Site icon

حضرت مولانا سید بلال عبدالحیی حسنی ندوی کے خطاب کے چند اہم نکات

دارالعلوم ندوۃ العلما لکھنو

حضرت مولانا سید بلال عبدالحیی حسنی ندوی (ناظم ندوۃ العلماء لکھنؤ، سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ) کے خطاب کے چند اہم نکات

{نـــــوٹ: 11 دسمبر 2023 کو ٹاؤن ہوٹل، شاہین باغ، نئی دہلی میں حالاتِ حاضرہ اور ہماری ذمے داریاں کے موضوع پر ایک اجلاس منعقد ہوا. اس اجلاس میں کلیدی اور صدارتی خطاب ناظمِ ندوۃ العلماء مولانا سید بلال عبدالحی حسنی ندوی نے فرمایا. اجلاس میں قدیم و جدید ندوی علماء کے علاوہ مختلف مسالک کے علماء، دانش وران اور اسکالرز بڑی تعداد میں موجود تھے. اجلاس کے داعی برادر محترم بلال احمد ندوی تھے. ناظمِ ندوۃ العلماء کے فکرانگیز خطاب کے چند اہم نکات پیش ہیں. اجمل فاروق}

  • اگر آپ میڈیا کو نہ دیکھیں، لوگوں کے درمیان جاکر دیکھیں تو میرا تجربہ یہ کہتا ہے کہ اب تک ستّر فی صد برادران وطن کے ذہن مسموم نہیں ہیں. ان کے ذہن کو بگارنے کی کوشش ضرور ہورہی ہے، لیکن وہ سب اب تک صحیح ہیں. اور وہ سب آپ کا انتظار کر رہے ہیں.
  • اسلام کس چیز کا نام ہے؟ چند عقاید کا؟ چند اعمال کا؟ اسلام تو ایک مکمل نظام زندگی ہے. ایک کلچر بھی ہے، ایک فکر بھی ہے. سب کچھ ہے. جب تک اس پورے اسلام کو نہ سمجھا گیا اس وقت تک نہ اسلام کا دعویٰ کیا جاسکتا ہے اور نہ اسلام کو پیش کیا جاسکتا ہے.
  • سول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دو ایسی طاقتیں دی ہیں، جن سے دنیا کو کل بھی فتح کیا گیا تھا اور آج بھی فتح کیا جاسکتا ہے. ایک ایمان کی طاقت اور دوسرے اخلاق کی طاقت.
  • ہماری سب سے بڑی کوتاہی یہ ہے کہ ہم نے اسلام کو فراموش کیا ہے. مسئلہ اسلام کا نہیں ہے، ہمارا اور آپ کا ہے. اللہ تعالیٰ نے اسلام کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے، اسلام کا نام لے کر دن رات غیر اسلامی کاموں میں مست رہنے والے لوگوں کی حفاظت کا نہیں.
  • میں یہ نہیں کہتا کہ آپ اسباب و وسائل سے دور ہوجائیں، مادی چیزوں کے حصول سے دور رہیں. نہیں. ہمیں تو اس کا حکم ہے. لیکن اصل یہ ہے کہ ہم اپنی بنیادوں سے جڑے رہیں.
  • ندوے کی وسعت فکر یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ جو چاہو کرو اور جو فکر چاہو اختیار کرو. اگر ہم ایسا سوچتے ہیں تو ہم اپنی سوچ پر نہیں ہیں، اپنے اسلاف کی فکر سے ہٹ چکے ہیں. ہماری اصل فکر کیا ہے؟ وہی جسے علامہ شبلی نعمانی نے فرمایا تھا کہ دنیا کی ساری قوموں کی ترقی آگے بڑھنے میں ہے، لیکن امت مسلمہ کی ترقی پیچھے ہٹنے میں ہے، اتنا پیچھے ہٹنے میں کہ وہ جاکر عہد نبوی سے مل جائیں.
  • مسالک ترجیح کے لیے ہیں، تبلیغ کے لیے نہیں ہیں. باطل عقائد رکھنے والے فرقوں کو چھوڑ کر باقی تمام مسالک حق ہیں. اسی لیے ندوۃ العلماء نے سب کے لیے اپنے دروازے کھول رکھے ہیں. الحمد للہ ہمارے ہاں سب مسالک کے طلبہ آکر پڑھتے ہیں. کیوں کہ اصل تو دین ہے. ہمیں ندوے سے محبت بھی اس لیے ہے کہ وہ دین کی حفاظت اور اشاعت کا مؤثر راستہ دکھاتا ہے. اگر ندوے سے دین ختم ہوجائے تو ہمیں اس سے کیا واسطہ؟
  • ندوے کی تاسیس کے وقت بہت سے ادارے موجود تھے. ان سب کی خدمات ناقابل فراموش ہیں اور سب کا ہمیں دل سے اعتراف ہے، لیکن وسعت و ہمہ گیری اور باہمی اشتراک کے ساتھ اشاعت دین کا تصور موجود نہیں تھا. ہم کہہ سکتے ہیں کہ "ليتفقهوا في الدين” تو موجود تھا، لیکن "ولينذروا قومهم إذا رجعوا” کی کمی تھی. ندوہ اسی کمی کو دور کرنے کے لیے آیا تھا۔
  • حالات کی تبدیلی کا راستہ صرف یہ ہے کہ ایمان کو مضبوط کیا جائے اور اخلاق کو اعلیٰ کیا جائے. ان دونوں ہتھیاروں کو ماضی میں بارہا آزمایا گیا ہے اور یہ ہمیشہ کارگر رہے ہیں. آج بھی انھی ہتھیاروں سے لیس ہوکر مسلسل کوشش کرنی ہوگی. آپ محنت کریں گے تو آپ کی اولاد نتائج دیکھیں گی. فوراً کوئی بڑا نتیجہ سامنے نہیں آئے گا۔
  • کسی راستے پر چلنا بند کردیا جائے تو کچھ مدت بعد وہ راستہ ہمیشہ کے لیے بند ہوجاتا ہے. قاضی مجاہد الاسلام قاسمی اس سلسلے میں کھیت کی مثال دیتے تھے کہ کھیتوں میں بنے راستوں پر چلنا چھوڑ دیا جائے تو کچھ دن بعد گھاس اُگ جاتی ہے اور لوگ اس راستے کو بھی کھیت میں ملا لیتے ہیں. مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد بہاری نے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ کام کا ایک دائرہ عطا فرماتا ہے، اسے استعمال نہ کیا جائے تو آہستہ آہستہ وہ دائرہ بند ہوجاتا ہے. آج ہمیں ہندستان میں جو مواقع ہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ خدا نہ خواستہ کل وہ مواقع بھی ختم ہوجائیں. آپ آج نمازیں نہ پڑھیں تو اللہ نہ کرے کل نمازوں ہی پر پابندی نہ لگ جائے۔
  • حضرت مولانا علی میاں صاحب نے فرمایا تھا کہ میری آنکھیں دیکھ رہی ہیں کہ اس ملک کی اکثریت نے فیصلہ کرلیا ہے کہ اس ملک کو ہندو راشٹر بنانا ہے. اگر ہمارے علماء نے حالات کو نہ سمجھا اور جدوجہد شروع نہ کی تو اس ملک کو اسپین بننے سے کوئی نہیں روک سکتا.
  • اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ایمان اور اخلاق کا جو جوہر دیا ہے، اس کی چنگاری جب اٹھے گی تو صبح ہونے میں دیر نہیں لگے گی. تاریخ میں ایسا بارہا ہوچکا ہے اور آگے بھی یہی ہونا ہے۔
Exit mobile version