تبصرہ نگار: محمد صابر حسین ندوی
اللہ تعالی نے انسانوں کی ایک جنس کے طور پر پیدا کیا، مگر ان میں عقلی، فکری، فقر و غنی غرض ہر اعتبار سے تفاضل، مراتب اور درجات رکھے، یہ عین رب ذوالجلال کی منشا کے مطابق ہے، آپ نے دیکھا ہوگا کہ کسی باغ میں جب رنگ برنگے پھول ہوتے ہیں، تبھی اسے خوبصورت سمجھا جاتا ہے، گلدستہ کی رعنائی اس کی نیرنگی میں ہوتی ہے، یک رنگی نگاہوں کو اتنی نہیں بھاتی، انسانی مزاج میں تنوع، کھان پان، رہن سہن اور بول چال میں اختلاف یہ سب کچھ اسے حسین تر بناتے ہیں، پھر یہ کہ اللہ تعالی نے انسانوں کو قبائل، علاقہ، خاندان اور رشتے دار کے طبقات میں تقسیم کردیا، ایک جنس کو بکھیر کر مختلف رنگ اور متعدد گل پیدا کر دئے، یہ کوئی برتری، فخر اور مباہات کیلئے نہیں ہے؛ بلکہ صرف اس لئے ہے کہ انسانوں کا جمگھٹا ایک دوسرے سے متعارف ہو، ان میں پہچان، بھائی چارگی، اخوت اور مواسات کی باد بہاری چلے، جب انسان ایک دائرہ طے کرتا ہے تو پھر اس کی دیکھ ریکھ بہ آسانی کر لیتا ہے، اقدار و اعمال کی پاسبانی اور رواج کی قدر کرنے میں تکلیف نہیں ہوتی، اگر وہی دائرہ بہت بڑا ہوجائے تو پھر مشکل ہوجاتی ہے، ہر انسان قابل احترام ہے، مگر ان میں مواخات کے تعلق سے اقرب علی الأقرب کا اصول جاری ہوگا، قرآن مجید نے اس تفریق کا مقصود واضح کردیا ہے اور مرکزی نقطہ تقوی کو قرار دے کر ساری بحث ہی ختم کردی ہے، نیز اسی سے متصل یہ بھی کہہ دیا کہ اللہ خوب جاننے والا ہے، چونکہ تقوی دل کی بات ہے تو ایسا نہ ہو کہ کوئی تقوی کے نام پر دھاندلی کرے اور عوام کو بےوقوف بنائے، اگر ایسا ہوتا ہے تو انہیں یاد کر لینا چاہیے کہ اللہ علیم و خبیر ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: یٰۤاَیُّھَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّ اُنْثٰی وَ جَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا ؕ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰكُمْ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ (حجرات:١٣) "اے لوگو ! ہم نے تم کو ایک مرد و عورت سے پیدا کیا ہے اور مختلف خاندان اور کنبے بنادیئے ہیں ؛ تاکہ ایک دوسرے کو پہچان سکو ، یقیناً اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ باعزت وہ ہے ، جو سب سے زیادہ تقویٰ والا ہو ، یقیناً اللہ بہت جاننے والے اور بہت باخبر ہیں” – – – فقیہ العصر ،حضرت مولانا خالد سیف اللہ صاحب مدظلہ رقمطراز ہیں:” خاندان اور قبیلہ کی تقسیم اونچ نیچ کی بنیاد نہیں ہے ، کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنے آپ کو پیدائشی طورپر معزز اور دوسرے کو حقیر سمجھے ؛ کیوں کہ معزز ہونے اور نہ ہونے کا تعلق انسان کے عمل اور تقویٰ سے ہے نہ کہ خاندان سے ، یہ بات اس لئے فرمادی گئی کہ عربوں میں خصوصاً اور دنیا کی دوسری مختلف قوموں میں عموماً خاندانی اونچ نیچ کا تصور رہا ہے اور اوپر جن برائیوں سے منع کیا گیا ہے ، جیسے مذاق اُڑانا ، طعنہ دینا ، ناشائستہ نام سے پکارنا وغیرہ ، ان میں اس احساس کا بڑا اثر ہوتا ہے ۔ یہاں خاندان کے لئے شعوب اور قبائل دو الفاظ استعمال کئے گئے ، شعوب اوپر کی شاخ سے بنتا ہے اور اس لئے اس کا دائرہ وسیع ہوتا ہے ، اور قبیلہ نیچے کی قریبی شاخ ہوتی ہے ؛ اس لئے اس کا دائرہ نسبتاً چھوٹا ہوتا ہے ۔ ” (دیکھئے: آسان تفسیر قرآن مجید)
یہ قبائل، خاندان اگر ایک ساتھ ہوں تو اس سے بہتر کچھ نہیں؛ لیکن اگر افراد بڑھ جائیں تو بہت سی پریشانیاں بھی بڑھ جاتی ہے، تقوی کا معیار ملحوظ نہیں رہتا، چونکہ انسان کی فطرت میں جدل، ہٹ دھرمی اور ضد ہے، ایسے میں بہت سے لوگوں کا باہمی قیام حسد جلن اور مسابقت کا ماحول پیدا کردیتا ہے اور رسہ کشی دشمنی تک چلی جاتی ہے، اسلامی تعلیمات کی روشنی میں دیکھا جائے تو جداگانہ خاندان ہو یا مشترکہ دونوں ہی اپنی جگہ درست ہیں جبکہ ان میں معیار تقوی ہو، اگر دل کی دنیا آباد نہ ہو تو پھر دونوں پیٹرن ناقابل برداشت ہوجاتے ہیں، عام طور پر گزشتہ زمانے میں مشترکہ خاندان کا رواج تھا، اس کے بہت سے اسباب تھے، لوٹ پاٹ، لڑائی جھگڑے اور رقابتں؛ جن میں یقیناً اتحاد ایک بڑا فیکٹر ہوا کرتا تھا، مگر جوں جوں دنیا نے ترقی کی، صنعتی انقلاب ہوا، مال و اسباب مہیا ہوئے، ثقافت اور تہذیب نے دستک دی تو جداگانہ خاندان کا رواج چل پڑا، یہ اگرچہ بہت سے مفاسد سے دور ہے؛ لیکن تربیتی و فکری اعتبار سے بڑے نقائص ہیں، قرآن مجید میں دونوں کا تذکرہ کیا گیا ہے، ایک آیت سے جداگانہ خاندان کا پتہ چلتا ہے، ارشاد ہے:أَن تَأْكُلُوا مِن بُيُوتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ آبَائِكُمْ أَوْ بُيُوتِ أُمَّهَاتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ إِخْوَانِكُمْ أَوْ بُيُوتِ أَخَوَاتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ أَعْمَامِكُمْ أَوْ بُيُوتِ عَمَّاتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ أَخْوَالِكُمْ أَوْ بُيُوتِ خَالَاتِكُمْ (سورة النور: 61)’’ضرورت پر تم اپنے گھروں سے کھا لو، اپنے باپ دادا کے گھروں سے کھاؤ، اپنی ماؤں کے گھروں سے کھاؤ، اپنی بہنوں کے گھروں سے، چچاؤں پھوپھیوں کے گھروں سے، مامووں اور خالاؤں کے گھروں سے۔‘‘ – فہرست میں سب کے سب قریبی عزیز ہیں، ایک ہی خاندان کے افراد ہیں، مگر سب کے گھر علیحدہ علیحدہ ہیں اور چولہے ہانڈی بھی الگ الگ۔ تو وہیں سورہ مدثر میں مشترکہ خاندان کا بھی ثبوت ہے؛ بلکہ اسے نعمت الہی میں شمار کیا گیا ہے:وَّ بَنِیْنَ شُھُوْدًا (مدثر:13) "حاضر باش اولاد سے نوازا” – – – اسے آپ یوں بھی تعبیر کر سکتے ہیں کہ مشترکہ خاندان عزیمت ہے اور علیحدہ گھرانہ رخصت ہے اور ہمارا دین کسی ایک ہی کو اختیار کرنے پر مجبور نہیں کرتا، حکمت ومصلحت اور اپنی طاقت وصلاحیت کو بہرحال مقدم رکھنا چاہیے، علیحدہ گھروں کے لیے دلیل دی جائے تو عہد نبوت کے طرز معاشرت کو دیکھ لیجیے اور خود کاشانۂ نبوت میں ازواج مطہرات، امہات المؤمنین کے گھروں اور بودو باش کو الگ الگ دیکھ سکتے ہیں.
آپ جب ان دونوں جہتوں پر مطالعہ کریں گے تو مقالہ نگار، محققین، معاشرتی مسائل پر نگاہ رکھنے والے اپنے اپنے افکار اور ذہن کی رسائی متعدد موشگافیاں کرتے ہوئے پائیں گے، کسی نے نزدیک مشترکہ خاندان اولی ہے تو کوئی جداگانہ خاندان کو بہتر جانتا ہے؛ لیکن سچ یہ ہے کہ دونوں ہی نظام معیار تقویٰ کی بنا پر قائم رہ سکتے ہیں اور کچھ نہیں، اگر ممبران میں تقوی، خشیت اور احساس ذمہ داری ہو تو دونوں نظام آسان ہوں گے اور اگر نہ ہو تو کوئی بھی نظام کام کا نہیں؛ البتہ اس سے بھی چشم پوشی نہیں کی جاسکتی کہ مشترکہ خاندانی نظام میں بعض دینی مفاسد بھی ہیں؛ ایسے میں جداگانہ نظام کو اگر آپسی محبت، والدین کے تئیں امانت داری اور احساس اپنائیت کے ساتھ اپنایا جائے تو برا نہیں، مولانا قمر الزمان صاحب ندوی مدظلہ نے اس موضوع پر بعنوان "مشترکہ خاندانی نظام، غور و فکر کے چند پہلو” قلم فرسائی کی ہے، کتاب 104 صفحات پر مشتمل ہے، مکتبہ ندویہ، ندوہ العلماء لکھنؤ نے نشر کیا ہے، مولانا رحمت اللہ ندوی (استاذ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ) کا جامع مقدمہ ہے، مولانا ڈاکٹر طارق ایوبی ندوی کے قلم سے پیش لفظ ہے جو اپنے میں بہت وقیع ہے، پھر عرض مولف، عرض ناشر ہے اور اس کے بعد اسے تین ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے، پہلا باب مشترکہ خاندانی نظام غور و فکر کے چند پہلو، دوسرا باب مشترکہ خاندانی نظام کے بعض مشکلات اور ان کا حل، تیسرا باب مشترکہ و جداگانہ خاندانی نظام اہل علم کی نظر میں – – سے متعلق ہے، کتاب اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے بیسویں فقہی سمینار منعقدہ 5 – 7 مارچ 2011 رامپور یوپی کیلئے تیار کردہ مقالہ ہے، جس پر نظر ثانی کی گئی اور پھر ماہنامہ ندائے اعتدال علی گڑھ سے قسط وار شائع بھی کیا گیا، موضوع کو سمیٹی یہ کتاب دلائل، تحقیق اور شواہد سے پر ہے، مولانا نے تجربات کی روشنی میں مشکلات کا اچھا حل پیش کیا ہے، ظاہر ہے جب کئی برتن ایک ساتھ ہوں تو آواز آتی ہی ہے، مگر سوجھ بوجھ اور حکمت سے اس آواز کو ختم نہیں تو کم ضرور کیا جاسکتا ہے، مشاہیر علماء کی رائے اور خود فاضل مصنف کی نظر سے دیکھیں تو عموماً ایک جداگانہ خاندانی نظام کی وکالت کی گئی ہے، بعضوں نے دونوں نظام سے ماخوذ منافع کو جمع کرنے کی کوشش کی ہے اور ایک الگ نظام کا خاکہ پیش کرنے کی اپیل کی ہے، کتاب اپنے موضوع پر قابل مطالعہ ہے، سماج میں بیداری کا ذریعہ ہے، اگرچہ ضخیم نہیں ہے، مگر ضروری مباحث پیش کر دئے گئے، یہ بھی ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ کوئی صاحب قلم اس کتاب کو سامنے رکھ کر مزید وسعت دے اور مشاہدات بالخصوص نئی نسل کیلئے خاندانی نظام اور اسے مستحکم کرنے کے طریقے پر روشنی ڈالے، مولانا تعارف کے محتاج نہیں، وہ جہد مسلسل کی تعبیر ہیں، ان سے ملنے والا جانتا ہے کہ نہایت منکسرالمزاج، خلوص اور محبت کے پیکر ہیں، حوصلہ دینا، نئی راہیں بتانا اور اس سلسلہ میں کاوش کرنا انہیں کا حصہ ہے، اب تک متعدد کتابیں منظر عام پر اچکی ہیں اور عوام و خواص میں مقبول بھی ہیں، مولانا اس کتاب کیلئے شکریہ کے مستحق ہیں، اللہ مولانا کو سلامت اور یونہی علم و عمل میں لگائے رکھے۔ آمین
اخیر میں مولانا نے خود جو اپنی رائے قائم کی ہے، اسے پڑھتے جاییے!
راقم السطور کی رائے میں ایک مشروط جدا گانہ خاندانی نظام زیادہ بہتر ہے جو شرعی قباحتوں سے بالکل پاک ہو، لیکن وہ علیحدہ نظام نہیں جس کا تجربہ دنیا نے فرانس کے صنعتی انقلاب کے بعد کیا ہے اور ساری دنیا اب جس کی لپیٹ میں ہے، صنعتی ممالک اور ترقی پذیر دنیا میں جس کے نظارے ہر جگہ عام ہیں، معاش کے تقاضوں نے آسودہ و شریف خاندانوں کو بھی بری طرح سے بکھیر کر رکھ دیا ہے اور وہ ٹکڑوں میں تقسیم ہو کر اس طرح بکھر گئے ہیں کہ اکثر خوشی وغم کے مواقع بھی انہیں یکجا نہیں کر پاتے ، ایسے نظام کو علحدہ خاندانی نظام کے بجائے صنعتی انتظام کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ اسلامی نقطہ نظر سے احقر ایک ایسے معیاری نظام اور معاشرت کا حامی اور قائل ہے جس میں اسلام کی شانِ اعتدال خوب نمایاں ہو، ایسی معاشرت جو نہ مشترک اور نہ ٹوٹی ہوئی اور لا تعلق ہو بلکہ فرائض و ملکیت کی علاحدگی کے ساتھ اخوت و محبت کی دوڑ میں سبھی باہم مربوط ہوں ، لوگ دو طرفہ طور پر خیر خواہانہ اور الفت آمیز سلوک اپنا فرض سمجھتے ہوں، سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ہراکائی دوسری اکائی کو تقویت پہنچائے اور گہرے جذبہ اپنائیت کا احساس دلاتی رہے۔ (مشترکہ خاندانی نظام، غور و فکر کے چند پہلو:42)