محمد قمر الزماں ندوی /مدرسہ نور الاسلام، کنڈہ،پرتاپگڑھ
مسلمان سب کچھ برداشت کر سکتا ہے، لیکن پیارے نبی ﷺ کی شان میں گستاخی اور بے ادبی قطعی برداشت نہیں کرسکتا، کیونکہ حضور ﷺ سے ان کو محبت اپنی ذات، اولاد، والدین اور تمام عزیز و اقارب سے ہی نہیں بلکہ پوری کائنات سے زیادہ ہوتی ہے، فرانس میں جو کچھ ہوا اور وہاں کے عیاش، حواس باختہ اور اور بے ادب و گستاخ صدر نے جو حرکت کی ہے، گستاخانہ کارٹون بنانے والے کو انعام سے نوازنے کا اعلان کیا ہے، اس سے دنیا پھر کے مسلمانوں کو شدید ٹھیس پہنچی ہے اور سخت تکلیف پہنچی ہے۔ پوری دنیا کے مسلمان غصہ میں ہیں، فرانس کے صدر کا یہ عمل ہر طرح لائق مذمت ہے، یہ اظہار رائے اور اظہار خیال کی آزادی نہیں بلکہ مغرب اور یورپ کی اسلام دشمنی، تہذیب باختگی اور اخلاقی دیوالیہ پن کی واضح دلیل ہے اور کھلی نشانی اور پہچان ہے۔
فرانس کے صدر کے بیان کو جو لوگ اظہار رائے اور اظہار خیال کی آزادی کا نام دے رہے ہیں وہ انتہائی بدتمیزی بے ادبی اور گستاخی کی بات کر رہے ہیں۔ افسوس ہے سعودی کے حکمرانوں پر اور وہاں کے زر خرید اور درباری علماء اور مفتیوں پر جو فرانس کی اب تائید کر رہے ہیں، اور اپنی دنیا و آخرت برباد کر رہے ہیں، آزادی رائے کا ہرگز مطلب یہ نہیں ہے کہ کسی مذہب کی مقدس شخصیات کی شان میں نازیبا کلمات کہے جائیں اور ان کے کارٹون بنائیں جائیں۔ یہ بالکل بے ہودہ اور ناشائستہ عمل اور غیر مہذب حرکت ہے۔پوری دنیا کے لوگوں کو اور انصاف پسند حکومت اور حکمرانوں کو ان لوگوں کی حرکت پر شدید اعتراض جتانا چاہیے اور ان کو ان کی گستاخی کی سخت سزا تجویز کرنی چاہیے تاکہ آئندہ اس کی کوئی ہمت نہ کر سکے۔۔ لیکن ہمیں اپنوں سے بھی شکایت ہے، محبت رسول ﷺ کا یہ دعویٰ ہمارا کتنا صحیح اور درست ہے اس کا بھی ہمیں محاسبہ کرنا ہوگا، کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم اپنے دعویٰ میں غلط ہوں اور ہمارا یہ عشق نبی اور محبت رسول ﷺ کا دعویٰ صرف ظاہری اور زبانی ہو اس کا حقیقت سے تعلق نہ ہو۔
دار العلوم دیوبند میں اپنی طالب علمی کے احوال لکھتے ہوئے مولانا سید مناظر احسن گیلانی رح اپنے استاد حضرت شیخ الھند مولانا محمود حسن دیوبندی رح کا ایک واقعہ یوں سناتے ہیں، بخاری شریف کا درس ہو رہا تھا۔ مشہور حدیث گزری کہ تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک اس کے مال، بال بچے اور سارے انسانوں سے زیادہ میں اس کے لیے محبوب نہ ہو جاوں۔ فقیر نے عرض کیا : بحمد اللہ عام مسلمان بھی سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق محبت کی اس دولت سے سرفراز ہیں، جس کی دلیل یہ ہے کہ ماں باپ کی توہین کو تو ایک حد تک مسلمان برداشت کر لیتا ہے- لیکن رسالتمآب صلی اللہ علیہ وسلم کی ہلکی سی سبکی اور بے عزتی بھی مسلمانوں کو اس حد تک مشتعل کر دیتی ہے کہ ہوش و حواس کھو بیٹھتے ہیں۔ آیے دن کا مشاہدہ ہے کہ جان پر لوگ کھیل گئے۔یہ سن کر حضرت نے فرمایا : ہوتا تو بے شک یہی ہے جو تم نے کہا۔ لیکن کیوں ہوتا ہے؟ تہ تک تمہاری نظر نہیں پہنچی۔۔ محبت کا تقاضا یہ ہے کہ محبوب کی ہر مرضی کے آگے ہر چیز قربان کی جائے، لیکن عام مسلمانوں کا جو برتاؤ آنحضرتﷺ کی مرضی کے ساتھ ہے، وہ بھی تمہارے سامنے ہے، پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے کیا چاہا اور ہم کیا کر رہے ہیں؟ اس سے کون ناواقف ہے، پھر سبکی اور بے عزتی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جو مسلمانوں کے لیے ناقابل برداشت بن جاتی ہے، اس کی وجہ محبت تو نہیں ہوسکتی۔۔۔۔ خاکسار نے عرض کیا : تو آپ ہی فرمائیں، اس کی صحیح وجہ کیا ہے؟ نفسیات کے اس مبصر حاذق نے فرمایا کہ سوچو گے تو درحقیقت آنحضرتﷺ کی سبکی اور بے عزتی میں اپنی سبکی اور بے عزتی کا غیر شعوری احساس پوشیدہ ہوتا ہے۔
مسلمانوں کی خودی اور انا مجروح ہوتی ہے، ہم جسے اپنا پیغمبر اور رسول مانتے ہیں تم ان کی اہانت نہیں کر سکتے۔ چوٹ درحقیقت اپنی اسی انا پر پڑتی ہے۔۔۔۔ لیکن مغالطہ ہوتا ہے کہ پیغمبر کی محبت نے انتقام پر آمادہ کیا ہے۔ نفس کا یہ دھوکہ ہے۔محبوب کی مرضی کی جسے پرواہ نہ ہو، اذان ہو رہی ہے اور لا یعنی اور لا حاصل گپوں سے بھی جو اپنے کو جدا کرکے موذن کی پکار پر نہیں ڈرتا، اسے انصاف سے کام لینا چاہیے کہ محبت کا دعویٰ اس کے منھ پر کس حد تک پھبتا اور جچتا ہے۔۔ ( احاطہ دار العلوم میں بیتے دن از مولانا سید مناظر احسن گیلانی رح صفحہ ۱۵۳/ ۱۵۴ )
شیخ الھند مولانا محمود حسن دیوبندی رح نے محبت رسول ﷺ کی حقیقت اور اس کے دعوے کو بہت دلنشیں انداز میں سمجھا دیا ہے۔ اور مذکورہ حدیث کے مفہوم کو بھی اچھی طرح واضح فرما دیا ہے۔۔ کہ محبت رسول ﷺ اصل تقاضا کیا ہے؟ لیکن اوپر کی اس حدیث سے سے یہ نتیجہ نکالنا درست نہیں ہوگا کہ شاتم رسول اور گستاخ نبی سے صرف وہی بدلہ لے سکتا جو محبت رسول کے معیار پر کھرا اترتا ہو ، بلکہ گستاخ رسول اور شاتم رسول سے بدلہ لینے کا حق اور اس کو کیفر کردار تک پہنچانے کی ذمہ داری ہر امتی پر ہے۔
بادشاہ ہارون رشید نے ایک موقع پر حضرت امام مالک رح سے کہا : اگر دنیا میں کسی جگہ حضور ﷺ کی گستاخی ہوجائے تو آقا ﷺ کی امت کی کیا ذمہ داری ہے؟۔
فرمایا: امت مسلمہ اس سے بدلہ لے۔ پوچھا اگر ایسا نہ کرے تو پھر؟
امام مالک ؒ نے تاریخی جملہ کہا جو آب زر سے لکھنے کے قابل ہے۔
آپ نے فرمایا: پھر حضور ﷺ کی ساری امت مرجائے۔۔ اس کو جینے کا بھی کوئی حق نہیں نہیں۔۔۔۔۔۔ ( بحوالہ انسانی عظمت کے تابندہ نقوش)
اللہ تعالیٰ محبت رسول کے صحیح مفہوم کو سمجھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے آمین۔
فرانس کے صدر نے جو گستاخانہ حرکت کی ہے، ہم اس کی صرف مذمت ہی نہیں کرتے، بلکہ وہاں کی مصنوعات کا بائیکاٹ خود بھی کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین کرتے ہیں۔ اور کسی حکمران کی طرف سے ایسی شر انگیز حرکتوں کی تائید کرنے والے کی بھی مذمت کرتے ہیں، کیونکہ یہ بدترین جرم ہے اور بداخلاقی اور بدتمیزی کی آخری حد ہے۔۔ اس سے دنیا کا امن متاثر ہوگا، فساد کی فضا بنے گی، فرانس کی حکومت اور ناعاقبت اندیش صدر نے دنیا کی دوسری سب سے بڑی آبادی کو اذیت دینے کا عمل کیا ہے جو ناقابل معافی جرم ہے۔ عرب کے ان حکمرانوں کو بھی اپنا محاسبہ کرنا چاہیے جو اب بھی فرانس کی تائید و حمایت کر رہے ہیں اور ان کی باتوں کی بلا وجہ تاویل کرکے اپنی عاقبت برباد کر رہے ہیں ۔