Site icon

جھوٹے مقدمات سے برباد زندگی

تحریر:مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی 

قومی جرائم رکارڈ بیورو (NCRB)کی رپورٹ کے مطابق ایک سال میں تقریبا سوا لاکھ مقدمے جھوٹے پائے گئے، یہ مقدمات مخالفین کو پھنسانے کے لیے درج کرائے گیے تھے، کسی نے راستے کے جھگڑوں میں آبروریزی کا مقدمہ درج کرایا، کسی نے عورتوں سے چھیڑ خانی اور کسی نے دشمنی کا بدلہ لینے کے لیے مار پیٹ اور ارادہ قتل وغیرہ تک کی ایف آئی آر درج کرائی، عدالتی سطح پر ان مقدمات کو جانچ اور بحث کے بعد جھوٹا پایا گیا، اس کی وجہ سے ذہنی اذیت، جسمانی ہراسانی اور مال ودولت کا ضیاع ہوا، متعلقہ شخص کی سماجی حیثیت بھی مجروح ہوئی، پہلے یہ کام افراد کیا کرتے تھے، اب اس کا دائرہ بہت وسیع ہو گیا ہے، اس قدر وسیع کہ یہ معاملہ ہمارے تصور سے بالا تر ہے، اس قسم کے جھوٹے مقدمات میں آدمی کی زندگی برباد ہوجاتی ہے، کبھی تو اس لیے کہ اسے جیل میں ڈال دیا گیا، اس کی پیروی کرنے والا کوئی نہیں ہے، وکیل کی موٹی فیس دینے کے لیے اس کے پاس رقم نہیں تھی، وہ اپنے جھوٹے مقدمات کا جھوٹا ہونا عدالت میں ثابت نہیں کر سکا، نتیجہ یہ ہوا کہ نا کردہ گناہوں کی اسے سزا مل گئی، اور اصل مجرم اپنی دولت اور اثر ورسوخ کے بل پر بچ گیا۔

 اس کے لیے لوگوں کی ذہنیت بدلنے کی ضرورت ہے پہلے مرحلہ میں مقدمہ کے سچ اور جھوٹے ہونے کی تحقیق ہونی چاہیے، جب مقدمہ سچا ثابت ہو تبھی داروگیر کے مرحلہ سے گذار اجائے، پھر جن کے پاس وکلاء کی فیس کی ادائیگی کی سکت نہیں ہے اس کے لیے سرکاری خرچ پر وکیل فراہم کیے جائیں، تاکہ انصاف کے تقاضے پورے ہو سکیں، حکومت کو ایک ایسا طریقہ کار طے کرنا چاہیے، جس سے اس قسم کے جھوٹے مقدمات پر روک لگائی جا سکے، اس لیے کہ قانون لوگوں کی مدد کے لیے ہے، کسی کو ستانے اور پریشان کرنے کے لئے نہیں، جب مقدمات جھوٹے ثابت ہو جائیں تو سزا مدعی کو دینی چاہیے کہ اس نے ایسے جھوٹے مقدمات کے ذریعہ عدالت کا وقت کیوں برباد کیا،جو عمر ملزم کی جیل کے سلاخوں کے پیچھے گذری اور بعد میں اس کو عدالت نے با عزت بری کر دیا، اس کی تلافی کی بظاہر کوئی شکل تو نہیں ہے، لیکن اگر اسے کچھ معاوضہ دلوادیا جائے تو اقتصادی اعتبار سے تباہی کی کسی قدرتلافی شاید ہوسکے۔

Exit mobile version