از قلم: مسعودجاوید
ملی سطح پر معاشرہ میں بے شمار ایسے مسائل ہیں جو انفرادی اور اجتماعی طور پر بھر پور توجہ کے مستحق تھے لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔
معاشرہ کی تشکیل افراد سے ہوتی ہے۔ ایک کلچر یعنی مذہب ، زبان ، کھان پان اور لباس جن کے مجموعے کو ایک کلچر یا سوسائٹی کہتے ہیں ۔ بعد میں شمولی معاشرہ inclusive society کے وجود میں آنے کے لئے مذہب کو اس سے خارج کر دیا گیا یعنی ایک زبان ، رسم ورواج کھان پان اور لباس والے، جو گرچہ مختلف المذاہب ہوں، ایک سماجی اکائی کہلائے۔ تاہم مذہب کی چھاپ اتنی گہری تھی اور دینی تشخص اتنا نمایاں تھا کہ ہمیشہ سماجی اکائی پر حاوی رہا اور اس طرح مسلم سماج اور ہندو سماج سے معنون ہوا۔ پھر ہندو سماج میں بھی جین سماج, سکھ سماج، بودھ سماج وغیرہ نے بھی اپنی شناخت بہت حد تک باقی رکھی۔
میں مسلمانوں میں اس طرح کی تفریق اور تشخص کا قائل تو نہیں ہوں لیکن کثرت آبادی کے تناظر میں دیکھتا ہوں کہ چھوٹی چھوٹی اکائیاں بہتر اور منظم طور پر اپنے سے وابستہ افراد کے لئے یعنی اپنے اپنے سماج کے لئے کام کر رہے ہیں ۔ بوہرہ سماج اور سکھ سماج کی مثال ہمارے سامنے ہے۔
ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے مرکزی ملی تنظیموں نام نہاد ” کل ہند” یا آل انڈیا ” جمعیتوں اور جماعتوں پر مکمل انحصار کیا ہے اور ہر چھوٹے بڑے مسئلے کا حل ان سے چاہتے ہیں۔ ہم نے دانستہ یا غیر دانستہ انہیں اپنا کل ہند قائد تسلیم کیا ہے ان میں بھی دینی طبقہ کو ! لاکھوں روپے ریسرچ پر خرچ کرنے کے بعد ماہرین اس نتیجہ پر پہنچے کہ جس کا جو اختصاص ہو وہ وہی کام کرے۔ اب کسی مولانا سے یہ توقع کرنا کہ عدالتوں کے قانونی پہلوؤں پر ان کی نظر رہے یا عصری تعلیم کے پیچ و خم کو وہ سمجھیں یہ ہماری کوتاہ بینی ہے۔ دوسری طرف یہ ہوا کہ مسلمانوں کے اصحاب اختصاص یعنی دانشوروں کا ملی کاموں میں دلچسپی نہ لینا بھی نام نہاد ملی تنظیموں کے سربراہان کو ہر فن مولا لیڈر بنانے میں معاون ہوا ہے۔
ملی تنظیموں میں ون مین شو کی چلن بہت زیادہ ہے۔ ہیکل اداری administrative pyramid, اور لامرکزیت decentralisation کا فقدان ہے۔ جس کا نتیجہ ہے کہ مرکزی قائدین کا صوبائی اور ضلعی ذمہ داروں کے ساتھ رابطہ براۓ نام ہوتا ہے۔
پچھلے دنوں ملی تنظیموں کے تناظر میں آر ایس ایس کا حوالہ دیا تھا تو بعض احباب اس سے نالاں ہو گئے اور لکھا کہ کیا آر ایس ایس اب ہمارا رول ماڈل ہو گا ! ہاں اگر ہمارے عقیدے سے متصادم نہ ہو تو اسے لینے میں حرج کیا ہے۔ خذ ما صفا ودع الكدر۔ یعنی اچھی باتیں کہیں سے ملے اسے لے لو اور جو ٹھیک نہیں اسے چھوڑ دو۔
اس تنظیم کا ایک بہتریں نظام پنا پرمکھ ہے یعنی ہر محلے میں اتنے گھروں کے ذمہ داروں کے نام لکھے جائیں جو ایک پنا یعنی صفحہ پر آ جائے۔ پھر ان لوگوں میں سے کسی ایک کو ذمہ دار پرمکھ بنا دیا جائے جو اس صفحہ پر مذکور لوگوں سے ہمیشہ رابطہ میں رہے ان کے گھر کے دروازوں پر دستک دے کر ان کے احوال پوچھے اور مضبوط وابستگی کا احساس دلائے۔
ہے کوئی ایسی مسلم تنظیم جس کے محلہ/ بلوک لیول پر ایسا کوئی پنا پرمکھ ہو جو وابستگی کا احساس دلائے جو خبر گیری کرے اور جو دینی و اخلاقی تربیت کرے۔ جو ضرورت مندوں کو دس بیس پچاس ہزار دے کر چھوٹا سا کاروبار کراۓ اور یومیہ سو دو سو وصول کرے ، جن کا اپنا چیریٹیبل کلینک / نرسنگ ہوم ہو۔ کسی زمانے میں جماعت اسلامی نے طلباء میں وابستگی کا یہ کام شروع کیا تھا جو عرصہ ہوا چھوڑ دیا گیا۔
آج ضرورت ہے چھوٹی چھوٹی اکائیاں بنانے کی۔ آج ہر کالونی کی آبادی ایک چھوٹے شہر کے برابر ہے۔ اگر ہر کالونی کی سطح پر کام کرنے میں دشواری ہو تو اپنے گھر کے دائیں دس گھر ، بائیں دس گھر، آگے دس گھر اور پیچھے دس گھر کے لئے اگر فکر مند ہو جائیں تو مسلم سماج میں تعلیمی اور معاشی طور پر انقلاب آ جائے گا۔
کب تک عالیشان آفس اور ایر کنڈشنڈ ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر مرکزی قیادت کی اہمیت اور افادیت پر بیانات دینے والوں کو سنتے اور پڑھتے رہیں گے۔
٢٠٢٤ کو اجتماعی قیادت نہیں انفرادی جدوجہد کا سال کا اعلان کریں۔ مرکزی قیادت اور روایتی بیان بازی کے حصار سے باہر نکلیں ۔
جنوبی ہند میں ڈاکٹر عبدالقدیر کی شاہین ایجوکیشنل اکیڈمی اور اس طرح کی دیگر ایجوکیشنل سوسائٹی کا قیام دہلی میں مقیم ملی قیادت کے ہاتھوں عمل میں نہیں آیا۔
شمالی ہند میں ایسی سوچ رکھنے والے عنقا کیوں ہیں! علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کا ذکر کر کے” پدرم سلطان بود” سے آگے کیوں نہیں بڑھے!۔