تحریر: عبدالباسط صدیقی
اردو زبان میں بعض الفاظ ایسے پائے جاتے ہیں جن میں صرف لغوی معانی نہیں، بلکہ تہذیبی، فکری اور روحانی تجربات کی گہرائی بھی سمائی ہوتی ہے۔ ان میں ایک نادر مگر بامعنی اصطلاح ’’خلقیہ‘‘بھی شامل ہے، جو اپنی ساخت میں سادہ مگر مفہوم میں نہایت گہری ہے۔ اس مضمون میں ہم ’’خلقیہ‘‘ کے لغوی و اصطلاحی مفاہیم کے ساتھ ساتھ اس کے ادبی، مذہبی اور فلسفیانہ استعمالات کا مفصل اور مدلل جائزہ لیں گے، تاکہ اس لفظ کی فکری اہمیت کو بہتر طور پر سمجھا جا سکے۔
لغوی و اصطلاحی مفہوم’’خلقیہ‘‘ عربی لفظ ’’خِلْقی‘‘ یا ’’خُلْقی‘‘ سے ماخوذ ہے۔ ’’خِلْقی‘‘ کے معنی ہیں: فطری، جبلی، پیدائشی؛ یعنی وہ وصف جو انسان یا کسی شے کو پیدائش سے ہی حاصل ہو جبکہ ’’خُلْقی‘‘ اخلاقی صفات سے متعلق ہوتا ہے۔ اردو میں یہ دونوں صورتیں بسا اوقات یکساں انداز میں لکھی جاتی ہیں، مگر اعراب کے فرق سے معانی بدل جاتے ہیں۔ مختصراً، ’’خِلْقی‘‘ پیدائشی فطرت اور ’’خُلْقی’’ اخلاقی کردار کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اصطلاحی طور پر ’’خلقیہ‘‘کو اردو تنقید میں انگریزی کے لفظ Ethos کے مترادف سمجھا جاتا ہے، یعنی کسی فرد، قوم، تحریر یا فن پارے کا مجموعی اخلاقی، فکری اور تہذیبی مزاج۔ یہی دوہرا استعمال ایک طرف پیدائشی فطرت اور دوسری طرف ثقافتی اسلوب اسے اردو میں ایک فکری اصطلاح کی حیثیت دیتا ہے۔ادبی تناظر میں استعمال :اردو ادب میں ’’خلقیہ‘‘کا استعمال زیادہ تر جدید تنقیدی نثر میں ملتا ہے۔ بالخصوص جب کسی فن پارے کی اسلوبیاتی ساخت، داخلی مزاج یا تہذیبی فضا کو بیان کیا جاتا ہے تو ’’خلقیہ‘‘ ایک موزوں اصطلاح کے طور پر سامنے آتا ہے۔ معروف نقاد شمیم حنفی نے افسانہ نگار نیر مسعود کے فن کے تجزیے میں تحریر کیا:’’نیر مسعود کی تخلیقی دنیا جتنی شخصی اور پرائیویٹ دکھائی دیتی ہے، اتنی ہی جمہوری بھی ہے۔ اس کا خلقیہ اپنی عام روایت سے بہت مختلف، بہت مرموز اور نامانوس ہونے کے باوجود ایک عجیب و غریب انسانی کشش رکھتا ہے۔‘‘ یہاں ’’خلقیہ‘‘سے مراد اس افسانوی دنیا کا وہ داخلی مزاج ہے جو قاری کو ایک تہذیبی و فکری دنیا میں لے جاتا ہے۔ اردو میں اب یہ لفظ اسلوب، ماحول، کرداروں کے رویّے، اور کہانی کی اخلاقی بنیادوں کو بیان کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ بعض نقاد تو ’’ادبی خلقیہ‘‘کو اس فن پارے کی روح قرار دیتے ہیں وہ داخلی لَے جو کسی تخلیق کو مخصوص تہذیبی رنگ عطا کرتی ہے۔
ادبیات میں ’’خلقیہ‘‘ کو بعض اوقات سیاقی تنقید میں بھی استعمال کیا جاتا ہے، جہاں کسی تحریر کی معنوی تہیں اس کے تخلیقی مزاج اور تہذیبی ماحول کے تناظر میں کھولی جاتی ہیں۔مثلاً: ’’فلاں ناول کا خلقیہ دیہی زندگی کی معصومیت اور خاندانی اقدار پر مبنی ہے‘‘ یعنی کہانی صرف واقعات تک محدود نہیں بلکہ ایک تہذیبی فضا کا عکس بھی ہے۔ قاضی عبدالغفار کے ناول ’’لیلیٰ کے خطوط‘‘کا خلقیہ جدید تمدنی اقدار اور مشرقی عورت کی نفسیاتی کشمکش کو ظاہر کرتا ہے۔ ممتاز مفتی کی تحریروں میں فرد کے باطنی تجربات کا خلقیہ دکھائی دیتا ہے، جو جدید انسان کی داخلی بے چینی کا آئینہ ہے۔ قرۃ العین حیدر کے ہاں تاریخ، ثقافت اور تہذیب کا جو امتزاج ہے، اس کا خلقیہ برصغیر کی ملی جلی تہذیب اور اس کے زوال کا نوحہ بن جاتا ہے۔
مذہبی سیاق و سباق : اسلامی متون میں انسانی فطرت اور اخلاقی سرشت پر جو بحث ملتی ہے، وہ ’’خلقیہ‘‘ کی گہرائی کو سمجھنے میں نہایت مددگار ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:’’فِطْرَتَ اللہِ الَّتِی فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْہَا۔ لَا تَبْدِیلَ لِخَلْقِ اللہِ’’ (سورہ روم: 30) یعنی یہ اللہ کی بنائی ہوئی فطرت ہے جس پر اس نے انسان کو پیدا کیا، اور اللہ کی اس ساخت میں کوئی تبدیلی نہیں۔ یہی انسان کی خلقتِ اولیٰ یا خلقیہ فطرت ہے۔ احادیث مبارکہ میں بھی یہ بات آئی ہے کہ ’’ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے والدین اسے یہودی، نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔‘‘ اسلامی فکر میں اس فطری رجحان کو ’’فطرتِ سلیمہ‘‘کہا جاتا ہے یعنی ایک ایسی پیدائشی سرشت جو نیکی، صداقت اور فطرتی انصاف کی طرف مائل ہوتی ہے۔ یہی ’’خلقیہ‘‘کا دینی پہلو ہے ایک ایسا مزاج جو خداداد ہے اور ہر انسان میں بنیادی طور پر موجود ہوتا ہے۔حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی ؒاس مفہوم کو مزید واضح کرتے ہوئے انسانی اوصاف کو دو اقسام میں تقسیم کرتے ہیں: صفاتِ خلقیہ (پیدائشی خوبیاں) اور صفاتِ مکتسبہ (محنت سے حاصل کردہ اوصاف)۔ جیسے حلم، صبر، قوتِ حافظہ خلقی اوصاف میں آتے ہیں، جبکہ علم، صناعت اور قیادت جیسی صلاحیتیں مکتسبہ صفات میں۔
نبی کریم ﷺ کی شخصیت کے ضمن میں بھی یہی تقسیم واضح ہے۔ آپ کے جسمانی اوصاف جیسے حسن، قامت، رنگت وغیرہ ’’صفاتِ خلقیہ’’ کہلاتے ہیں، جبکہ آپ کے اخلاق جیسے صداقت، امانت، شجاعت، رحمت وغیرہ ’’صفاتِ خُلقیہ’’۔ اس لحاظ سے بھی ’’خلقیہ’’ ایک جامع دینی اصطلاح بن کر سامنے آتی ہے۔
فلسفیانہ تجزیہ :فلسفہ میں انسانی فطرت اور جبلّت ہمیشہ سے زیر بحث رہے ہیں۔ ’’خلقیہ‘‘ کا فلسفیانہ پہلو اسی سوال سے جڑا ہے کہ انسان کی اصل فطرت کیا ہے؟ کیا وہ خیر پر مائل ہے؟ یا شر کے امکانات رکھتا ہے؟ اسلامی مفکرین جیسے امام غزالی، شاہ ولی اللہ دہلوی، ابن مسکویہ اور علامہ اقبال اس پر متفق ہیں کہ انسان کی فطرت خیر، حسن اور سچائی پر مبنی ہے۔ ان کے مطابق اگر انسان کو ماحول یا خواہشاتِ نفس سے متاثر نہ کیا جائے تو وہ اپنی فطری حالت میں اعلیٰ اخلاق کا حامل ہوتا ہے۔اقبال نے فطرتِ انسانی کو خودی کے تصور سے جوڑا اور کہا کہ انسان میں ایک الہامی شعور ہے جو اسے نیکی، حسن اور مقصدیت کی طرف مائل کرتا ہے۔ اس خلقیہ کا شعور ہی انسان کو کامل انسانیت کی طرف لے جاتا ہے۔ اسی لیے اقبال نے فرمایا:
خُدائے لم یزل کا دستِ قدرت تُو، زباں تُو ہے
یقین پیدا کر اے غافل کہ مغلوبِ گماں تُو ہے
اس شعر میں فطری صلاحیت اور خلقیہ قوتِ ارادی کی طرف واضح اشارہ موجود ہے۔
نتیجہ:’’خلقیہ‘‘ایک ایسا جامع لفظ ہے جو فطرت، جبلت، تہذیب، اخلاق اور فکری مزاج جیسے اہم انسانی پہلوؤں کو آپس میں جوڑتا ہے۔ یہ محض لغت کا ایک لفظ نہیں بلکہ انسان، معاشرہ، اور فن کے گہرے باطنی پہلوؤں کو ظاہر کرنے والی اصطلاح ہے۔ ادبی تنقید میں یہ فن پارے کی تہذیبی روح کو بیان کرتا ہے، مذہب میں انسان کی خداداد سرشت کا آئینہ دار ہے، اور فلسفے میں وجود اور جبلّت کے مابین مکالمہ پیدا کرتا ہے۔ایسے الفاظ کا تحفظ اور فروغ صرف لسانی ورثے کی بقا ہی نہیں بلکہ فکری اور تہذیبی استحکام کا ذریعہ بھی ہے۔ لازم ہے کہ ہم ان الفاظ کو نئی نسل کی تخلیقی اور علمی زبان کا حصہ بنائیں تاکہ اردو کے فکری دائرے کو وسعت دی جا سکے۔