حدیثِ میلاد کا جائزہ
محمد فہیم الدین بجنوری ،خادمِ تدریس دارالعلوم دیوبند
مروجہ میلاد النبی کی وکالت کرنے والوں کو سب سے عمدہ سہارا جو ہم دست ہوا ہے وہ مسلم شریف کی صحیح الاسناد حدیث ہے، جس میں یومِ ولادت یعنی یومِ دو شنبہ کو روزہ رکھنے کا ذکر ہے، یہ حدیث غیر جانب دار قاری کو بھی اپیل کرتی ہے: "فِیْہِ وُلِدْتُ وَفِیْہِ اُنْزِلَ عَلَيَّ۔” (مسلم: 1162)
لیکن حدیث کے بارے میں صاحبِ حدیث صلی اللہ علیہ وسلم کی تلقین یہ ہے کہ حاملین وناقلین ظاہر پر تکیہ نہ کریں، سنجیدہ مضامین کی حدیثوں کو بالغ نظر اصحابِ فہم کے سامنے رکھیں اور ناقص مفہوم اٹھا کر شیخی مارنے سے قبل درایت کی درس گاہوں سے توثیق کے لیے رجوع ہوں:
"نضَّرَ اللَّهُ امرأً سمِعَ منَّا حديثًا فحفِظَهُ حتَّى يبلِّغَهُ غيرَهُ فرُبَّ حاملِ فقهٍ ليسَ بفَقيهٍ ورُبَّ حاملِ فقهٍ إلى من هوَ أفقَهُ منهُ” (الترمذي: 2656)
فقہ الحدیث کے امام حضرت شیخ الہند علیہ الرحمہ فرماتے تھے کہ باطل کا مستدل حق کی چغلی کھاتا ہے، باریک بینی جب پردہ اٹھادیتی ہے تو حق اسی عبارت میں جلوہ گر نظر آتا ہے۔
زیر بحث حدیث میلاد النبی کا سد باب ہے نہ کہ مستدل، آپ نے سائل پر واضح کردیا کہ میلاد میرا ذاتی معاملہ ہے میں تحدیث نعمت کے لیے اس دن روزہ رکھتا ہوں، چوں کہ اس کا تعلق دوسروں سے نہیں تھا؛ اسی لیے نہ تو مخاطب کو اس میں شامل کیا گیا اور نہ اس نے یہ مطلب نکالا، بات اپنے دائرے میں رہی اور صحابہ وتابعین نے اس کو دائرے ہی میں رکھا۔
حدیث کا پورا سیاق ذاتی نوعیت کا علم بردار ہے، سائل کو ایک جملے نے مطمئن کردیا، تعدیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ کے ذہن میں تھا، نہ مخاطب کے، دونوں کے نزدیک ذاتی پس منظر پر توجیہ مکمل ہوگئی، حد یہ ہے کہ دو شنبہ کے روزے کی ترغیب آپ نے مستقل دی؛ لیکن اپنی ولادت کا حوالہ نہیں دیا، نہ جزئی نہ کلی؛ جب عام دعوت دی تو وجہ کے ذیل میں فرمایا کہ اس دن اعمال کی پیشی ہوتی ہے۔
عاشوراء کا محرک بھی عظیم دن ہے؛ لیکن وہاں عمومی حکم کا اشارہ ملا تھا؛ اس لیے دائرے کو وسعت دی گئی، انفرادی رنگ سے گریز کیا گیا، منشاء وہاں بھی مذکور ہے؛ مگر حکم کی شمولیت نے اسے اجتماعی حیثیت عطاء کی ہے؛ جب کہ زیر بحث مسئلے میں اجتماعی صورت حال سے متعلق سکوت ہے اور موقعِ بیان میں سکوت اختیار کرنا، منصبِ نبوت کے منافی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک صورت حال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص دو شنبہ کو روزہ رکھتا ہے تو وہ ان کی ولادت کے بجائے یہ بات پیش نظر رکھے کہ یہ ہفتہ واری کارگزاری کا دن ہے، رب کے حضور ہماری سرگذشت بندگی کے ماحول میں پیش ہو تو عین سعادت ہے۔
اس مستدل کی تلبیس یوں بھی محتاجِ بیان نہیں کہ مروجہ میلاد کے نمائندوں کا لائحۂ عمل روزے جیسے نذرانوں کو کب جگہ دیتا ہے؟ نہ دوشنبہ کو نہ بارہ ربیع الاول کو، ان کے گلیاروں نے تو دینِ متین کے متوازی ڈھونگ رچائے ہیں۔