Site icon

توسل

از: ڈاكٹر محمد اكرم ندوى آكسفورڈ

سوال:

 بهوپال كے ممتاز عالم دين مولانا حيدر على ندوى كى جانب سے درج ذيل سوال موصول ہوا:

مولانا میرا سوال یہ ہے کہ سلفی علمائے کرام نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات اقدس کا وسیلہ دینے سے کیوں منع کرتے ہیں، حالانکہ تمام علمائے کرام اسے متفقہ طور پر جائز کہتے تھے یہاں تک کہ ابن تیمیہ جب آئے تو انہوں نے سب سے پہلے اسے حرام قرار دیا، واضح رہے کہ تمام مذاہب کے علمائے کرام اس وسیلے کو جائز قرار دیتے ہیں، تو سلفی علمائے کرام اسے حرام قرار دینے پر اصرار کیوں کرتے ہیں؟ 

وسیلہ اور اس کی کیا حقیقت ہے برائے مہربانی واضح فرمائیں، دراصل یہ میرے چند دوستوں کی طرف سے سوال آیا تھا میں اس سلسلے میں آپ سے دریافت کرنا چاہتا ہوں آپ سے دل مطمئن ہوجاتا ہے، جزاک اللہ خیرا۔

جواب:

 يه ايك       اہم سوال ہے، جس كے مختلف اجزاء ہيں، ان كى اہميت كے پيش نظر ہم نے انہيں ذيلى عناوين ميں تقسيم كرديا ہے:

توسل كا مفہوم:

 وسيله اور توسل كا ايك معنى ہے: قربت اور تقرب، سورۂ مائده كى آيت 35 "وابتغوا إليه الوسيلة”ميں يہى مفہوم ہے، اسى طرح اذان كا جواب دينے والى حديث "آت محمدا الوسيلة” ميں بهى وسيله سے قربت كا مقام عالى مراد ہے، يه حديث امام بخارى نے اپنى صحيح ميں حضرت جابر رضي الله عنه سے نقل كى ہے۔

 الله تعالى سے قربت كا ذريعه ايمان اور عمل صالح ہے، قرآن وحديث ميں اسى توسل كا حكم ہے، اگر كوئى شخص كہے: اے الله ميرا آپ پر ايمان ہے، مجهے آپ سے محبت ہے، مجهے آپ كے نبى صلى الله عليه وسلم سے محبت ہے، يه توسل بالعمل ہے، يه درست ہے۔

 ايسا توسل جس ميں ايمان وعمل صالح نه ہو، يا ايمان اور عمل صالح كا حواله نه ہو اس كا قرآن وسنت سے كوئى ثبوت نہيں، مثلا يه كہنا كه فلاں كے جاه سے يا فلاں كے وسيله سے اے الله ميرى مغفرت فرما، يا ميرى دعا قبول كر، اس معنى ميں توسل ايكـ نئى چيز ہے، اس طرح كا توسل كرنے والے كبهى نبى اكرم صلى الله عليه وسلم كے واسطه سے دعا كرتے ہيں، كبهى كسى شيخ كے واسطه سے، تصوف سے وابسته بہت سے حضرات اپنے سلسله كے تمام مشائخ كے واسطه سے دعا كرتے ہيں۔

توسل كى ابتداء:

توسل كا يه مفہوم بعد كى صديوں ميں رائج ہو گيا، سلاسل تصوف كى اشاعت كے بعد اس طرح كا توسل عام مسلمانوں ميں پهيلا، اور كچه لوگ اسے دين كا حصه سمجهنے لگے، آپ كے سوال سے بظاہر يہى لگتا ہے كه توسل ہى اصل ہے، اور توسل پر نكير امام ابن تيميه كے زمانه سے شروع ہوئى، افسوس كه بدعتوں كو اصل دين كا درجه ديديا گيا، اور اصل دين كو نئى چيز سمجه ليا گيا، شرح العقيدة الطحاوية ميں امام ابن العز الحنفى لكهتے ہين: "ولهذا قال أبو حنيفة وصاحباه رضي الله عنهم: يكره أن يقول الداعي: أسألك بحق فلان، أو بحق أنبيائك ورسلك، وبحق البيت الحرام، والمشعر الحرام، ونحو ذلك” يعنى امام ابو حنيفه، امام ابو يوسف اور  امام محمد رحمة الله عليہم كے  نزديكـ  انبياء ومرسلين وغيره كے حق كے توسل سے دعا كرنا مكروه ہے۔

كيا توسل كى كوئى دليل ہے؟

 اس توسل كا كوئى ثبوت نه قرآن كريم ميں ہے، نه سنت نبويه ميں، نه صحابه وتابعين كے آثار ميں، ائمه اربعه ابو حنيفه، مالكـ، شافعى، احمد بن حنبل وغيرہم سے بهى اس طرح كا توسل يا وسيله منقول نہيں۔

 صحيح بخارى كى ايكـ روايت ہے: "عن أنس بن مالك أن عمر بن الخطاب رضي الله عنه كان إذا قَحَطوا استسقى بالعباس بن عبد المطلب، فقال: اللهم إنا كنا نتوسل إليك بنبينا فتسقينا، وإنا نتوسل إليك بعم نبينا فاسقنا، قال: فيُسقَون”، بعض لوگ اسے مروجه وسيله كى دليل كے طور پر پيش كرتے ہيں، حالانكه يه حديث اس كى نفى كرتى ہے، اس ميں حضرت عمر رضي الله عنه فرماتے ہيں كه جب تكـ نبى كريم صلى الله عليه وسلم حيات تهے ہم آپ سے دعا كرواتے تهے، جب آپ كا وصال ہوگيا تو ہم آپ كے چچا حضرت عباس سے دعا كرواتے ہيں۔

 اگر اس حديث ميں مروجه توسل مراد ہوتا تو يه بات بے معنى ہے كه آپ كے وصال كے بعد ہم حضرت عباس رضي الله عنه كے وسيله سے دعا كرتے ہيں، كيونكه توسل كے قائلين تو وفات شدگان كا وسيله مانگتے ہيں، اور وه آج تكـ نبى اكرم صلى الله عليه وسلم كا توسل اختيار كرتے رہتے ہيں۔

توسل كى حرمت:

 دعا عبادت ہے، بلكه عبادت كا مغز ہے، كسى كام كے عبادت ہونے كے لئے وحى كى دليل كى ضرورت ہوتى ہے، كوئى عمل محض انسان كى رائے سے عبادت نہيں بنتا، نبى اكرم صلى الله عليه وسلم كا ارشاد ہے: "من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو رد”، يعنى جو شخص بهى ہمارے اس دين ميں كوئى ايسى چيز داخل كرے جو اس كا حصه نه ہو تو وه نا قابل قبول ہے، يه حديث صحيح بخارى، صحيح مسلم اور حديث كى دوسرى كتاب ميں وارد ہے۔

 الله تعالى نے قرآن كريم ميں اپنے اسماء وصفات كے واسطه سے دعا كرنے كا حكم ديا ہے، "ولله الأسماء الحسنى فادعوه بها” سورة الاعراف آيت 180، سورۂ مائده كى مذكوره بالا آيت "وابتغوا إليه الوسيلة” ميں حكم ہے كه الله تعالى كى قربت كى سعى كرو، اور الله تعالى كى قربت كا طريقه قرآن وسنت ميں تفصيل سے بيان ہوا ہے، اور وه ہے ايمان وعمل صالح، انسان ايمان وعمل صالح ميں جس قدر ترقى كرے گا اتنا ہى وه الله تعالى سے قريب ہوگا۔

توسل كى قباحت:

 الله تعالى كا دروازه ہر وقت كهلا ہے، وه چاہتا ہے كه اس كے بندے اس سے مانگيں، اور وه اپنے علاوه دوسروں سے مانگنے سے منع كرتا ہے، اگر وه خود دعا قبول نه كرتا تب دوسروں كا دروازه كهٹكهٹانے كى گنجائش ہوتى، مگر وه جب وه ہر وقت دعا قبول كرتا رہتا ہے، رات ہو يا دن، كسى حال ميں دعا پر كوئے روكـ نہيں ہے تو كسى كے واسطه كى اس دربار ميں كيا حاجت؟

 يه سمجهنا كه الله تعالى دعا قبول كرنا نہيں چاہتا، وه دينا نہيں چاہتا، لہذا ہم اسے فلاں فلاں لوگوں كا نام لے كر مرعوب كرديں گے اور اس طرح وه دينے پر مجبور ہو جائے گا، يه الله تعالى كى شان ميں سخت بے ادبى ہے اور گستاخى ہے، بلكه يه اتنا قبيح عمل ہے كه تهوڑے سے تامل سے اس كى قباحت عياں ہو سكتى ہے۔

الله تعالى سے براه راست مانگيں:

 الله تعالى سے مانگنے كا طريقه يہى ہے كه اس سے براه راست مانگا جائے، يہى پيغمبروں كا طريقه ہے، اور يہى سلف صالحين كا طريقه ہے۔ مجهے ياد ہے كه جب ميں زمانۂ طالبعلمى ميں پہلى مرتبه نظام الدين تبليغى مركز ميں گيا، اور وہان حضرت مولانا انعام الحسن امير جماعت كى دعا سنى جس كے آخر ميں انہوں نے فرمايا: اے الله محض اپنے فضل سے ہمارى دعائيں قبول فرما، تو مجهے بيحد خوشى ہوئى، اور حضرت جى رحمة الله عليه كا مقام ميرى نگاه ميں بلند ہو گيا، ايمانى غيرت كا تقاضا ہے كه الله تعالى سے اسى كے فضل وكرم كے واسطه سے مانگا جائے۔

Exit mobile version