مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی /نایب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
۲۷/جولائی ۲۰۰۱ء بروز جمعہ دن بھر کے تھکا دینے والے سفر کے بعد جناب محمد سلیم رضوی کے ساتھ انوار الحسن وسطوی کے دولت کدہ پر بیٹھا ہی تھا کہ انہوں نے یہ المناک خبر سنائی کہ کل عبدالمغنی صدیقی کا انتقال ہوگیا، خبر کیا تھی؟ ایک بجلی تھی، جوگری اور خرمن سکون وچین کو خاکستر کرتی چلی گئی، عمر کی جس منزل میں وہ تھے اس میں ایسی خبریں غیرمتوقع نہیں ہوتیں، لیکن جب کوئی ستون گرتا ہے تو زمین دہلتی ہے اور آواز دور تک سنی جاتی ہے، عبدالمغنی صدیقی بھی حاجی پور میں ملی، سماجی اور ادبی کاموں کے لئے ایک ستون تھے، مستحکم اور مضبوط ستون، اس لئے ان کی موت کی خبر نے دل ودماغ کی چولیں ہلادیں، عالم تصور میں ان کا سراپا دیر تک گھومتا رہا، پوری زندگی جہد مسلسل اور متواتر خدمات کے بعد عالم ضعیفی میں ان کا جو ہیولی بنا تھا، اس میں پاکیزگی، نفاست، روحانیت، تواضع، خاکساری اور علماء کی قدردانی تھی، یہ وہ اوصاف تھے، جن سے ملاقاتی کی طرف کھنچتے تھے اور مرحوم سے برابر ملنے کو جی چاہتا تھا۔
میری پہلی ملاقات تحفظ شریعت کمیٹی کے زیر اہتمام نکلنے والے اس تاریخی جلوس میں ہوئی تھی، جو شاہ بانو کیس میں نفقۂ مطلقہ کو کالعدم قرار دینے کے لئے مسلم پرسنل لا بورڈ کی تحریک پر ہرضلع میں نکل رہا تھا اور کلکٹر کو میمورنڈم دے کر اس سے ناگواری کا اظہار کیا جاتا تھا، مرحوم تحفظ شریعت کمیٹی ضلع ویشالی کے صدر تھے اور محمد یوسف انجینئر مرحوم کے ساتھ تگ ودو میں لگے ہوئے تھے، مرحوم کی قیادت میں یہ جلوس اس شان، بان سے نکلا تھا کہ حاجی پور کی سرزمین نے اس سے پہلے ایسا جلوس نہیں دیکھا تھا اور نہ کبھی بعد میں ایسا منظر دیکھنے کو ملا، جمعہ کا دن تھا، انورپور چوک سے کچہری میدان تک؛بلکہ کہنا چاہئے کہ حاجی پور کی ہر مسجد اور ہرگلی اور محلہ سے لوگوں کا ایک سیل رواں تھا جو کچہری میدان کی طرف بڑھ رہا تھا، جلوس کا ایک سرا کچہری میدان سے نکل کر انورپور پہنچ گیا تھا جبکہ دوسرا سرا ابھی کچہری مہدان سے نکل بھی نہیں سکا تھا، عقل حیران تھی کہ اس ضعیف اور کمزور انسان کے مضمحل قوی میں کتنا کَس بل تھا کہ یہ بھیڑ اکٹھی ہوگئی۔
اس ملاقات کے بعد باربار ملاقات ہوتی رہی، کبھی کسی جلسہ میں اور کبھی کسی سیمینار میں، جس میں وہ اپنے پاؤں اور گھٹنوں کی سخت تکلیف کے باوجود جانا ضروری سمجھتے، آخری ملاقات اس وقت ہوئی تھی جب مجھے صدر جمہوریہ کے ہاتھوں قومی ایوارڈ ملا تھا اور حاجی پور میں ایک استقبالیہ جلسہ کا انعقاد کیا گیا تھا، وہ اس جلسہ کے صدر تھے، صدارتی تقریر ان کی مختصر مگر بہت جامع ہوئی تھی، اس میں حوصلہ افزائی بھی تھی، زمانہ کے تلخ وتند تجربات کا نچوڑ بھی تھا اور مستقبل کے لئے نصیحتیں بھی۔
الحاج عبدالمغنی صدیقی ابن عبد الغنی بن نیاز علی بن شیخ شمشیر علی بن شیخ فتح علی (حدیقۃ الانساب:۱/۰۱۲) نے ابابکرپور کواہی، پاتے پور، ضلع ویشالی میں یکم مئی ۱۹۱۴ء کو آنکھیں کھولیں، ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کرنے کے بعد ۱۹۳۴ء میں کلکتہ چلے گئے، جہاں سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔
مولانا ابولکلام آزاد اور علامہ جمیل مظہری کے یہاں آمد ورفت اور مسلسل ملاقات نے آپ میں ملی اور ادبی ذوق کو پروان چڑھایا، ۱۹۳۷ء میں کلکتہ چھوڑ کر مظفرپور آگئے اور وکالت شروع کیا، ساتھ ہی سیاسی وسماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے، جلد ہی ممتاز کارکنوں میں آپ کا شمار ہونے لگا اور آپ کی خدمات نے قبول عام حاصل کیا، یہ قبولیت ہی کی بات تھی کہ ۱۹۴۸ء میں ڈاکٹر راجندر پرشاد صدر جمہوریہ ہند نے تمغہ اور توصیفی سند سے نوازا، آزادی کے فوراً بعد ہندوستان میں کشیدگی اور فسادات کی جو لہر پورے ملک میں چلی، تو عبد المغنی صدیقی نے جان ہتھیلی پر رکھ کر قومی یکجہتی کے لئے کام شروع کیا اور پھر پوری جدوجہد کی، تاکہ ملک کے سیکولر کردار کو بچایا جاسکے، اس مسلسل تگ ودو کے جو مثبت اثرات سماج پر پڑے اس کے لئے کئی کمشنروں نے انہیں Letter of thanks سے نوازا، وہ بارہ سال تک مسلم کلب مظفرپور کے جنرل سکریٹری بھی رہے۔
۱۹۵۵ء میں وہ مظفرپور سے حاجی پور منتقل ہوگئے اور یہیں کے ہوکر رہ گئے، مختاری شروع کیا اور اس شان سے کیا کہ مختار ان کے نام کا لازمہ بن گیا اور وہ ”مغنی مختار“ کے نام سے پہچانے جانے لگے، دس بارہ سال تک انجمن فلاح المسلمین حاجی پورکے سکریٹری رہے، انجمن ترقی اردو حاجی پور، ضلع اوقاف کمیٹی ویشالی اور کانگریس اقلیتی کمیٹی کے صدر کی حیثیت سے بھی مختلف اوقات میں کام کیا، ۱۹۶۲ء میں ایڈوکیٹ کی حیثیت سے سرکاری منظوری ملی اور A.P.P پھر A.G.P بھی بنائے گئے، انہوں نے ایڈوکیٹ ایسوی ایشن کے صدر اور آل بہار لایر (Lowyer) ایسوی ایشن کے سکریٹری کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں، اخیر عمر میں اللہ تعالیٰ نے حج بیت اللہ کی سعادت بخشی، ۲۶/جولائی۲۰۰۱ء بروز جمعرات بوقت ساڑھے نو بجے صبح قوم کا یہ سچا خادم اور ملی کاموں میں پیش پیش رہنے والی اس عظیم شخصیت نے حشمت حیات کے مکان باغ ملی، حاجی پور میں جہاں وہ کرایہ دار کی حیثیت سے مقیم تھے، آخری سانسیں لیں اور اس جہانِ فانی کو خیرباد کہا۔
نماز جنازہ ان کی وصیت کے مطابق ان کے داماد پروفیسر محمد نجم الہدیٰ سابق صدر شعبۂ اردو بہار یونیورسٹی نے پڑھائی اور بعد نماز عصر وصیت کے مطابق ہی اسلامی عہد کی عظیم یادگار سنگی مسجد حاجی پور کے سامنے تدفین عمل میں آئی۔
یہ اچھا ہواکہ ان کے صاحب زادہ نسیم احمد ایڈووکیٹ نے ان پر ایک کتاب شائع کرنے کا راداہ کیا، ڈاکٹر ممتاز احمد خاں مرحوم حیات سے تھے، انہوں نے اس کی ترتیب کی ذمہ داری اپنے سر لی، ان کی زندگی میں یہ کتاب مکمل تیار نہیں ہوسکی، بعد میں انوار الحسن وسطوی صاحب نے دلچسپی دکھائی، کتاب چھپ کر منظر عام پر آگئی ہے اور اس کا اجراء بھی بڑے تزک واحتشام کے ساتھ حاجی پور کے مختار خانے میں ہوا، جہاں وہ بیٹھا کرتے تھے، تاریخ۲۳/جولائی ۲۰۲۳ء کی تھی، عبد المغنی صاحب سے محبت کرنے والوں کا جم غفیر جمع تھا، موقع یوسی سی کی مخالفت کا تھا، اس لیے مقررین نے تحفظ شریعت کے حوالہ سے ان کی خدمات کا دل کھول کر اعتراف کیا، اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور تحفظ شریعت کے لیے ان کا کوئی متبادل ملت کردے