✍محمد عباس الازہری
______________
انڈیا میں انتخابی سسٹم ایسا بنا دیا گیا ہے کہ جہاں بڑی آسانی کے ساتھ سیاست داں عوام کو بیوقوف بنا کر اپنا الّو سیدھا کر لیتے ہیں کیونکہ جمہوریت میں سَروں کو گِنا جاتا ہے, تولا نہیں جاتا ہے جس کے نتیجے میں ذات پات، نسل , زبان,علاقہ اور مذہب کے نام پر رائے دہندوں کو کئی خانوں میں بانٹ کر سیاسی پارٹیاں اپنی سیاسی دوکانیں چمکانے میں کامیاب ہوتی رہی ہیں اور جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کچھ پسماندہ طبقات اپنی سیاسی حیثیت کو منوا چکے ہیں یہ وہ طبقے ہیں جو کل تک تعلیم اور روزگار میں تحفظات کے مطالبات کر رہے تھے آج ملکی سیاست میں ایک اہم عنصر بن چکے ہیں اور ان کو ناراض کرکے کوئی بھی سیاسی پارٹی اقتدار میں آنے کا خواب نہیں دیکھ نہیں سکتی ہے یہ لوگ ایسی طاقت بن چکے ہیں جو ملک کی سیاست پر ہمیشہ اثر انداز ہوتے رہے ہیں اور اقتدار میں آنے والی پارٹی انہیں اپنی وزارت میں ضرور جگہ دیتی ہے لیکن افسوس اور تعجب کی بات یہ ہے کہ انڈین مسلمان جو ملک میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ١٤ فیصد ہیں اور ٢٠سے ٢٥ کروڑ کی آبادی پر مشتمل ہیں اور جو تقریباً ملک کے ہر علاقہ میں ہیں پھر بھی ملک کی انتخابی سیاست میں بے وزن اور بے حیثیت ہے اور آزادی سے لیکر اب تک قومی سطح پر مسلمانوں کا کوئی ایسا قائد نہیں ہے جس کی ایک آواز پر سارے ملک کے مسلمان لبیک کہہ سکیں در اصل ایک منظم سازش کے تحت آپسی تال میل کرکے سیکولر اور غیر سیکولر پارٹیوں نے "مسلم قیادت” کو ابھرنے کا موقع نہیں دیا ایک صاحب لکھتے ہیں کہ” در اصل تحریک آزادی کے دوران مسلمان کانگریس کے پرچم تلے جمع ہوئے اور اپنی قربانیوں کے ذریعہ ملک کو آزاد کرایا اور ملک میں جب آزادی کا سورج طلوع ہوا تو مسلمان یہی سمجھے کہ اب اس ملک میں ان کی جان و مال، عزت و آ برو محفوظ ہو گئی ہے لہٰذا انہیں الگ سے اپنی سیاسی شناخت بنانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ کانگریس نے ہندوستان کے مسلمانوں کو قومی دھارے اور قومی یکجہتی کا ایسا سبق پڑھا دیا تھا اور قومی یکجہتی کا راگ الاپ کر مسلمانوں میں عدم تحفظ کا اتنا گہرا احساس پیدا کر دیا کہ کہ مسلمان ملک میں اپنی سیاسی قیادت اور حصہ داری کو بھی فراموش کر بیٹھے اور ایک سیاسی قوت بننے کے بارے میں سوچنا بھی چھوڑ دیئے, اور مسلمانوں کو یہ یقین دلایا گیا کہ آپ کی سیاسی زندگی کا انحصار صرف کانگریس کا ساتھ دینے میں ہے اسی لیے ایک طویل عرصہ تک مسلمان کانگریس کے غلام بے دام بنے رہے۔ ہر الیکشن میں کانگریس مسلمانوں کو اپنے ووٹ بینک کے طور پر استعمال کرتی رہی اور جب بابری مسجد کی شہادت کے بعد کانگریس کا سیکولرازم بے نقاب ہو گیا اور مسلمان اس پارٹی سے متنفر ہوئے تو پھر سونیا گاندھی کی بڑی منت سماجت کے بعد مسلمانوں نے کانگریس کو معاف کرتے ہوئے لوک سبھا انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیاب کیا اور دوبارہ اقتدار کانگریس کے ہاتھوں میں آیا لیکن پھر بھی اپنے دورِ اقتدار میں کانگریس نے مسلمانوں کے ساتھ کوئی فراخدلانہ سلوک نہیں کیا اور نہ ان کے جائز حقوق کو تسلیم کرتے ہوئے ان کے ساتھ انصاف کیا بلکہ مسلمانوں کو طفلِ تسلی دینے کے لیے ایک کمیٹی جسٹس راجندر سچر کی قیادت میں قائم کر دی,اس کمیٹی کی سفارشات پر آج تک عمل نہیں ہوا اور طرفہ تماشا یہ کہ کانگریس نے بی جے پی کے ہارڈ ہندوتوا کے مقابلے میں سافٹ ہندوتوا کی پالیسی اپنائی تاکہ ہندوؤں کو اپنا ہمنوا بنایا جا سکے اور یہ کانگریس کا سیکولرازم تھا جس نے ہندوتوا کے لیے راستہ ہموار کیا "اور ملک کی دیگر سیکولر پارٹیوں کا حال بھی اس سے کچھ الگ نہیں ہے,ملک کے وہ سیاستداں جو کل تک سیکولرازم کے چمپیئن کہلاتے تھے اور سیکولر قائدین کی حیثیت سے جانے جاتے تھے لیکن وہ بعد میں ہندتوا کے سب سے بڑے علمبردار بن کر سامنے آئے در اصل سیاسی مفادات نے انہیں ہندوتوا کی گاڑی میں سوار کرا دیا ویسے تو دل بدلو لیڈروں کی ایک لمبی فہرست ہے لیکن زخم کریدنے سے فائدہ کم نقصان زیادہ ہوتا ہے اس لیے مستقل لائحہ عمل طے کرکے مسلمانوں کو سیاست میں سر گرم حصہ لینا بہت ضروری ہے کیونکہ سیاست ان کی ناگزیر ضرورت بن گئی ہےاور ملک کی انتخابی سیاست میں مسلمانوں کی شمولیت ان کے ملّی اور مذہبی تشخص کے تحفظ کے لیے ضروری ہے اور ملک کے موجودہ حالات کے پسِ منظر میں انتخابی سیاست سے دستبرداری یا اس سے عدم دلچسپی مسلمانون کو ایک ایسے گردابِ بلا میں ڈال دے گی جہاں سے نکلنا ان کے اور ان کی آنے والی نسلوں کے لیے بھی ممکن نہ ہوگا۔اور یہ بھی واضح رہے کہ الیکشن ملک میں پرامن تبدیلی لانے کا ایک نہایت موزوں اور بہتر طریقہ ہے, ملک میں نظامِ عدل و قسط کو قائم کرنے، سماجی بگاڑ کو ختم کرنے، اخلاقی برائیوں کا خاتمہ کرنے میں اور ملک کی ایک بڑی آبادی کو اپنے مقصدِ حیات سے واقف کرانے میں مسلمانوں کی سیاست میں شرکت اس ملک کی عوام اور مسلمانوں کے حق میں سود مند ثابت ہوگی۔ اس لیے اس وادیِ پُرخار سے گریز دانشمندی نہ ہوگی ملک کی موجودہ سیاسی صورتِ حال اس بات کی متقاضی ہے کہ مسلمان اس جمہوری ملک میں ایک نا قابلِ تسخیر سیاسی قوت بن کر ابھریں لیکن یہ ایک ایسا چیلنج ہے جس کو قبول کیے بغیر وہ اس ملک میں اپنا کوئی قائدانہ رول ادا نہیں کر سکتے ہیں, سیاسی قوت کے حصول کے لیے ان تمام ذرائع کو استعمال کرنے کی ضرورت ہے جن کے بغیر سیاسی محاذ پر کامیابی ممکن نہیں ہےاور اگر مسلمان چیلنج سے گھبرا کر دور بھاگ جائیں گے تو اس ملک میں ظلم و بربریت کا دور چلتا رہے گا اور امن و امان کا قیام ایک سراب بن کر رہ جائے گا اس لیے ایسے وقت میں مسلمان سیکولر پارٹیوں کا ساتھ دیں یا پھر خود اپنے بل بوتے پر میدانِ سیاست میں آئیں,اور نئے سرے سیاسی قیادت کو مضبوط کریں اور یہ بار بار نہ دہرائیں کہ ملک میں ہماری کوئی مضبوط سیاسی قیادت نہیں ہے بلکہ یہ یاد رکھیں کہ قیادت نہ آسمان سے اُترتی ہے اور نہ زمین سے اُبلتی ہے بلکہ قیادت انسانوں کے درمیان سے ہی ابھرتی ہے۔ مسلمان ایک بیدار مغز، دور اندیش، حوصلہ مند اور مخلص قیادت کو ملک کے سیاسی افق پر لانے کی کوشش کریں۔