محمد قمر الزماں ندوی،استاد /مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ
اسرائیل اور فلسطین کے درمیان حالیہ جنگ نے بیت سے حقائق و مضمرات اور سیاسی وفاداریوں کو ظاہر کردیا ہے ،اپنے اور بیگانے دوست اور دشمن کی پہچان کو بتادیا ہے ،کون مسلمانوں کے بہی خواہ اور ہمدرد ہیں اور کون پس پردہ مسلمانوں کے خلاف ہوکر دشمن کو ہی کمک فراہم کر رہے ہیں ،یہ چیزیں بھی سامنے آرہی ہیں ،مخلص اور غیر مخلص کی پہچان بھی ہورہی ہے ، اعتقادی نفاق کے بارے میں تو اب کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ وحی اور صاحب وحی کا سلسلہ ختم ہوچکا ہے ۔ لیکن عملی نفاق کی صورتیں اور شکلیں دن بدن ظاہر ہورہی ہیں ۔ موجودہ حالات نے یہ تاثر دیا کہ نفاق کی حقیقت اور اس کی خطرناکی کو واضح کیا جائے، ذیل میں اسی موضوع سے متعلق کچھ خامہ فرسائی کی جارہی ہے، امید کہ احباب اس تحریر کو پسند کریں گے اور دوسروں تک بھی پہنچائیں گے تاکہ اس خطرناک مرض سے ہم سب اپنی اپنی حفاظت کرسکیں۔( م،ق،ن،)
مولانا رئیس احمد جعفری ندوی ؒ نے نقوش سیرت رسول ﷺ نمبر میں اپنے مضمون "سرور کائنات کا رویہ منافقوں کیساتھ " کی تمہید میں تحریر فرمایا ہے کہ :
………….. "کھلے ہوئے دوست اور کھلے ہوئے دشمن کے ساتھ طرز عمل متعین کرنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آتی، یہ دوست ہے وہ دشمن ہے۔ دوست اس لیے کہ مورد لطف و کرم بنے اور دشمن اس لیے ہے کہ ترکی بہ ترکی جواب دیا جائے۔ لیکن دشمن کی ایک قسم اور ہوتی ہے، یہ قسم ہے منافقوں کی۔ یہ اپنے تئیں دوست ظاہر کرتے ہیں، دوستی کا عوامی دعویٰ کرتے ہیں، پیمان رفاقت بڑے زور شور سے استوار کرتے ہیں، لیکن در پردہ دشمن ہوتے ہیں، دشمنوں سے ساز باز رکھتے ہیں، ہر وقت تخریب کے درپہ رہتے ہیں، سازش کرتے ہیں، نقصان پہنچاتے ہیں، تباہ و برباد کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے۔ یہ دشمن کی سب سے بدترین خطرناک اور ناقابل برداشت قسم ہے۔ ایسے لوگ جب برافگندہ نقاب ہو جائیں، تو انہیں معاف نہیں کیا جاسکتا، ان پر لطف و کرم کی بارش نہیں کی جاسکتی، انہیں مورد مہر و کرم نہیں بنایا جا سکتا۔ یہ صرف اس قابل ہوتے ہیں کہ جہاں ملیں کچل دئیے جائیں۔ جہاں ان کا سراغ لگے، پامال کر دئیے جائیں۔ جب یہ ہاتھ آئیں ان کے جسم و جان کا رشتہ بے تامل منقطع کر دیا جائے۔ زمانہ قبل از تاریخ میں بھی یہی ہوتا تھا۔ دور تاریخ کے آغاز میں بھی ایسا ہی ہوا اور اب کہ دنیا عمرانیت اور حضارت کے اوج کمال پر ہے، یہی اصول کار فرما ہے، سچ تو یہ ہے کہ بغیر اس کے تطہیر کا کام نہیں چل سکتا، نہ نظم قائم ہوسکتا ہے، نہ امن بحال ہوسکتا ہے، نہ دوستوں کی شناخت ہوسکتی ہے، نہ دشمنوں سے نجات مل سکتی ہے، (نقوش رسول نمبر ٣/ ۵۱۹)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت کرکے مدینہ منورہ پہنچے اور وہاں کے ماحول میں رہ کر اسلام کی تبلیغ کا آپ کو کھل کرآپ کو موقع ملا ، تو مدینہ میں ایک مختصر تعداد ایسے لوگوں کی رہی ، جو بظاہر مسلمان تو ہوگئے ، لیکن اندر اندر مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلاتے رہے اور در پردہ وہ مشرکوں اور یہودیوں سے ملے رہے اور اسلام کے بیخ و بن کو اکھاڑنے میں یہود و مشرکین سے ساز باز کرتے رہے، اس طبقہ کی سرداری عبداللہ بن ابی کرتا تھا۔ منافقین کی شرارتوں کا تذکرہ قرآن مجید کی متعدد آیتوں میں بیان کیا گیا ہے، بلکہ ایک مستقل سورت اس نام سے ہے۔ مدینہ کے ان منافقین کی طرف ایک آیت میں یوں اشارہ کیا گیا : ومن اھل المدینۃ مردوا علی النفاق
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کچھ ایسے واقعات پیش آئے جن سے منافقین بے نقاب ہوگئے اور ان کی حقیقت کھل کر سامنے آگئی۔ آپ صلی اللہ علیہ نے منافقین کے فتنے اور ان کی شرارتوں کا مقابلہ بڑی حکمت سے کیا اور ان کے زور و طاقت کو کمزور کرنے میں بہت دانشمندی اور حکمت سے اقدام کیا تاکہ کہیں خود مسلمانوں میں انتشار نہ ہو جائے اور دشمن کو افواہ اور اور غلط بیانی کا موقع نہ مل سکے۔ ان خطرناک دشمنوں سے نپٹنے کے لیے جس کمال تحمل و برداشت۔ صبر اور حکمت سے کام لیا اس کی مثال دنیا کی کسی اور جگہ نہیں ملتی۔ کہ سب سے خطرناک دشمن کو بھی آپ نے معافی کا پروانہ دیا اور حکمت کے ساتھ اس کے زہر کی کاٹ بھی کی۔
آج بھی مسلمانوں کے سامنے ایک تعداد اور طبقہ ہے ،جو اندر رہ کر باہر کے لیے کام کر رہا اور دشمنوں کو کمک اور مواد فراہم کر رہا ہے۔ یہ لوگ چند دنیاوی مفاد اور عہدے اور کرسی کی لالچ میں مسلمانوں کے خلاف دشمن کے لیے استعمال ہورہے ہیں اور ان کو قوت پہنچا رہے ہیں۔ اعاذنا اللہ من شرھم و فتنتھم
نفاق در حقیقت انسان کے ظاہر و باطن کے باہمی اختلاف کو کہتے ہیں، نفاق ہر زمانہ کا ایک خطرناک مرض رہا ہے۔ نفاق سے انسان کا نور بصیرت سلب ہوجاتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ ہر ایک کو اس سے پناہ مانگنے کی تاکید کی گئی ہے۔ نفاق درحقیقت منفی ذہنیت کی پیداوار ہے، نفاق اتنی بری خصلت ہے جو انسان کو پستی کی آخری حد تک پہنچنا دیتی ہے۔ یہ ایک برائی نہیں بلکہ یہ بہت سی برائیوں کی جڑ ہے۔ نفاق انسان کی حق بینی کی صلاحیت کو فنا کردیتا ہے۔
منافق کی مثال بیان کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کی مثال اس اوارہ بکری کی سی ہے جو نر کی تلاش میں دو ریوڑوں کے درمیان کبھی اس طرف اور کبھی اس طرف ماری ماری پھرتی ہے۔(مسلم)
اس حدیث میں نفاق کی نفسیاتی حقیقت کو ایک موثر مثال کے ذریعہ واضح کیا گیا ہے۔ منافقوں کو محض دنیوی مفاد عہدہ منصب ،جاگیر اور منفعت عزیز ہوتی ہے۔ ان کی نگاہ صرف اس پر مرکوز ہوتی ہے کہ اپنی جان عہدہ ،اقتدار ،حکومت اور مال کی حفاظت کیوں کر ہو۔ ان کے اندر حالات سے مقابلہ کرنے کی سکت نہیں ہوتی۔ وہ عافیت کے متلاشی ہوتے ہیں۔ خواہ یہ عافیت کسی کے یہاں بھی مل سکے ۔ انہیں اس کی فکر نہیں ہوتی کہ یہ عافیت پسندی دنیا یا آخرت کہیں کا بھی انہیں رہنے نہیں دے گی۔۔۔ (مستفاد کلام نبوت)
یہاں اس ضمن میں ایک واقعہ یاد آرہا ہے جو دلچسپی سے خالی نہیں کہ ہندوستان کے سابق وزیراعظم مسٹر مرار جی ڈیسائی یورپ اور امریکہ کے بارہ روزہ سرکاری دورہ کے بعد ۱۷جون ۱۹۷۸ء کو نئی دہلی واپس آئے پالم ہوائی اڈے پر جب وہ اپنے ہوائی جہاز سے باہر آئے تو مرکزی وزیر صحت مسٹر راج نرائن نے وزیراعظم کا استقبال کرتے ہوئے ان کو عطر لگایا۔ مرار جی کہا : یہاں تو آپ مجھے عطر کی خوشبو سنگھا رہے ہیں، لیکن میری غیر حاضری میں آپ کی کرتوتوں کی بدبو آتی تھی۔ مسٹر راج نرائن نے جواب دیا، نہیں نہیں مرار جی بھائی، یہ غلط ہے۔ (ہندوستان ٹائمس ۱۸/ جون ۱۹۷۸ء صفحہ۱)
یہ ایک جھلک ہے اور چھوٹا سا نمونہ ہے جس سے ان لوگوں کی تصویر صاف نظر آتی ہے۔ جو اندر اور ہوتے اور باہر کچھ اور ہوتے ہیں۔ موجودہ حق و باطل کی جنگ میں بھی کچھ لوگ ،افراد اور حکومت اس رول کو ادا کرنے میں مشغول ہیں اور وہ بظاہر تو دوست دکھ رہے ہیں لیکن اندر سے وہ دشمن سے ملے ہوئے ہیں ، تفصیل اور وضاحت کا یہ موقع نہیں ہے ، ورنہ اس پر بہت کچھ لکھا جانا چاہئے تاکہ دوست و دشمن کی تمیز ہو سکے اور ایسے لوگوں کی شرارت سے امت کی حفاظت کی جاسکے ۔