از ـ محمود احمد خاں دریابادی
آجکل عالمی طور پر فلسطین واسرائیل کا موضوع گرم ہے، فی الحال لوگ اسی موضوع پر بات کرنا اور پڑھنا پسند کرتے ہیں، بے شک ملت اسلامیہ کے لئے فلسطین واقصیٰ کا مسئلہ انتہائی اہم ہے ـ فلسطین اسرائیل قضیئے کی تمام تر اہمیت سمجھنے کے باوجود ہمیں لگتا ہے کہ اس وقت بابری مسجد اور اس کے بعد کی صورت حال پر گفتگو کرنا بھی قومی غیرت کا تقاضا ہے، ………… اس اجمال کی تفصیل یہ ہے ۔
1528ء میں بابری مسجد کی تعمیر کے بعد سے تقریبا ساڑھے چارسو سال تک وہاں پنج وقتہ نمازیں ہوتی رہیں، اس کے امام اور موذن حکومت کے محمکہ اوقاف کی جانب سے متعین ہوتے رہے،انھیں تنخواہیں دی جاتی تھیں ـ صدیوں بعد وہاں شرپسندوں نے جھگڑا کھڑا کیا، جس کی وجہ سے پورے ملک میں سورش ہوئی، بابری مسجد شہید ہوئی، فسادات ہوئے، سینکڑوں مسلمان قربان ہوئے، اُن کی کڑوڑوں کی املاک کو برباد کردیا گیا، ہزاروں نے جیل کاٹی، …….. ایک دن اچانک مقامی عدالت نے وہاں پر ہندووں کو پوجا کی اجازت دیدی، مسلمانوں کے داخلہ پر تو پہلےہی پابندی لگ چکی تھی ـ طویل عرصےتک مقدمات کا دور چلا، اس دوران ملک بھر میں فرقہ پرستی کا برہنہ رقص جاری رہا، جابجا خون مسلم سے دیش کی دھرتی سیراب ہوتی رہی، مسلمان انصاف کی تلاش میں در در بھٹکتے ہوئے سپریم کورٹ تک بھی پہونچے، عرصہ تک وہاں بھی ٹال مٹول ہوتی رہی، مسلمانوں نے ہرچگہ مضبوطی سے اپنا موقف پیش کیا، ثبوت اور کاغذات دکھائے، ……… ملک میں مسلمانوں کی حالت زار،غربت اور مظلومی کو دیکھتے ہوئے مسلم ارباب حل وعقد کو مجبورا یہ کہنا پڑا کہ ہم عدالت عالیہ کے فیصلے کے بعد اپنے احتجاج کو ختم کردیں گے، ظاہر ہے شرعی طور پر انسان اپنی طاقت سے زیادہ کام کرنے کا مکلف بھی نہیں ہےـ ………. لیکن عدالت کے فیصلے کو ماننے کا مطلب یہ قطعی نہیں تھا کہ اگر فیصلہ شرعی مسئلہ کے خلاف آیا توہم نعوذباللہ شریعت کے مسئلے کو ہی بدل دیں گے ۔
چنانچہ سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد مسلم پرسنل لاء بورڈ سمیت اُن تمام تنظیموں نے جو بابری مسجد کی بازیابی کے لئے سرگرم تھیں یہی بیان دیا کہ شرعی مسجد ایک بار جہاں قائم ہوجاتی ہے وہ قیامت تک مسجد ہی رہتی ہے، اُس میں کوئی تبدیلی نہیں کی جاسکتی، نہ اس کی جگہ کا تبادلہ کیا جاسکتا ہے، نہ فروخت کیا جاسکتا ہے ۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ سب کو یاد ہوگا، فیصلہ کیاتھا بس یہ سمجھ لیجئے ظلم وجبر کو قانونی زبان دیدی گئی تھی، …………. مسلمانوں نے جو موقف رکھا، جو ثبوت پیش کئے عدالت نےسب کو تسلیم کیا، نچلی عدالتوں کی کوتاہیوں کو بھی مانا، یہ بھی کہا کہ یہاں کوئی مندر نہیں تھا اس لئےمندر ٹوٹنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا، مگر …………… ایک دیہاتی کہاوت ہے کہ ” پنجوں کی سب باتیں سرآنکھوں پر لیکن پرنالہ تو وہیں گرے گا “ اسی طرح سارے ثبوت سارے گواہ اپنی جگہ مگر مندر اگر بنے گا تو وہیں بنے گا ۔
ہاں مسلمان اگر چاہیں تو شہر کے باہر اپنی مسجد بنا سکتے ہیں اس کے لئے پانچ ایکڑ زمین الاٹ کردی گئی ـ لیجئے قصہ ختم ـ
گویا مسلمانوں کی برسوں کی جدوجہد، قانونی لڑائی، لاکھوں کا صرفہ، اور ہزاروں جانوں کی قربانی کا صلہ کیا ٹہرا؟ فقط پانچ ایکڑ زمین ! …………. اگر یہی کرناتھا تو برسوں پہلے بھی ہوسکتا تھا، جب بابری مسجد حیات تھی اورایڈوانی جی کی رتھ یاترا چل رہی تھی تو وہ اپنی تقریروں میں بار بار یہی کہتے تھے کہ آجکل ایسی سائنسی سہولتیں آگئی ہیں کہ بابری ڈھانچے ( مسجد) کو مکمل اٹھاکر اجودھیا سے دور رکھا جاسکتا ہے، ہم اس کے پورے اخراجات اُٹھانے کے لئے تیار ہیں، اپنی ذمہ داری پر پورے انتظامات کردیں گے ۔
چنانچہ جب سپریم کورٹ نے بابری مسجد کے بدلے میں مسلمانوں کو پانچ ایکڑ زمین دینے کا فیصلہ سنایا تو کسی مسلم تنظیم جو اس جدجہد میں باقاعدہ شریک تھی، یا نہیں بھی تھی، نیز کسی معتبر مسلم شخصیت نے بابری مسجد بدلے زمین قبول کرنے پر ہامی نہیں بھری ـ ………. کیسے ہامی بھرتے،مسجد کی زمین کے بدلے میں نقد یا دوسری زمین حاصل کرنے کا مطلب مسجد کو فروخت کرنا ہوا، وہ بھی نعوذباللہ بتکتدہ بنانے کے لئے!! ………. کیا مسلمانوں کی مذہبی حمیت اور غیرت بالکل ہی ختم ہوچکی ہے ؟ ………… سب جانتے ہیں حالات یکساں نہیں رہتے، طاقت کا توازن بدلتا رہتا ہے، معاوضہ قبول کرنے کا مطلب یہ بھی تو ہوگا کہ آئندہ حالات درست ہونے پر ہمارے پاس سے دوبارہ مسجد کے مطالبے کا اخلاقی اور قانونی حق بھی جاتا رہے گا۔
مزے کی بات یہ کہ ملک کی غیر مسلم اکثریت جو مسلمانوں کی مذہبی جذبات سے واقف ہے کو بھی یہ یقین تھا کہ مسلمان حالات کے پیش نظر مسجد کے حصول کی سرگرم جدوجہد کو روک تو سکتے ہیں مگر اس کے معاوضے میں پانچ ایکڑ زمیں شاید ہی قبول کریں ـ …………. اس بات کا ثبوت یہ کہ بابری مسجد کے فیصلے کے ٹھیک دوسرے دن ملک میں امن وامان کی صورت حال کا جائزہ لینے کے لئے مرکز میں نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر ڈوبھال صاحب نے ملک بھر کے ہندو مسلم مذہبی رہنماوں کو اپنے گھر دہلی میں جمع کیا، اس میٹنگ میں ہماری بھی شرکت ہوئی ( وہاں کیا ہوا، ہم نے کیا بات کی اس سلسلے کی تفصیل ہم اپنے ایک مضمون میں لکھ چکے ہیں)، اس میٹنگ پہونچنے سے پہلے عام طور پر یہ خیال تھا کہ شاید اس میٹنگ میں پانچ ایکڑ زمین پر بات ہو اور مسلمانوں سے اس آراضی کو قبول کرنے کا اصرار کیا جائے ـ ……….. ہم ذاتی طور پر وہاں اس پیشکش کو کیسے مسترد کیا جائے اس گفتگو کا پورا منطقی خاکہ ذہن میں ترتیب دے کر گئے تھے ـ وہاں پر کئی معاملات پر گفتگو ہوئی، ڈوبھال صاحب و دیگر ہندو شرکاءاور سادھووں نے بھی اظہار خیال کیا مگر کسی نے پانچ ایکڑ زمین کی بات نہیں نکالی، شاید بعض مسلم نمائندوں کا رخ دیکھ کر انھیں یہ بات کرنے کی ہمت نہیں ہوسکی ـ ……………. مگر جب ہم میٹنگ سے باہر نکلے تو میڈیا کا جماوڑا تھا، اتفاق سے دوسرے شرکاء تصویر کشی، اور ایک دوسرے سے بغل گیر ہوکر بھائی چارہ بڑھانے میں لگ گئے، ہماری فلائیٹ کاوقت تھا اس لئے جلدی نکلنا پڑا، تو سب سے پہلے وہاں موجود تمام زنانہ و مردانہ میڈیا نے ہمیں کو تختہ مشق بنایا اور پہلا سوال یہی کیا کہ یہاں پانچ ایکڑ زمین کے بارے میں کیا بات ہوئی، کیا آپ لوگ قبول کریں گے ؟ کب کریں گے ؟کیوں نہیں کریں گے؟ وغیرہ وغیرہ ـ بہر حال ہم نے مختصر مختصر دو دو جملوں میں جواب دئے اور فلائیٹ کی دہائی دے کر کسی طرح پیچھا چھڑایا ـ بات میں پتہ چلا باہر نکلنے والے ہر مہمان کے ساتھ یہی سب ہوا ـ
ویسے شروع ہی سے ہمارا خیال یہ تھا کہ کوئی معتبر تنظیم یا ذمہ دار مسلم شخصیت اپنی قومی غیرت و حمیت کو تیاگ کر مسجد کے معاوضہ میں ملی اس زمین کو نہیں اپنائے گی، ہاں سنگھ پریوار کی کوئی خانہ ساز جماعت، یا اقتدار کے گلیاروں ناکام و مراد چپّلیں چٹخانے والے کچھ مفاد پرست افراد ضرور یہاں اپنی قسمت آزما سکتے ہیں، کیونکہ ان کی غیرت و حمیت سنگھ پریوار کے پاس پہلے ہی گروی رکھی یوئی ہے ـ چنانچہ یہی ہوا کچھ لوگ جو سیاسی عزائم رکھے ہیں اور اقتدار کی چوکھٹ پر پہونچنے کے لئے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں ـ انھوں نے اس زمین کو حاصل کرنے کے لئے کوششیں شروع کردیں، ایک کمیٹی بنائی، صدر، سکریٹری بنے اور ۱۲ اکتوبر کو ممبئی میں ایک پروگرام کیا، اس میں یوپی وقف بورڈ کے سی ای او کو بھی بلوایا ـ اخبارات کے مطابق مسجد میں لگنے والی ایک اینٹ کی نقاب کشائی ہوئی، بتایا گیا کہ کچھ صوفی صافی قسم کے لوگ بھی شریک ہوئے، ہار پھول پہنے پہنائے گئے، تقریریں ہوئیں، بتایا گیا کہ یوپی کی یوگی حکومت مسلمانوں کے لئے وہاں پر میڈیکل کالج وغیرہ بھی بنوا کر دینے کو تیار ہے، ( ہے نا تعجب کی بات) بس مسلمانوں کو یہ کرنا ہے کہ چھ ایکڑ زمیں اور خرید لیں،اس کے لئے عوامی چندہ بھی ہوگا ۔
فی الحال کے لئے یہ اعلان ہوا کہ وہ نقاب اتاری ہوئی اینٹ، ہندوستان بھر کی صوفیوں کے دربار اور درگاہوں سے ہوتی ہوئی اجودھیا پہونچے گی اور جب مسجد تعمیر ہوگی وہاں لگادی جائے گی ـ ………… خیر ان سب باتوں پر ہمیں کوئی تعجب نہیں ہوا، یہ سب تو متوقع تھا ہی! ………… ہمیں تعجب اور افسوس اس بات پر ہے اور اسی وجہ سے یہ مضمون لکھا جارہا ہے کہ اس پروگرام میں کچھ ہماری جماعت کے بزرگ بھی شریک ہوئے ـ سمجھ میں نہیں آتا کہ ان حضرات کو اپنا آلہ کار بننے پر کس نے مجبور کیا؟ ………. اگر ہمیں زمین خرید کر میڈیکل کالج وغیرہ بنانا ہی ہے تو کیا ضروری ہے کہ ہم اسی جگہ پر بنائیں ـ ویسے اس سے پہلے ملت کے چندے سے بننے والے بعض میڈیکل کالجوں کے بانیان کی تجوریاں آجکل کیسے بھر رہی ہیں ہم خوب جانتے ہیں ۔
ایک بات اور واضح کردینا مناسب ہے کہ اگر ہماری کوئی جماعت، یا کوئی ذمہ دار شخصیت وزیر اعظم، وزیر اعلی یا اقتدار پر فائز کسی مرکزی یا ریاستی شخصیت سے ملاقاتیں کرتے ہیں ہم اس کو غلط نہیں سمجھتے، ظاہر ہے ہم اپنے مسائل اپنے ملک کے ذمہ داران وزراء وغیرہ کے پاس لے کر نہیں جائیں گے تو کہاں لے جائینگے ـ وزراء یا حکومتی ذمہ داران ہماری داد رسی کریں یا نہ کریں جب تک وہ اقتدار میں ہیں اُن کے پاس اپنے معاملات لے جانا ہماری مجبوری ہے ـ …………. لیکن مفاد پرست، بدنام، ناکام ونامراد سیاسی عزائم رکھنے والوں کے پروگرام میں شرکت کرکے اُنھیں ملت میں اعتبار عطا کرنے میں کیا مجبوری اورمصلحت ہوسکتی ہے یہ سمجھ میں نہیں آتا ـ ………… ہاں اس سے ہمارے اُن بزرگوں کا اعتبار ضرور خطرے میں ضرور پڑ سکتا ہے ۔
آخر میں ایک بات اور! بابری مسجد کے معاوضے میں ملنے والی زمین پر جو عمارت بنے گی اُس کا نام ” محمد بن عبداللہ مسجد” رکھا جائے گا ۔ یہ نام سن کر ہماری جو کیفیت ہوئی ہے ہم اس کا اظہار الفاظ میں نہیں کرسکتے ـ اللہ اللہ اب یہ زمانہ آگیاکہ جو ذات سارے عالم سے بتکدوں کو نابود کرنے کے لئے مبعوث ہوئی تھی نیز وہ عمارت جس کو صدیوں تک فرزاندان توحید نے خدائے وحدہ لاشریک کے لئے سجدے کرکے آباد کررکھا تھا، اب آئندہ وہ شرک کی آماجگاہ بن جائے گی اور اس کے معاوضے میں ملی ہوئی زمین پر بنی عمارت کو محمد بن عبداللہ مسجد کہنا پڑے گا ـ استغفراللہ!