Site icon

مولانا ابو الکلام آزاد رح اور متحدہ قومیت

محمد قمر الزماں ندوی استاد/ مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ 

            ۱۱/نومبر ۲۰۲۱ء بروزِ جمعرات مولانا علاء الدین ایجوکیشنل سوسائٹی، جھارکھنڈ ۔ کے زیر اہتمام مدرسہ نظامیہ دار القرآن دگھی، ضلع گڈا، جھارکھنڈ میں مولانا آزاد رح کی، زندگی، کارنامے اور ان کے افکار و نظریات پر ایک روزہ علمی سمینار کا انعقاد ہوا، جس میں فاضل مقالہ نگار حضرات نے مولانا آزاد رح کی زندگی کے مختلف گوشوں اور پہلوؤں پر اور ان کے علمی، ملی، سماجی اور سیاسی خدمات پر روشنی ڈالی اور ان کی خدمات کو اجاگر کیا، ایک عنوان دیا گیا تھا، مولانا آزاد اور متحدہ قومیت، اس موضوع پر ہمارے ایک انتہائی قریبی عزیز اور میرے ہونہار شاگرد مولوی محمد ظفر ندوی متعلم جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی نے مبسوط مقالہ تحریر کیا، جسکو ہم لاحقہ اور سابقہ کیساتھ قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔ 

           مولانا آزاد رح متحدہ قومیت کے داعی اور پرزور حامی تھے وہ تقسیم کے سخت مخالف تھے، تقسیم کے درد اور کسک کو انہوں نے سب سے زیادہ محسوس کیا ، مگر ایک پابند عہد سیاسی کارکن کے طور پر انہوں نے اپنے اس جذبے کے خلاف اس فیصلے کو بادل ناخواستہ مان لیا، لیکن انہوں نے ہمیشہ یہ بات کہی۔

،، متحدہ ہندوستان کی تقسیم بنیادی طور پر غلط تھی، مذہبی اختلافات کوجس ڈھب سے ہوا دی گئی اس کا لازمی نتیجہ یہی آثار و مظاہر تھے، جو ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھے اور بدقسمتی سے بعض مقامات پر آج بھی دیکھ رہے ہیں،، ۔(مولانا آزاد کی کہانی ۔۵۱ ) 

        تقسیم کے  وقت  کی حالت درد ناک تھی، ہندوستان کی اتحاد  اور  سالمیت کا خواب چکنا چور ہوچکا تھا، اور بھائی بھائی سے بچھڑ چکا  تھا  ، اس سے زیادہ خراب اور افسوس ناک  بات یہ تھی کہ آزادی  کے لمحوں  میں بھی ناقابل بیان بربریت کے ساتھ  فرقہ واریت کا عفریت ہندوستان اور پاکستان  دونوں  میں لاکھوں افراد کی قربانی لے رہا تھا  ۔ اپنے اسلاف کی زمین سے رشتہ توڑ کر ان  دو نئے ملکوں میں لاکھوں لاکھ پناہ  گزیں پہنچ رہے تھے،،۔۔ ہندو مسلم اتحاد کی کوششیں ناکام ہوچکی تھیں، عدم تشدد کا نظریہ بے معنی ثابت ہوچکا تھا۔ امن پسند اور جمہوریت نواز سارے لیڈران بہت غمزدہ تھے،مولانا آزاد رح کا دل صدمہ سے چور چور تھا۔ ان پر ان حالات کا سب سے زیادہ اثر تھا۔ 

     مولانا آزاد رح کو مسلمانوں سے بھی شکایت تھی، جنہوں نے ملک کی تقسیم کو تسلیم کرلیا تھا۔ مولانا نے فرمایا تھا:

،، میرے دامن کو تمہاری دست دروزیوں سے گلہ ہے۔ میرے احساس زخمی ہیں اور میرے دل کو صدمہ ہے ، سوچو تو سہی۔ تم نے کون سی راہ اپنائی؟ یہ خوف جو تم نے خود ہی فراہم کیا۔ یہ تمہارے ہی اعمال کے پھل ہیں،،(ایضا، ص ۵۰)   

            مولانا آزاد رح کا درد اور ان کا کرب ہم تبھی سمجھ سکتے ہیں۔ جب ہم یاد رکھیں کہ انہوں نے ساری زندگی ہندوستان کی سالمیت اور ہندو مسلم اتحاد قائم رکھنے میں گزاری۔ وہ انگریزوں کی پھوٹ ڈالنے کی پالیسی اور ہندوستان کی کچھ سیاسی جماعتوں کی فرقہ وارانہ پالیسی کے وہ ہمیشہ مخالف رہے۔ انہوں نے دو قومی نظریے کو ہمیشہ مسترد کیا۔

     پاکستان  جانے کا فیصلہ لینے والے  مسلمانوں سے انہوں نے دریافت کیا تھا :،، یہ فرار  کی زندگی جو تم نے ہجرت کے مقدس نام پر اختیار کر رکھی ہے، اس پر غور کرو۔ اور پھر دیکھو تمہارے فیصلے کتنے عاجلانہ ہیں۔ آخر کہاں جا رہے ہو اور کیوں جارہے ہو؟ ۔

ہندوستان میں رہنے کا فیصلہ لینے والے مسلمانوں کے لیے ان کا پیغام تھا :

،،، آج ہم ایک دور انقلاب کو پورا کر چکے ہیں۔ ہمارے ملک کی تاریخ میں کچھ صفحے خالی ہیں اور ہم ان صفحوں میں زیب عنوان بن سکتے ہیں۔ لیکن شرط  یہ ہے کہ ہم اس کے لیے تیار بھی ہوں۔ آو عہد کرو کہ یہ ملک ہمارا ہے۔ ہم اس کے لیے تیار ہیں اور اس کے تقدیر کے بنیادی فیصلے ہماری آواز کے بغیر ادھورے ہی رہیں گے،،۔ (مولانا آزاد کی کہانی /۵۰/۵۱) 

      قارئین باتمکین! اب صاحب مقالہ کے اصل مضمون کو ملاحظہ فرمائیں:

       آزادئ ہند سے پہلے ہی متحدہ قومیت اور دو قومی نظریے کی جنگ شروع ہوچکی تھی۔ دو قومی نظریے کے سب سے بڑے علمبردار مسلم لیگ کے رہنما محمد علی جناح تھے، جب کہ اِس نظریے کی مخالفت کرنے اور متحدہ قومیت کے داعیان میں سب سے پیش پیش مولانا ابوالکلام آزاد تھے۔ ___ مولانا آزاد نے مسلم لیگ کے دو قومی نظریے کی سخت مخالفت کی۔ وہ الگ ریاست کا خواب دیکھنے کے بجائے متحدہ قومیت کے نظریے کی ترویج کرتے رہے۔ مولانا آزاد نے دہلی کے ایک اجلاس میں صدارت کرتے ہوئے متحدہ قومیت اور یکجہتی پر زور دیتے ہوئے کہا تھا ___  "آج اگر ایک فرشتہ آسمان کی بلندیوں سے اتر آئے اور قطب مینار پر کھڑے ہو کر یہ اعلان کر دے کہ سوراج 24؍گھنٹے کے اندر مل سکتا ہے بشرطیکہ ہندو مسلم اتحاد سے دستبردار ہو جائیں۔  تو میں سوراج سے دستبردار ہو جاؤں گا۔  کیونکہ اگر سوراج کے ملنے میں تاخیر ہوئی تو یہ ہندوستان کا نقصان ہوگا۔  لیکن اگر وحدت باقی نہ رہی تو یہ عالم انسانیت کا نقصان ہوگا“ ۔

 مولانا آزادنے اپنی بصیرت و آگہی اور دوراندیشی سے یہ بھی بیان کر دیا تھا:   "کہ ملک تقسیم ہونے سے مسلمان تقسیم ہو جائے گا۔ اور اس کے بعد ہندوستان اور پاکستان کے مسلمان ایک دوسرے کی مددنہ کر سکیں گے۔ ہندوستان اور پاکستان ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں گے۔ پاکستان کے مسلمان بھی کمزور ہو جائیں گے اور ہندوستان کے مسلمان بھی کمزور ہو جائیں گے“ ۔ __  لہذا مولانا آزادچاہتے تھے کہ ملک تقسیم نہ ہو بلکہ ہندو مسلم مل کر ہندوستان کے مستقبل کو روشن اورتابناک کریں۔ انہوں نے یقین دلایا کہ تقسیمِ ملک سے صرف برطانوی حکومت کو فائدہ ہوگا۔ اور اس طریقہ کار سے مسلمان تو ہر لحاظ سے کمزور ہوں گے ہی کیوں کہ برطانوی حکومت کو ہندوستان کی زمین تقسیم کرنا مقصود نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کی تعداد کو دودھڑوں میں تقسیم کرکے کمزور کرنا مقصود ہے۔ اور اس راہ سے برطانوی حکومت کو دونوں خطوں پر اپنا نظریاتی تسلط برقرار رکھنے میں آسانی ہوگی۔

 مولانا آز اد نے تقسیم سے پہلے ایک موقع پر کہا تھا کہ” __ متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کی اتنی بڑی تعداد ہے کہ وہ اپنی زبردست تعداد کے ساتھ ہندوستان کی قومی و وطنی زندگی،  اور پالیسی و نظم و نسق کے تمام معاملات پر فیصلہ کن اثر ڈالنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ لیکن قیامِ پاکستان سے مسلمانوں کی یہ قوت و صلاحیت تقسیم اور ضائع ہوجائے گی اور میرے نزدیک یہ بدترین بزدلی کی مثال ہے کہ میں اپنے کُل میراث سے دستبردار ہوکر ایک چھوٹے سے ٹکڑے پر قناعت کرلوں“۔

 یہی وجہ ہے کہ مولانا آزاد نے متحدہ قومیت کے لیے اپنی پوری طاقت صرف کردی تھی،  تقسیمِ ہند سے پہلے مولانا آزاد نے مسٹر جناح کو ایک تجویز پیش کی تھی جس تجویز کو آزاد رحمہ اللہ نے انڈین نیشنل کانگریس سے پاس کرانے میں بھی کامیابی حاصل کرلی تھی۔ اور مولانا کی یہ سب سے آخری کوشش تھی جو ملک کو تقسیم ہونے سے بچانے کے لیے کرسکتے تھے، اگر محمد علی جناح اسے تسلیم کرلیتے تو آج یہ ہندوستان تقسیم ہونے سے بچ جاتا، اور مسلمان ایک بڑی تعداد کے ساتھ اس تجویز کے مطابق پچاس فیصد حکومت میں حصہ داری کے مستحق ہوتے۔ اور آج ہندوستانی مسلمان جس زبوں حالی کے شکار ہیں وہ اس سے محفوظ رہتے۔ کیوں کہ ابھی موجودہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی کل آبادی 25 کروڑ ہے جس میں 96 فیصد مسلمان ہیں، اسی طرح بنگلہ دیش کی کل آبادی 17 کروڑ ہے جس میں مسلمان 80 فیصد ہیں اور ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد تقریباً 25 کروڑ ہے اس لحاظ سے ملک اگر تقسیم نا ہوتا تو غیر منقسم ہندوستان میں فی الوقت مسلمانوں کی تعداد 65 سے 70 کروڑ کے مابین ہوتی۔ اور مسلمان اپنی تعداد کے مطابق اس ملک کی حکمرانی میں برابر کے شریک ہوتے مگر …

             اے بسا آرزو کہ خاک شدہ

جس تجویز کو محمد علی جناح نے مسترد کردیا۔ وہ تجویز یہ تھی کہ غیر تقسیم شدہ ہندوستان کی پہلی حکومت چودہ ارکان پر مشتمل ہوگی ان میں سات مسلم نمائندے ہوں گے، اور سات غیر مسلم نمائندے، جن میں ہندو صرف دو ہوں گے، لیکن محمد علی جناح نے اس تجویز کو ٹھکرا دیا۔ جس کے بعد مولانا آزاد نے بہت افسوس کے ساتھ کہا کہ "اسلام کے کس مفاد کی خاطر مسٹر جناح نے اس تجویز کو تسلیم نہیں کیا میں آج تک سمجھنے سے قاصر ہوں، کیا اسطرح مسلمانوں کو ہندوستان کی حکومت میں ایک معقول حصہ نہیں مل رہا تھا؟”۔

در اصل مولانا آزاد نے جس آزادی کی خاطر اپنی زندگی قربان کی تھی، جیل کی مشقتوں کو برداشت کیا تھا تقسیمِ ہند کے بعد وہ سب کچھ انھیں لٹتا نظر آرہا تھا اس تقسیم کے نظریے نے ان کے ذہن کو متزلزل کر دیا تھا کیوں کہ تقسیمِ ہند کی صورت میں جب سارے مسلمان ایک چھوٹے سے حصے پر قناعت کرلیتے تو موجودہ ہندوستان جہاں ہزاروں سال تک مسلمانوں نے اپنی جبین نیاز خم کیا تھا وہ زمین، اور مساجد و مدارس جہاں سجدوں کے نشان ہیں،  کافروں کے ہاتھوں درندگی کی نذر ہوجاتے، اور وہ مقدس مقامات جانوروں کا مسکن بنا دیے جاتے۔ اور سرزمینِ ہند پر کوئی سجدہ کرنے والا باقی نا رہتا، لہذا جس شدت سے مولانا آزاد نے تقسیم کی مخالفت کی تھی اس کو لوگ سمجھنے سے قاصر رہے۔ تقسیم کے بعد جامع مسجد سے خطاب کرتے وقت جب لوگوں کے چہروں پر انہوں نے اضطراب دیکھا تو کہا: "یاد کرو میں نے تمہیں پہلے بھی پکارا تھا،  جب تمہارے چہروں پر اضمحلال کے بجائے اطمینان تھا،  اور تمہارے دِلوں میں شک کے بجائے اعتماد۔  آج تمہارے چہروں کا اضطراب اور دِلوں کی ویرانی دیکھتا ہوں تو مجھے بے اختیار پچھلے چند سالوں کی بھولی بسری کہانیاں یاد آ جاتی ہیں۔ تمہیں یاد ہے میں نے تمہیں پکارا اور تم نے میری زبان کاٹ لی۔ میں نے قلم اُٹھایا اور تم نے میرے ہاتھ قلم کر دئیے۔ میں نے چلنا چاہا تم نے میرے پاؤں کاٹ دئیے، میں نے کروٹ لینا چاہی تو تم نے میری کمر توڑ دی”۔

ملک تقسیم ہونے کے بعد جن جن باتوں کا اندیشہ مولانا آزاد نے ظاہر کیا تھا وہ سب چشم فلک نے دیکھا۔ بنیادی طور پر ملک کی تقسیم کا مولانا آزاد پر بہت گہرا رنج ہوا ، اور تقسیم کے بعد جو فسادات کی آگ بھڑک اٹھی تھی ، آج تک اس کے شعلے سرد نہیں ہوئے، گجرات، بھاگلپور، سمیت حالیہ سالوں میں مظفر نگر، ، دہلی، تریپورہ اور آسام کے فسادات کے ساتھ آئے دن ماب لنچنگ ، تیزی سے بدلتے حالات، جمہوری اقدار کی پامالی، تنگ ہوتے مسلمانان ہند کے دائرۂ حیات، اقتدار پر قابض حکومت کی اعلانیہ مسلم دشمنی، عہدوں پر متمکن حاکموں کا متعصبانہ رویہ، عدالتِ عالیہ و عدالت عظمی کے ناانصافی پر مبنی اور حکومت کی منشا کے مطابق فیصلے اور اس کے علاوہ بہت سے ظہور پذیر ہونے والے واقعات اس بات کے گواہ ہیں کہ تقسیمِ ہند سے مذہبی بنیادوں پر جو نفرت کی آگ بھڑک اٹھی تھی اس کے شعلے دن بدن مزید فلک شگاف ہوتے جارہے ہیں۔ لیکن اگر یہ ملک تقسیم نا ہوتا ، اور مسلمان متحد رہتے تو نوبت یہاں تک نا پہنچتی۔ دراصل مولانا آزاد کے نظریے کے مطابق تقسیمِ ہند زمین کو تقسیم کرنے کا تنازعہ نا تھا بلکہ مسلمانوں کی متحدہ طاقت کو تقسیم کرنے کی ایک فرنگی سازش تھی جس کے آلہ کار بد قسمتی سے مسلم لیگ کے رہنما محمد علی جناح اور ان کے پیروکار بن گئے۔ 

لیکن ایسے نازک حالات میں بھی جب تقسیم کے بعد کے فسادات کے شعلوں نے  لاکھوں لوگوں کو جلاکر راکھ کردیا تھا، ہندوستانی مسلمان سخت بے چین و بے قرار تھے، ہندو مسلم فسادات بھڑک اٹھے تھے، لوگ جوق در جوق پاکستان ہجرت کررہے تھے، لوگ سخت بے چینی اور تذبذب میں مبتلا تھے، اس وقت بھی مولانا آزاد کے قدم نہیں ڈگمگائے۔ انہوں نے صبر و تحمل کے ساتھ حالات کا مقابلہ کیا۔ انہوں نے مسلمانوں کو جلاوطنی، علاحدگی پسندی، مایوسی اور احساسِ محرومیوں کو ترک کر کے اپنے ہم وطنوں کے ساتھ اسی سرزمین میں جینے اور مرنے کی تلقین کی اور جامع مسجد سے مسلمانان ہند کو  تاریخی اور ولولہ انگیز خطاب کیا جس خطاب کی صدائے بازگشت آج بھی محسوس کی جاتی ہیں۔  انہوں نےصدا لگائی کہ:

”یہ فرار کی زندگی جو تم نے ہجرت کے مقدس نام پر اختیار کی ہے، اس پر غور کرو !تمہیں محسوس ہو گا کہ یہ غلط ہے۔ اپنے دِلوں کو مضبوط بناؤ اور اپنے دماغوں کو سوچنے کی عادت ڈالو اور پھر دیکھو کہ تمہارے یہ فیصلے کتنے عاجلانہ ہیں۔ ___  آخر کہاں جا رہے ہو اور کیوں جا رہے ہو؟‘ _ مسجد کے بلند مینار تم سے جھک کر سوال کرتے ہیں کہ تم نے اپنی تاریخ کے صفحات کو کہاں گم کر دیا ہے؟ _ ابھی کل کی بات ہے کہ یہیں جمنا کے کنارے تمہارے قافلوں نے وضو کیا تھا _ اور آج تم ہو کہ یہاں رہتے ہوئے خوف محسوس کرتے ہو۔ __ حالانکہ دہلی تمہارے خون کی سینچی ہوئی ہے۔ _ وہ تمہارے ہی اسلاف تھے جو سمندوں میں اتر گئے۔_ پہاڑوں کی چھاتیوں کو روند ڈالا۔ _ بجلیاں آئیں تو ان پر مسکرائے__بادل گرجے تو قہقہوں سے جواب دیا_صرصر اٹھے تو اس کا رخ پھیر دیا __ آندھیاں آئیں تو ان سے کہا تمہارا راستہ یہ نہیں _ یہ ایمان کی جاں کنی ہے کہ شہنشاہوں کے گریبانوں سے کھیلنے والے آج خوداپنے گریبانوں سے کھیلنے لگے۔ _____ “ان کے اس تاریخی اور ولولہ انگیز خطاب سے مسلمانوں کے قدم اس ملک میں جم گئے۔ 

لیکن یہ حقیقت ہے کہ تقسیم سے جو نقصانات برصغیر میں مسلمانوں کو ہوئے ، اس کا اندازہ آزادی کے پچہتر سال بعد تک محسوس کئے جاتے ہیں، بلکہ  حالیہ ایام میں یہ احساس مزید گہرا ہو چکا ہے۔ صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ اب پاکستان کے دانشور تک اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ قائد اعظم کا دو قومی نظریہ ایک اندوہناک حادثہ تھا۔ اگر مولانا آزاد کی تجویز کو تسلیم کرلیا جاتا تو بر صغیر کے مسلمان اس زبوں حالی سے دوچار نا ہوتے۔ ___ بہر حال اخیر میں یہ بات بھی واضح کرنا ضروری ہے کہ تقسیم کے ذمہ دار صرف جناح ہی نہیں تھے ، دراصل یہ موضوع بہت طویل ہے، مختصر وقت میں اس کے تمام پہلوؤں پر روشنی ڈالنا ممکن نہیں، البتہ اس حقیقت کو واضح کرنا بھی ضروری ہے جیسا کہ اوپر تذکرہ ہوا کہ تقسیم ہند دراصل زمین کی تقسیم نہیں بلکہ مسلمانوں کے اتحاد کو منقسم کرکے انھیں خاص طور سے سیاسی اعتبار سے کمزور کرنے کی فرنگی سازش تھی اور اس سازش کے مجرم نہرو، سردار ولبھ بھائی پٹیل اور گاندھی بھی ہیں۔ کیوں کہ محمد علی جناح کے جو مطالبات تھے وہ حق بجانب تھے۔ __ ایک وقت ایسا آچکا تھا کہ آزاد کی کوششیں رنگ لائیں، اور ان کی چودہ ارکان والی تجویز کو انڈین نیشنل کانگریس اور مسلم لیگ دونوں نے تسلیم کرلیا تھا ،لیکن بعد میں نہرو نے اسے عارضی تجویز کے زمرے میں ڈال دیا ،جس کی وجہ سے محمد علی جناح نے اسے مسترد کردیا ۔

بہر حال تقسیم ہند سے بقول آزاد صرف ایک ہی نتیجہ اخذ ہوا کہ بر صغیر میں رہنے والے مسلمان دو حصوں میں بٹ کر ہر اعتبار سے کمزور ہوگئے، بلکہ 1971 میں جب مشرقی پاکستان یعنی موجودہ بنگلہ دیش پاکستان سے الگ ہوکر مستقل ملک بنا تو بنیادی طور پر ہندوستان کے مسلمان تین حصوں میں منقسم ہوگئے جو درحقیقت مسلمانوں کی تاریخی ناعاقبت اندیشی کا نتیجہ ہے، جس کی وجہ سے ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمان ہمیشہ ہندؤوں کے ظلم اور انتقام کے شکار رہیں گے اور پاکستان میں بسنے والے مسلمان ان کی کوئی بھی مدد نا کرسکیں گے __ ان تفصیلات کو مدنظر رکھتے ہوئے غور کیجئے کہ اگر ملک تقسیم نا ہوتا ، تو مسلمان کس سیاسی مضبوطی کے ساتھ اس سرزمین پر زندگی بسر کرتے؟___ بہرحال آزادؒ نے جس ہندوستان کے لیے قربانیاں پیش کیں یہ وہ ہندوستان نہیں ہے۔

بقول فیض احمد فیض     

یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گَزیدہ سحر

*وہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحرتو نہیں

Exit mobile version