Site icon

رواداری

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ

جس ملک میں مختلف مذاہب، تہذیب وثقافت اور کلچر کے لوگ بستے ہوں، وہاں دوسرے مذہب کے ماننے والوں کے درمیان بقاء باہم کے اصول کے تحت ایک دوسرے کا اکرام واحترام ضروری ہے، مسلمان اس رواداری میں کہاں تک جا سکتا ہے اور کس قدر اسے برت سکتا ہے، یہ وہ سوال ہے جو ملک میں عدم رواداری کے بڑھتے ماحول میں لوگوں کے ذہنوں میں پیدا ہوتا ہے، اس سوال کے جواب سے نا واقفیت کی بنیاد پر سوشل میڈیا، ٹی وی اور دوسرے ذرائع ابلاغ پر غیر ضروری بحثیں سامعین، ناظرین اور قارئین کے ذہن ودماغ کو زہر آلود کرنے کا کام کر رہی ہیں، اس آلودگی سے محفوظ رکھنے کی یہی صورت ہے کہ رواداری کے بارے میں واضح اور صاف موقف کا علم لوگوں کو ہو اور غیر ضروری باتوں سے ذہن ودماغ صاف رہے۔

 اسلام میں رواداری کا جو مفہوم ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ حسن سلوک کیاجائے، خندہ پیشانی سے ملا جائے، ان کے انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ رکھا جائے، وہ ضرورت مندہوں تو ان کی مالی مدد بھی کی جائے اور صدقات نافلہ اور عطیات کی رقومات سے ان کی ضرورتوں کی تکمیل کی جائے، کسی کو حقیر سمجھنا اور حقارت کی نظر سے دیکھنا اکرام انسانیت کے خلاف ہے، اس لیے معاملہ تحقیر کا نہ کیا جائے اور نہ کسی غیر مذہب کا مذاق اڑایا جائے،یہ احتیاط مردوں کے سلسلے میں بھی مطلوب ہے، اور عورتوں کے سلسلے میں بھی، تاکہ یہ آپسی مذاق جنگ وجدال کا پیش خیمہ نہ بن جائے، معاملات کی صفائی بھی ہر کس وناکس کے ساتھ رکھا جائے، دھوکہ دینا، ہر حال میں ہر کسی کے ساتھ قابل مذمت ہے اور اسے اسلام نے پسند نہیں کیا ہے، البتہ حالت جنگ میں اس قسم کے حرکات کی اجازت ہے، جس سے فریق مخالف دھوکہ کھا جائے، دھوکہ دینا اور چیز ہے اور کسی عمل کے نتیجے میں دھوکا کھانا بالکل دوسری چیز۔

 اسی لیے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو دھوکہ دیتا ہے وہ ہم میں سے نہیں ہے، ایسے تمام قوانین کا پاس ولحاظ بھی ضروری ہے، جو شریعت کے بنیادی احکام ومعتقدات سے متصادم نہیں ہیں، اگر کسی قسم کا معاہدہ کیا گیا ہے، زبانی یا تحریری وعدہ کیا گیا ہے تو اس کا خیال رکھنا چاہیے، کیونکہ ہمیں معاہدوں کا پاس ولحاظ رکھنے کو کہا گیاہے، جن شرائط پر صلح ہوئی ہے، اس سے مُکر جانا انتہائی قسم کی بد دیانتی ہے، اسی طرح رواداری کا تقاضہ یہ بھی ہے کہ ان تمام حرکات وسکنات سے گریز کیا جائے، جس سے نفرت کا ماحول قائم ہوتا ہے اور قتل وغارت گری کو فروغ ملتا ہے، اس ضمن میں تقریر وتحریر سبھی کچھ شامل ہے، کوئی ایسی بات نہیں کہی جائے جس سے فرقہ پرستی کی آگ بھڑکے اور کوئی ایسا کام نہ کیا جائے، جو فتنہ وفساد کا پیش خیمہ ثابت ہو، غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے آپسی میل جول کو بڑھایا جائے اور اپنے پروگراموں میں تقریبات میں دوسرے مذاہب والوں کو بھی مدعو کیاجائے، تاکہ میڈیا کے ذریعہ پھیلا ئی جانے والی غلط فہمیوں کا ازالہ کیا جا سکے، افواہوں پر کان نہ دھرا جائے، اور خواہ مخواہ کی بد گمانی دلوں میں نہ پالی جائے، جلسے جلوس میں بھی نفرت انگیز نعروں سے ہر ممکن بچا جائے، اشتعال انگیزی نہ کی جائے، دوکانوں میں توڑ پھوڑ، گاڑیوں کو جلانا وغیرہ بھی امن عامہ کے لیے خطرہ ہے، اس لیے ایسی نوبت نہ آنے دی جائے، اور ہر ممکن اس سے بچاجائے، دیکھا یہ جا رہا ہے کہ جلوس میں دوسرے مذاہب کے لوگ گھس جاتے ہیں، مسلمان اپنی وضع قطع چھوڑ چکا ہے، اس لیے پتہ نہیں چلتا کہ جلوس میں شریک لوگوں میں کتنے فی صد مسلمان ہیں اور کتنے دوسرے، پھر یہ دوسرے لوگ جو اسی کام کے لیے جلوس میں گھس جاتے ہیں، امن وامان کو تباہ کرنے والی حرکتیں کرکے جلوس سے نکل جاتے ہیں، بدنام بھی مسلمان ہوتا ہے اور نقصان بھی مسلمانوں کا ہوتا ہے۔

رواداری کے باب میں سب سے اہم یہ بات ہے کہ دوسرے مذاہب کے پیشوا اور معبودوں تک کو برا بھلا نہ کہا جائے، کیوں کہ سب سے زیادہ اشتعال اسی عمل سے پیدا ہوتا ہے اور اس کا الٹا اثر یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ ہمارے اللہ ورسول کو برا بھلا کہنے لگتے ہیں گویا ہمارا عمل اللہ ورسول کی توہین کا باعث بنتاہے، کسی کو بتانا اور سمجھانا بھی ہو تو نرم رویہ اختیار کیا جائے، جارحانہ انداز سے بچا جائے اور حکمت سے کام لیا جائے، حکمت مؤمن کی گم شدہ پونجی ہے، جہاں بھی ملے اسے قبول کر لینا چاہیے، لے لینا چاہیے۔ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ رب العزت نے اپنے وقت کے سب سے بُرے انسان کے پاس اپنے وقت کے سب سے اچھے انسان حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السلام کو بھیجا تو نرمی سے بات کرنے کا حکم دیا۔

 لیکن اس رواداری کا مطلب قطعا یہ نہیں ہے کہ ایسے نعرے لگا ئے جائیں جو کسی خاص مذہب کے لیے مخصوص اور ان کا شعار ہیں، چاہے لغوی طور پر اس کے معنی کچھ بھی ہوں، عرف اور اصطلاح میں اس کا استعمال مشرکانہ اعمال کے طور پرکیا جاتا ہے،تو اس سے ہر حال میں گریز کرنا چاہیے، جے شری رام، بھارت ماتا کی جے اور بندے ماترم جیسے الفاظ دیش بھگتی کے مظہر نہیں، ایک خاص مذہب کے لوگوں کے طریقہئ عبادت کی نمائندگی کرتے ہیں، اس لیے مسلمانوں کو ایسے الفاظ کی ادائیگی سے احتراز کرنا چاہیے، کیوں کہ ان الفاظ کا استعمال رواداری نہیں، مذہب کے ساتھ مذاق ہے۔بعض سادہ لوح مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ اس قسم کے الفاظ کہنے سے ایمان واسلام پر کوئی فرق نہیں پڑتا وہ غلط فہمی میں ہیں، کیوں کہ مسلمان کا قول وفعل جیسے ہی اسلای معتقدات کے خلاف ہوتا ہے، ایمان واسلام کی عمارت دھڑام سے زمین بوس ہو جاتی ہے، یہ بہت نازک اور حساس معاملہ ہے، اتنا حساس کہ مذاق کے طور پر بھی کلمات کفر کی ادائیگی نا قابل قبول ہوتی ہے، اس مسئلہ کو جبریہ کلمہئ کفر پر قیاس نہیں کیا جا سکتا، کیوں کہ جبر کی شکل میں دل ایمان پر مطمئن ہوتا ہے، الفاظ صرف زبان سے ادا ہوتے ہیں، لیکن برضا ورغبت کی شکل میں یا تو وہ دین کو مذاق بنا رہا ہے، یا واقعتاوہ ایسا کر رہا ہے، دین کا مذاق اڑانا یا کلمہئ کفر پر راضی ہونا، دونوں ایمان کے لیے مضر ہے اور دارو گیر کا سبب بھی۔

المیہ یہ ہے کہ ہمارا مسلمان بھائی جو اپنے کو غیر مسلم بھائیوں کے سامنے سیکولر بننے کے لیے مختلف مندروں اور گرودواروں میں جا کر پوجا ارچنا کرتا ہے، متھا ٹیکتا ہے، وہ اپنے دین ومذہب سے کھلواڑ کرتا ہے، رواداری ایک دوسرے کے تئیں احترام کے رویہ کا نام ہے، نہ یہ کہ ایسے اعمال شرکیہ کا جو خدائے وحدہ لا شریک کی پرستش کے تقاضوں کے خلاف ہو، یہ رویہ زیادہ تر ہمارے سیاست دانوں میں پایا جاتا ہے، میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ جس کو جان ودل، ایمان واسلام عزیز ہو، وہ اس گلی میں کیوں جائے، جائیے ضرور جائیے، خوب سیاست کیجئے، لیکن سیاست میں عہدے اور مال وزر کی حصولیابی کی غرض سے اپنا ایمان وعقیدہ تو بر باد نہ کیجئے، تھوڑے مفاد کے حصول کے لیے حق بات کہنے سے گریز کا رویہ نہ اختیار کیجئے، ا پرس لیے کہ دنیاوی عہدے جاہ ومنصب اور مفادات چند روزہ ہیں، اور آخرت کی زندگی ہمیشہ ہمیش کے لیے ہے، چند روزہ زندگی کے لیے ابدی زندگی کو بر باد کر لینا عقل وخرد سے بعیدہی نہیں، بعید تر ہے۔

Exit mobile version