ لگایا گیا ہے – مناظرین کے دو گروپوں کے نام درج کیے گئے ہیں : ایک گروپ مودودیت کو برحق ثابت کرنے کے لیے دلائل پیش کرے گا اور دوسرا گروپ اسے گم راہ ، ضال مضل اور اہلِ سنت سے خارج کرتے ہوئے دیوبندیت کو عین اسلام ثابت کرے گا اور ظاہر ہے کہ دوسرا گروہ ہی فاتح قرار پائے گا – دوسرے پوسٹر میں پندرہ موضوعات درج کئے ہیں ، جن کے تحت مناظرہ ہوگا اور جن میں مولانا مودودی کی گم راہی ، انحراف ، اعتزال ، تجدّد ، متوارث اسلام سے بغاوت اور انبیاء و صحابہ کے بارے میں گستاخی وغیرہ ثابت کی جائے گی ۔

           یہ سب کام دار العلوم دیوبند میں ایک زمانے سے ہوتے آئے ہیں – فِرَقِ ضالّہ میں سے ایک ‘مودودیت’ کو بھی شمار کیا گیا تھا ، اس کے خلاف مناظرہ بازی کا باقاعدہ ایک شعبہ قائم کیا گیا تھا – اس پر فاضل اساتذہ کے محاضرات ہوتے تھے ، لائبریری میں تمام موافق و مخالف لٹریچر جمع کیا گیا تھا – دار الإفتاء سے وابستہ مفتیوں کے فتاویٰ جاری کیے گئے تھے ، جن میں ‘مودودیوں’ کے پیچھے نماز پڑھنے اور ان سے رشتۂ نکاح اور دوسرے تعلقات رکھنے سے منع کیا گیا تھا – ہم سمجھتے تھے کہ یہ سب ماضی کا قصہ ہے ، جسے دہرانے کی موجودہ حالات اجازت نہیں دیتے – لیکن ان پوسٹروں کو دیکھ کر حیرت اور افسوس ہورہا ہے کہ کچھ نادان حالات سے بالکل بے خبر ہیں – انہیں نہیں معلوم کہ اغیار ہمارے خلاف کیا کیا حربے اختیار کر رہے ہیں، جن کی منصوبہ بند سازش ہے کہ مسلمانوں کے مختلف طبقات ، مسالک ، گروہوں اور جماعتوں کے درمیان منافرت اور عداوت کی لہر کو تیز سے تیز تر کیا جائے ، تاکہ ایک ایک کرکے سب کا گلا گھونٹا جاسکے ۔

           دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں اپنی طالب علمی کے زمانے میں ایک بریلوی عالم کی کتاب میرے مطالعہ میں آئی تھی ، جس کا نام تھا ‘خوابوں کی بارات’ _ اس میں انھوں نے یہی شکایت کی تھی اور باقاعدہ حوالے دیے تھے کہ دیوبندی علماء جن جن باتوں کے سلسلے میں بریلویوں پر اعتراضات کرتے ہیں وہ سب باتیں خود ان کے اکابر کی کتابوں میں پائی جاتی ہیں _ یہی بات مولانا مودودی کے تعلق سے بھی کہی جا سکتی ہے _ ان کی جن باتوں کو حلقۂ دیوبند کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے ان میں سے بہت سی باتیں خود اکابرِ دیوبند کی کتابوں میں موجود ہیں _ میرے پاس ایسی بہت سی مثالیں محفوظ ہیں ، لیکن میں انہیں منظرِ عام پر لاکر جگ ہنسائی نہیں کرنا چاہتا ۔

         مولانا مودودی کو ہم معصوم عن الخطأ نہیں سمجھتے _ دوسرے علماء ان کی جن باتوں کو غلط سمجھتے ہیں ان پر خوب تنقید کریں اور امّت کے سامنے صحیح نقطۂ نظر پیش کریں –  لیکن تنقید کا انداز مثبت اور تعمیری ہونا چاہیے – کسی کی منفرد آراء کی بنا پر اسے گم راہ ، بے دین اور ضال و مضل کہنا درست رویّہ نہیں ہے – خود پاک و ہند دونوں جگہوں پر جماعت اسلامی کے علماء نے  مولانا کی بہت سی آراء سے اختلاف کیا ہے ۔

         لیکن یہ ‘مودودیت’ کیا ہے ، جس کا ابطال کرنے کے لیے مناظرہ کی مجلسیں سجائی جارہی ہیں؟ اگر حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ کے فیض یافتگان کا گروہ ‘قاسمیت’ نامی فرقہ نہیں ہے؟ اگر حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ سے محبت و عقیدت رکھنے والے ‘حسینیت’ نامی فرقہ نہیں ہیں ، تو مولانا مودودی کی دعوت پر جماعت اسلامی کے نام سے ایک دینی جماعت تشکیل دینے والوں پر ‘مودودیت’  کا لیبل کیوں چسپاں کیا جائے؟ جماعت اسلامی کی طرف سے بار بار یہ وضاحت کی جاتی رہی ہے کہ جماعت اسلامی سے وابستگی کے لیے مولانا مودودی کی ہر بات کی تائید ضروری نہیں ہے – جماعت کا دستور دیکھیے ، اس کے میقاتی منصوبے دیکھیے ، اس کی سرگرمیاں دیکھیے ، پھر اس کے وابستگان کے بارے میں کوئی حکم لگائیے ۔

           گزشتہ ماہ مجھے جناب سید سعادت اللہ حسینی امیر جماعت اسلامی ہند کے ساتھ دار العلوم دیوبند حاضری کی سعادت حاصل ہوئی تھی – اس موقع پر حضرت مولانا مفتی ابو القاسم نعمانی مہتمم دار العلوم و شیخ الحدیث اور دیگر مؤقر اساتذہ سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا تھا – اس موقع پر مہتمم صاحب کی زبانی معلوم ہوا تھا کہ کس طرح حکومت اور انتظامیہ دار العلوم کے ترقیاتی کاموں میں رکاوٹیں پیدا کررہی ہے اور دوسرے مسائل کھڑے کررہی ہے –   یہ جان کر خوشی ہوئی تھی ، جس کا اظہار بھی کیا گیا تھا کہ اللہ کے فضل اور توفیق سے مشکلات پر قابو مل رہا ہے اور رکاوٹیں دوٗر ہورہی ہیں – دار العلوم دیوبند امّت مسلمہ ہندیہ کا ایک قلعہ ہے –  اس قلعہ کا کام امّت کے تمام گروہوں کو تحفّظ فراہم کرنا ہونا چاہیے ، نہ کہ اس کی دیواروں میں شگاف ڈالنا اور قلعہ کے مکینوں کو آپس میں دست و گریباں کرنا ۔

         سیلاب میں لکڑی کا ایک تختہ کہیں سے بہہ کر آجائے تو اس پر بکری ، بندر ، خرگوش ، سانپ ، بچھو ، سب سوار ہوجاتے ہیں – اس افراتفری کے عالم میں سب سہمے ہوتے ہیں – کوئی کسی کو ڈستا ہے نہ ڈنک مارتا ہے – کیا ہم جانوروں سے بھی گئے گزرے ہیں؟!۔

       اگر طالب علم نادانی کررہے ہیں اور موجودہ حالات سے بے خبر پرانی قبریں کھود رہے اور گڑے مردے اکھاڑ رہے ہیں – تو کیا دار العلوم کے اساتذہ اور انتظامیہ میں کوئی ایسا نہیں جو انہیں سمجھا سکے اور دانش مندی کی راہ دکھا سکے – 

اَلَیسَ مِنکُم رَجُلٌ رَشِیدٌ

Exit mobile version