Site icon

میری زندگی بہت وحشیانہ تھی

از قلم: تابش سحر 

"مذہب اور اس کی تعلیمات’ انسانی ذہن کی اختراع ہے، جنّت جہنّم کا تصوّر ایک فسانہ اور خدا پر یقین’ محض توہّم پرستی!” یہ مذہب بیزار افراد کا عقیدۂ و ایمان ہے جس کا وہ زور و شور سے اعلان کرتے ہیں اور تخلیق، وجودِ باری تعالیٰ اور حیات بعد از ممات جیسے مذہبی نکات کو مذاق کا موضوع بناتے ہیں۔ ان کی توانائی مذہب کی ہجوگوئی اور سائنس کی مدح سرائی میں صرف ہوتی ہے، یہ سمجھتے ہیں کہ چیزوں کو سمجھنے، پرکھنے اور جانچنے سے مذہب کی قلعی کھلتی ہے اور انہیں یہ یقین ہوچلا ہے کہ ان کے "خیالات و نظریات” کو سائنس کی تائید حاصل ہے جبکہ قرآن مجید’ زمین و آسمان کی تخلیق میں غور و فکر کی تعلیم دیتا ہے۔ کیوں؟۔

زمین و آسمان کی تخلیق پر غور کرنے والا آخر اس نتیجے پر ضرور پہنچے گا کہ ان عظیم مخلوقات کو یونہی نہیں پیدا کردیا گیا، ان کی پیدائش کا کوئی نہ کوئی مقصد ضرور ہے۔ ان دیوہیکل پہاڑوں کو کس نے بلندی بخشی؟ بےعیب و بےشگاف آسمان’ محض کسی دھماکے سے کیوں کر وجود میں آسکتا ہے؟ زمین کو رہنے لائق کس نے بنایا؟ دن اور رات کا بدلنا، حیات و ممات کا فلسفہ، ستاروں کی گردش اور موسموں کا کرشمہ، انسانی دماغ کے پیچیدہ خلیے اور رگوں میں خون کا دوڑنا کیا یہ سب کچھ اتفاقی ہے؟ ہرگز نہیں جیسے جیسے انسان تجربات کے دور سے گزرتا ہے، مشاہدے کے آئینے میں چیزوں کو پرکھتا ہے، مخلوقات پر غور کرتا ہے اور فطرت کے حیرت انگیز نظام کو سمجھنے کی اپنی سی کوشش کرتا ہے تو وہ ضرور خدا کو دل کی آنکھ سے دیکھتا ہے اور خدا کو پاکر وہ ایسے سکون محسوس کرتا ہے جیسے سفر کی ہزاروں صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد کسی مسافر کو منزل مل گئی ہو، وہ منزل جس کی تلاش میں وہ در در کی ٹھوکریں کھاتا رہا۔ 

سائنس و تحقیق کی شاہراہ پر چلنے والے مسافر کبھی کسی موڑ پر تھک کر بیٹھ جاتے ہیں یا راہ میں حائل سنگریزوں ہی کا مشاہدہ کرتے ہوے اپنی زندگی کے دن پورے کرلیتے ہیں البتّہ جنہیں منزل کی تلاش ہوتی ہے وہ منزل پر پہنچ کر ہی دَم لیتے ہیں۔

جاپانی سائنسداں ڈاکٹر اتسوشی اوکوڈا کو کالج کے زمانے میں سچ کی تلاش تھی چنانچہ وہ مذاہبِ عالم کا مطالعہ کرنے لگے، مذہب پسندوں سے بحث و مباحثہ کرنے لگے ایک دن ان کی نظر ایک تحقیقی مقالے پر پڑی جس میں قرآن کی آیت لکھی ہوی تھی۔ "ہم نے انسان کو سڑی ہوی مٹّی کے کھنکھناتے ہوے گارے سے پیدا کیا۔” (الحجر ۲۶) اس آیت کو پڑھتے ہی ان کے دل کی دنیا میں انقلاب برپا ہوگیا اور ان کی فطرت اسلام کو سمجھنے اور اس پر تحقیق کرنے پر آمادہ ہوگئی سو انہوں نے عرب ممالک کا دورہ کیا، قرآن و احادیث کا علم حاصل کیا، عربی زبان سیکھی اور خوب تحقیق و تفتیش سے کام لیا اور بالآخر یہ گواہی دی کہ "ماسوا اللہ کے کوئی قابلِ پرستش نہیں اور محمّدؐ اس کے پیغمبر ہے۔” 

آج ڈاکٹر اتسوشی اوکوڈا ایک مسلم سائنسداں، اسکالر اور داعی الی اللہ کی حیثیت سے صرف جاپان ہی نہیں دنیا بھر میں جانے جاتے ہیں وہ اپنی قبل از اسلام زندگی کو کچھ یوں بیان کرتے ہیں:

"اسلام سے قبل میری زندگی بہت وحشیانہ تھی، نہایت ہی وحشیانہ، سراپا جہالت اور میں سچ سے واقف نہ تھا۔”

جب بندے کا رشتہ خدا سے ٹوٹا ہوا ہوتا ہے تو اس کی دل کی دنیا اجڑی ہوی ہوتی ہے وہ بھیڑ میں خود کو تنہا محسوس کرتا ہے، وہ اپنی منزل پر خود کو بھٹکا ہوا مسافر سمجھتا ہے، دھن دولت کے انبار لگے ہوتے ہیں اور وہ سکون و اطمینان کی تلاش میں لگا رہتا ہے، دنیا کی نگاہ میں مشہور و کامیاب شخصیت آخر کیوں خودکشی جیسا سنگین قدم اٹھاتی ہے؟ کیوں کہ خدا سے جدا انسان کی حیشثیت کٹی پتنگ کی طرح ہوتی ہے جس کے نصیب میں زوال مقدّر ہوتا ہے اور جو انسان خدا تک پہنچ جاتا ہے وہ اسلام کو خدا کا احسان سمجھتا ہے ڈاکٹر اتسوشی کہتے ہیں”جیسے ہی میں نے اسلام قبول کیا تو مجھے یہ یقین ہوگیا کہ یہ خدا کا سب سے بہترین انعام ہے۔” 

علم و آگہی کے اس روشن زمانے میں اسلام کی حقانیت کھل کر عیاں ہورہی ہے، دشمنانِ اسلام چاہے جتنے پروپگنڈے کرلیں وہ حقائق کو نہیں بدل سکتے، تحقیقی مزاج رکھنے والے انسان اسلام کی آغوش میں پہنچ کر ہی چین کی سانس لیں گے، ان شاء اللہ!

Exit mobile version