تحریر: ابوالاعلی سید سبحانی
ہندوستانی پارلیمنٹ میں ایک تکلیف دہ صورتحال سامنے آئی، بی جے پی کے ایک ایم پی ودھوڑی نے پارلیمنٹ اجلاس کے دوران بہت ہی بدتمیزی اور جہالت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بہوجن سماج پارٹی کے ایم پی کنور دانش علی کو بہت ہی گھٹیا قسم کی گالیاں دیں اور اپنے اندر کا اسلاموفوبیا بہت ہی زہریلے انداز میں باہر انڈیل دیا۔ یہ پورا واقعہ پارلیمنٹ کے وقار، ملک کی مذہبی روایات اور سماجی قدروں کے خلاف تھا۔ اس واقعہ کی ملک بھر میں مذمت ہوئی، تقریباً تمام ہی سیاسی پارٹیوں نے اس کے خلاف مذمت کا اظہار کیا، پارلیمنٹ کے ریکارڈ سے اس کو نکال دیا گیا، بی جے پی صدر کی جانب سے اس پر وجہ بتاؤ نوٹس جاری کیا گیا، پارلیمنٹ اسپیکر کی جانب سے تنبیہ کی گئی اور اس بات کا پورا پورا امکان ہے کہ دانش علی کی درخواست پر اس سلسلہ میں کارروائی بھی کی جائے گی۔
اس واقعہ کے بعد کنور دانش علی پریس کا سامنا کرتے ہوئے اس واقعہ پر رو پڑے۔ یہ واقعہ واقعی اتنا تکلیف دہ تھا کہ اس پر ایک فرد کا رو دینا بالکل فطری بات تھی۔ ہر فرد کی اپنی پوزیشن ہوتی ہے اور ہر کوئی اپنے انداز سے ردعمل ظاہر کرتا ہے۔ اویسی صاحب نے اس پر پارلیمنٹ میں جو ردعمل دیا وہ یقیناً قابل تعریف تھا اور اس سے پارلیمنٹ میں ان کی مضبوط پوزیشن کا اندازہ ہوتا ہے۔
اس واقعہ پر سوشل میڈیا پر ایکٹیو کچھ نوجوانوں کی طرف سے کچھ بہت ہی جذباتی قسم کے بیانات آنے شروع ہوگئے، “منھ توڑ جواب دینا چاہیے تھا”، “تھپڑ مار دینا چاہیے تھا”، “ایسے لوگ زبان سے نہیں سمجھتے”، وغیرہ وغیرہ۔ مجھے یہ ردعمل بالکل پسند نہیں آیا، اس کے اندر نہ معقولیت تھی، نہ سمجھداری تھی، اور نہ صورتحال کا درست تجزیہ تھا۔ اور پھر آج کے زمانے میں یہ ایک بنیادی بات ہے کہ ہاتھ اٹھانے والا کبھی بھی درست نہیں سمجھا جاتا۔ اس وقت دانش علی کو ملکی اور عالمی سطح پر جو سپورٹ مل رہا ہے، ہاتھ اٹھانے کے بعد یہ سپورٹ بالکل بھی نہیں ملتا، بلکہ اس سے دانش علی کی شبیہ خراب ہوتی اور ودھوڑی کی بکواس باتوں کو تقویت ملتی۔
اس واقعہ کی پہلی خبر دیکھتے ہی مجھے ڈاکٹر شہاب الدین مرحوم کی یاد آئی اور بہت دیر تک میں ان کے بارے میں سوچتا رہا۔ شہاب صاحب کو اللہ رب العزت نے بہت ہی رعب اور دبدبہ سے نوازا تھا۔ شہاب صاحب کے انتقال پر اویسی صاحب نے ایک واقعہ سنایا۔ کانگریس کے زمانہ کا واقعہ تھا۔ اُس وقت شہاب صاحب پارلیمنٹ کے ممبر ہوا کرتے تھے۔ اُس وقت یہ ایک عام سی بات تھی کہ کسی مسلم اشو پر کسی بھی پارٹی کے مسلم ممبران پارلیمنٹ کھل کر پارلیمنٹ میں بات رکھنا چاہتے تھے تو ان کے لیے آسان نہیں ہوتا تھا۔ اویسی صاحب کا کہنا ہے کہ ہم لوگ پارلیمنٹ میں کھل کر گفتگو کرنا چاہتے تھے تو پہلے دیکھ لیتے تھے کہ شہاب صاحب موجود ہیں یا نہیں۔ ایک بار کا واقعہ ہے کہ اویسی صاحب نے اپنی گفتگو کا آغاز کیا تو چاروں طرف سے بی جے پی اور ان کے ہم خیال ارکان پارلیمنٹ اویسی صاحب کی طرف بڑھنے لگے۔ یہ دیکھتے ہی شہاب صاحب اپنی جگہ سے اٹھے اور ہاتھ سے صرف ایک اشارہ کیا کہ تمام ہی لوگ واپس اپنی اپنی جگہ جا کر بیٹھ گئے۔
اس واقعہ سے چند باتوں کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے:
- – پارلیمنٹ ہمارے سماج کا آئینہ ہے، سماج میں مسلمانوں کی جو صورتحال ہے وہی صورتحال پارلیمنٹ میں بھی ہے۔
- – سماج میں اس وقت جس طرح زہر گھولا جارہا ہے، پارلیمنٹ میں بھی وہ زہر اپنی تمام تر خطرناکی کے ساتھ موجود ہے۔
- – سماج میں جس طرح ہر کوئی مضبوط پوزیشن کا مالک نہیں ہوتا، پارلیمنٹ میں بھی لوگوں کی الگ الگ پوزیشن ہوتی ہے۔
- – اویسی صاحب آج پارلیمنٹ میں بہت مضبوط پوزیشن رکھتے ہیں، لیکن کل ان کی پوزیشن وہ نہیں تھی جو آج ہے۔ کل ان کو بھی شہاب الدین صاحب جیسے ایک مضبوط سہارے کی ضرورت تھی۔
- – آج دانش علی پارلیمنٹ میں جس پوزیشن میں ہیں اور ان کو جس قسم کا وہاں ماحول ملا ہوا ہے اس سے وہی واقف ہیں، وہ بہتر جانتے ہوں گے کہ ان کو کب اور کس قسم کا ردعمل دینا ہے۔
غیرضروری ردعمل خود ہمارے لیے بھی نقصان دہ ہوتا ہے اور ہمارے سیاسی قائدین کے لیے بھی۔ ہمیشہ طنز وتشنیع اور منفی ردعمل کے بجائے توقف اختیار کرکے صورتحال کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
ہم نے آج تک کسی کو لیڈر نہیں بنایا۔ آج جو مسلم ممبران پارلیمنٹ میں ہیں وہ اپنی ذاتی کوششوں سے ہیں، اور ان کو اپنی پوزیشن اور اپنے حدود کا ہم سے زیادہ علم ہے۔ یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ہم کسی کو فائدہ پہنچانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں تو کم از کم نقصان پہنچانے کی پوزیشن تو نہ اختیار کریں۔