Slide
Slide
Slide

نیا سنسد، نئی زبان

تحریر: زین شمسی

بیچارے دانش بھائی رات بھر سو نہیں سکے۔ کیسے سوتے، کیسے نیند اتی۔ زمانہ سے عوامی خدمت گار بنے ہوئے تھے، دیش کے سب سے بڑے آئینی ادارے کے ممبر ہیں۔ سنویدھان کے اس مندر میں بیٹھتے ہیں، جس کی سیڑھیوں پر چڑھنے سے پہلے وشو کے گرو ماتھا ٹیک کر یہ پیغام دے چکے ہیں کہ بھارت کا وقار اسی سنسد کے احترام میں پوشیدہ ہے۔ اسی مندر میں انہیں کٹوا، ملا، اگروادی اور اتنکوادی جیسے غیر پارلیمانی زبان سے نوازا گیا۔ بیچارے رو ہی سکتے ہیں، کچھ کر نہیں سکتے۔ وہ کیا ان کی پوری کمیونٹی کچھ نہیں کر سکتی۔ انہیں سمجھنا چاہئے کہ یہ نیا بھارت ہے، کوئی انڈیا یا ہندوستان نہیں، جہاں تہذیب، احترام، عزت اور لحاظ کی پاسداری ہوتی تھی۔

جو ہوا وہ حیرت ناک تو بالکل نہیں ہے جو اسے حیرت انگیز سمجھ رہے ہیں انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ اسی مندر میں ایک سادھوی بھی بیٹھتی ہے جس پر اجمیر بم دھماکہ میں ملوث ہونے کا الزام ہے اور وہ خرابی صحت کے بہانے نہ صرف پیرول پر رہا ہے بلکہ سنسد کی ممبر بھی ہے۔ اسی مندر میں وہ بھی موجود ہے جس نے کھلے عام مسلمانوں کو گولی مارنے کا حکم نامہ جاری کیا تھا۔ اور ایسے نہ جانے کتنے ہیں جو ہندوستانی مسلمانوں کو غدار پکارنے کی سپاری لے چکے ہیں۔ خود ہوم منسٹر اور وشوگرو مسلمانوں کو اذیت ناک ناموں سے پکار چکے ہیں ایسے میں ودھوری کو عوام کے ذریعہ چنا ہوا سانسد کٹوا یا آتنک وادی نظر آتا ہے تو اس میں حیرت کی کیا بات ہے۔ 

نیا بھارت ہے، نئی ہوا ہے، نئی فضا ہے، پرانی سوچ پر نیا لیبل لگا ہے۔ یہ سب تو ہوتا ہی رہے گا اور کوئی یہ بھرم نہ پال لے کہ ودھوری پر کوئی کارروائی ہوگی بلکہ اس کے الٹ یہ سوچ لینا زیادہ بہتر ہوگا کہ اس کے عہدہ میں اضافہ ہوگا۔ ایسے کئی معاملہ میں مزید نوازنے کا مظاہرہ ہو چکا ہے۔

دانش کی اصل غلطی تو یہی ہے کہ وہ سانسد کیوں ہیں۔ جب حکومت والی پارٹی نے مسلم نام والے کسی شخص کو الیکشن میں ٹکٹ نہ دینے کا رواج قائم کر دیا ہے۔ 80/20کے تناسب میں ووٹ دینے کی اپیل کر دی ہے تو ان کا مان رکھنا چاہئے۔ دوسری پارٹی سے سانسد بننے اور سنسد میں منہ کھولنے کی سزا تو ملے گی ہی، سو وہ ملی۔ اب روئیے یا نیند کو ترسئیے۔ دانش صاحب جو آپ کے ساتھ ہوا وہ بھارت کے مسلمانوں  کے ساتھ روز کہیں نہ کہیں کسی مقام پر ہوتا رہتا ہے۔ اور جس کے ساتھ ہوتا ہے وہ یا تو ابدی نیند سوجاتا ہے یا پھر آپ ہی کی طرح سونے سے بھی ڈر جاتا ہے۔

اپنی رہنما مایاوتی سے کہئے کہ اگر وہ اپنے کیڈر ووٹروں کو بھی بی جے پی کو ووٹ دینے سے نہیں روک پاتی ہیں تو مذمتی بیانات کیا معنی رکھتا ہے۔ سوچئے آپ لوگ، رہنما ہیں ہم سب تو جنتا ہیں اور جنتا کا کیا، کوئی بہلا دے، کوئی پھسلادے، کوئی بہکا دے، کوئی گالی دے دے۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: