محمد قمر الزماں ندوی /مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ
اگر انسان کو پر مسرت، پرلطف، پر بہار اور پرسکون ازدواجی زندگی نصیب ہوجائے اور اس میں آپس میں تخلیاں نہ آئیں اور آپس میں کشیدگی اور کشاکش پیدا نہ ہو اور ہمیشہ الفت و محبت کی یہ باد بہاری چلتی رہے، تو یہ سمجھئے کہ یہ بہت بڑا خدائی انعام ہے اور بہت بڑی سعادت مندی اور کامیابی ہے ۔ اسی لئے حدیث میں نیک بیوی ،نیک پڑوسی اچھی سواری کشادہ و پرسکون مکان اور وطن اور قرب میں حلال روزی کا نظم ہو جانا سعادت مندی اور کامیابی و سرفرازی کی علامت قرار دیا گیا ہے ۔۔
یہ حقیقت ہے کہ حق تعالیٰ کی جہاں بے شمار نشانیاں ہیں ،اس کی ایک بڑی نشانی ہے کہ اس نے نوع انسانی کو ایک شخص سے پیدا کیا اور اسی میں اس کا جوڑا بھی بنا دیا ۔مرد کو عورت کی خواہش اور عورت کو مرد کی جانب میلان ایک فطری بات ہے ۔حق تعالیٰ نے اس فطری خواہش اور ضرورت کو پورا کرنے کے لئے نکاح کو ذریعہ بنایا تاکہ انسان حیوانات کی طرح اس فطری خواہش کو آزادانہ پورا نہ کرے ۔بلکہ نکاح کے بعد صحیح طریقہ پر یہ فطری خواہش تکمیل کو پہنچے ۔ دو اجنبی مرد و عورت کے درمیان نکاح کے ذریعہ بڑا نازک محبت کا رشتہ پیدا ہوتا ہے ۔۔یہ ایک ایسا معاہدہ اور پیکٹ ہے جسے توڑنا خدا کو ناراض کرتا ہے ۔
ایک اجنبی مرد و عورت کا یہ مضبوط معاہدہ صرف انسانی خواہشات ہی پورا کرنے کے لئے نہیں ہے، بلکہ اس کا مقصد زندگی کا سکون اور دل کی راحت حاصل کرنا ہے ۔ سورہ روم میں اس جانب اشارہ کیا گیا ہے کہ اور یہ بھی اللہ کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تم سے ہی تمہارا جوڑا بنادیا تاکہ تم اس سے سکون حاصل کر سکو ۔(سورہ روم ۔ 21)
اور دوسری جگہ ہے ،،اور اللہ تعالیٰ نے تمہارے درمیان الفت و محبت پیدا کردی ۔(سورہ روم آیت 21)
اس محبت کے رشتہ کا نتیجہ یہ ہے کہ بیوی شوہر کے لئے پردہ پوش اور شوہر بیوی کے لئے ،اور دونوں ایک دوسرے سے اس قدر قریب جیسے لباس انسان کے بدن سے ملا ہوا ہے اور پردہ پوشی کرتا ہے ۔۔اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اچھی بیوی کو دنیا کی سب سے بڑی نعمت اور سب سے اونچی پونجی قرار دیا ۔غرض نکاح کا مقصد صرف میاں بیوی کی خواہشات کی باہم تکمیل ہی نہیں ہے، بلکہ یہ تعلق محبت و مودت الفت و شفقت کی ایک مضبوط بنیاد اور ستون بھی ہے ۔
ازدواجی زندگی میں تلخیاں بھی آتی ہیں، مشکلات بھی آتے ہیں،کبھی کبھی ہم آہنگی اور مزاج نہ ملنے کی وجہ سے بھی دوریاں پیدا ہوجاتی ہیں ،یا مناسبت میں کمی پیدا ہوجاتی ہے ۔ اس کے باوجود میاں بیوی ایک دوسرے کے حقوق کو ادا کرتے ہیں ۔۔ دنیا میں بہت سی عظیم ہستیوں کے ساتھ بھی اس طرح حالات و واقعات پیش آئے اور ان کو اس کا سابقہ پڑا ، لیکن اس تلخی اور ناخوشگواری کی وجہ سے ان کے علمی اور عملی کاموں میں کوئی رکاوٹ اور دشواری پیدا نہیں ہوئی ۔ بلکہ وہ علمی ،ملی ،قومی اور سماجی کاموں میں پیش پیش رہے ۔ چونکہ سیرت و سوانح کا مطالعہ راقم الحروف کا پسندیدہ اور محبوب مشغلہ ہے ،اس لئے ایسی بہت سی شخصیات کی ازدواجی زندگی کی کہانی میری ڈائری میں محفوظ ہے ۔
آج کے پیغام میں، ہم علامہ اقبال کی ازدواجی زندگی کے حوالے ایک تحریر قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں، یہ آپ کی پہلی شریک حیات تھیں ۔
1893ء میں اقبال کی کریم بی کے ساتھ شادی رواج کے مطابق ان کے بزرگوں نے طے کی تھی اور ان کی اپنی بعد کی تحریروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ شادی پر رضامند نہ تھے، مگر چونکہ سولہ برس کی عمر کے لڑکے تھے اس لیے احترام کے پیشِ نظر انہیں اپنے بزرگوں کے سامنے دم مارنے کی ہمت نہ ہوئی۔
شادی کے پہلے دو سال سیالکوٹ میں گزارے۔ اس دوران میں انہوں نے ایف۔اے کا امتحان پاس کیا اور مزید تعلیم کی تحصیل کی خاطر 1895ء میں لاہور آگئے۔لاہور میں چار سال کواڈرینگل ہوسٹل میں گزارے۔ کریم بی ہوسٹل میں ان کے ساتھ تو نہ رہ سکتی تھیں، اس لیے وہ بیشتر وقت اپنے والدین کے ساتھ یا اپنے میکے گجرات میں بسر کرتی تھیں اور بعض اوقات چند ماہ کے لیے سیالکوٹ آجاتیں۔
اقبال گرمیوں کی چھٹیاں عموماً سیالکوٹ میں اپنے والدین کے ساتھ گزارتے اور کبھی کبھار چند ہفتوں کے لیے اپنے سسرال گجرات چلے جاتے۔ اس دوران وہ دو بچوں کے باپ بن چکے تھے۔ معراج بیگم 1896ء میں پیدا ہوئیں اور آفتاب اقبال 1898ء میں۔
1900ء سے لے کر 1905ء تک کی پانچ سالہ ملازمت کے دوران جب اقبال بھاٹی دروازے والے مکان میں رہائش پذیر تھے، کریم بی نے ان کے ساتھ مکان میں قیام نہ کیا۔ نذیر نیازی کی رائے میں کریم بی سے کشیدگی کی ابتدا انہی ایام میں ہوگئی تھی۔ 1905ء سے لے کر 1908ء تک کے تین سال اقبال نے یورپ میں گزارے۔ ان کی واپسی پر معراج بیگم بارہ برس کی اور آفتاب اقبال دس برس کے تھے۔
نذیر نیازی تحریر کرتے ہیں :
یورپ سے واپسی کے بعد اگرچہ وہ (کریم بی) احیاً نا لاہور آتیں، محمد اقبال ان کا بڑا خیال رکھتے، مگر ایک دوسرے سے کشیدگی بڑھتی چلی گئی۔ تا آنکہ باپ اور بھائی کی کوششوں کے باوجود علیحدگی کی نوبت آگئی۔
یہ زمانہ محمد اقبال کے لیے بڑے اضطراب کا تھا۔ بغیر طلاق کے چارہ نہ رہا۔ لیکن والدہ آفتاب کی عزتِ نفس نے گوارا نہ کیا محمد اقبال کفالت کے ذمے دار ٹھہرے ۔ فرمایا شرعاً میرے سامنے دو ہی راستے تھے، طلاق یا کفاف کی ذمہ داری۔ والدہ آفتاب طلاق پر راضی نہ ہوئیں۔میں نے بخوشی کفاف کی ذمہ داری قبول کی۔
چنانچہ ایک مقررہ رقم ہر مہینے بھیج دیتے۔ حتیٰ کہ آخری علالت کے دوران میں بھی یہ رقم باقاعدہ روانہ کی جاتی۔ پھر جب علالت نے طول کھینچا اور مالی دشواریاں بڑھیں تو اس میں تخفیف کرنا پڑی، لیکن رقم کی ترسیل میں کوئی فرق نہ آیا۔ آخری منی آرڈر میرے ہاتھوں سے ہوا، میں نے تعمیل ارشاد کردی۔
اس سلسلے میں اقبال کی جو ذہنی کیفیت تھی وہ عطیہ فیضی کے نام ان کے خط محررہ 9 اپریل 1909ء سے ظاہر ہے۔ لکھتے ہیں :
میں کوئی ملازمت نہیں کرنا چاہتا۔ میری خواہش یہ ہے کہ جلد سے جلد اس ملک سے بھاگ جاؤں۔ اس کی وجہ آپ کو معلوم ہے، میں اپنے بھائی کا ایک قسم کا اخلاقی قرضدار ہوں اور صرف اسی چیز نے مجھے روک رکھا ہے۔ میری زندگی نہایت مصیبت ناک ہے۔ یہ لوگ میری بیوی کو زبردستی مجھ پر منڈھ دینا چاہتے ہیں۔ میں نے اپنے والد کو لکھ دیا ہے کہ انہیں میری شادی کردینے کا کوئی حق نہ تھا، بالخصوص جب کہ میں نے اس قسم کے تعلق میں پڑنے سے انکار کردیا تھا۔ میں اس کی کفالت کرنے پر آمادہ ہوں، لیکن اسے اپنے پاس رکھ کر اپنی زندگی کو عذاب بنانے کو ہرگز تیار نہیں۔ ایک انسان ہونے کی حیثیت سے مجھے مسرت کے حصول کا حق ہے۔ اگر معاشرہ یا فطرت وہ حق مجھے دینے سے انکاری ہیں تو میں دونوں کے خلاف بغاوت کروں گا۔ میرے لیے صرف ایک ہی چارہ ہے کہ میں اس بدبخت ملک کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ دوں یا مے خواری میں پناہ ڈھونڈوں، جس سے خودکشی آسان ہوجاتی ہے۔کتابوں کی یہ بے جان اور بنجر اوراق مسرت نہیں دے سکتے اور میری روح کے اندر اس قدر آگ بھری ہوئی ہے کہ میں ان کتابوں کو اور ان کے ساتھ ہی معاشرتی رسوم و روایات کو بھی جلا کر خاکستر بناسکتا ہوں۔ آپ کہیں گی کہ ایک اچھے خدا نے یہ سب کچھ تخلیق کیا ہے، ممکن ہے ایسا ہی ہو، مگر اس زندگی کے تلخ حقائق کسی اور ہی نتیجے کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔ ذہنی طور پر ایک اچھے خدا کی بجائے کسی قادر مطلق شیطان پر یقین لے آنا زیادہ آسان ہے۔ مہربانی کرکے ایسے خیالات کے اظہار کے لیے مجھے معاف کیجیے گا۔ میں ہمدردی کا خواستگار نہیں ہوں۔ میں تو صرف اپنی روح کا بوجھ اتارنا چاہتا تھا۔
اقبال کی اس شادی کی ناکامی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ ان کے دونوں بچے شفقت پدری سے محروم رہ گئے۔ ایسی صورت میں بچوں کی ہمدردیاں عموماً ماں کے ساتھ ہوتی ہیں۔ معراج بیگم اور آفتاب اقبال کے بچپن اور جوانی کا بیشتر زمانہ ماں کے ساتھ ننھیال میں گزرا۔ جب دونوں کچھ بڑے ہوگئے تو دادا اور دادی کے پاس سیالکوٹ میں رہنے لگے۔ باپ کے ساتھ تو ان کی ملاقات شاذ و نادر ہی ہوتی تھی۔ اس کے باوجود اقبال معراج بیگم(بیٹی) سے بڑی محبت کرتے تھے۔ معراج بیگم(بیٹی) ماں باپ کے تعلقات میں کشیدگی پر اندر ہی اندر کڑھتی رہتیں، لیکن کیا کرسکتی تھیں، بے بس تھیں۔ انہیں جوانی ہی میں خنازیر کا مرض لاحق ہوا، اور انیس برس کی عمر میں 17 اکتوبر 1915ء کو وفات پاگئیں۔
آفتاب اقبال اپنے دادا کے منظور نظر تھے۔ ان کا نام بھی شیخ نور محمد ہی نے رکھا تھا۔لیکن شفقت پدری کی عدم موجودگی میں اپنے تایا کی سخت طبیعت کو انہوں نے کبھی قبول نہ کیا۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا، آفتاب اقبال کے دل میں یہ بات ہمیشہ کے لیے بیٹھ گئی کہ ان کی ماں کے ساتھ باپ نے نا انصافی کی ہے۔ نتیجتاً باپ بیٹے کے اختلافات بڑھتے چلے گئے۔ اقبال کے بعض احباب کی کوششوں کے باوجود ان کی آپس کی غلط فہمیاں دور نہ ہوسکیں، تا آنکہ اقبال کی زندگی ہی میں باپ بیٹے میں قطع تعلقی ہوگئی۔ حوالہ کتاب : "زندہ رُود” از : "ڈاکٹر جاوید اقبال”ص : 199..200..201