ایک ندوی فاضل کی اہم علمی کاوش کا تعارف

ایک ندوی فاضل کی اہم علمی کاوش کا تعارف

مطالعہ کی میز پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نام کتاب: فقہی قواعد ۔جدید تحقیق و تطبیق
مصنف : مولانا محمد زبیر ندوی بہرائچ
کل صفحات: 808
قیمت : رعایتی. 500
تبصرہ نگار: محمد قمر الزماں ندوی (مدرسہ نور الاسلام موئی کلاں کنڈہ پرتاپگڑھ)

 

اس وقت میرے مطالعہ کی میز پر عزیز گرامی قدر مولانا محمد زبیر ندوی سلمہ اللہ تعالیٰ مفتی،، دار الافتاء بہرائچ،، کی مشہورِ و معروف کتاب ،،فقہی قواعد ۔ جدید تحقیق و تطبیق ،، ہے، جو ابھی چند مہینے قبل طبع ہوکر منظر عام پر آئی ہے ، راقم الحروف کو اس کتاب کی طباعت کا علم بہت پہلے سے تھا، بہرائچ کے ایک سفر میں مولانا محمد زبیر ندوی نے کتاب کا مسودہ دکھایا تھا اور اس وقت اس پر نظر ثانی کا کام چل رہا تھا ، میں نے مشورہ دیا کہ جتنی جلد ہو سکے ,اس کتاب کو طباعت کے مرحلہ تک پہنچائیے ، کیونکہ یہ کتاب فقہ کے طلبہ اور اہل علم کے لیے بہت ہی مفید اثاثہ ثابت ہوگا، مسودہ کے مطالعہ سے معلوم ہوا کہ اس کتاب میں قواعد فقہیہ تاریخ و ثعارف کے ساتھ مجلة الاحکام العدلیہ کے 99/ قواعد کی لغوی تحقیق و تشریح ،توضیح و تفریع ،قواعد کی تاصیل و مباحث کی تفصیل ،مترادفات و مستثنیات اور ان کی وضاحت، جدید مسائل کا انطباق نیز متعلقہ کتب و رسائل پر سیر حاصل بحث اور چشم کشا تجزیہ و تبصرہ ہے ، اردو زبان میں ابھی تک اس انداز میں کام نہیں ہوا ہے یا کم ہوا ہے ، یہ ایک منفرد کتاب ہوگی، اہل علم اس کو شوق کے ہاتھوں لیں گے اور ذوق سے پڑھیں گے۔
کتاب کی طباعت کے بعد مولانا موصوف نے مجھے اس کتاب کے دو نسخے عنایت کئے ،ایک مدرسہ کی لائبریری کے لیے ،اور ایک میرے لیے ۔
موصوف کی خواہش ہے کہ اس کتاب پر میں بھی کچھ تبصرہ کروں اور اس کتاب کا تعارف کراؤں ۔
اہل علم جانتے ہیں کہ فقہی قواعد فقہ اسلامی کا بہت قیمتی سرمایہ اور عظیم ترین اثاثہ ہے اور ارباب فقہ و افتاء کا ایک بے مثال کارنامہ ہے ، اس فن کے ذریعہ فقہ اسلامی کی جزئیات و فروعات پر گرفت کے ساتھ احکام شرعیہ کی علل و وجوہات کو سمجھنا بہت حد تک آسان ہو جاتا ہے ۔
قدیم فقہاء نے بھی اس موضوع پر کتابیں لکھیں اور متاخرین نے بھی اس پر کام کیا ہے ، جو اپنی اپنی جگہ بہت ہی اہم ہیں ، آج کے عہد میں اس پر عربی اور اُردو دونوں زبانوں میں متعدد کتابیں آئی ہیں ، جس سے اہل علم استفادہ کر رہے ہیں ۔ اسی سلسلہ کی ایک مضبوط کڑی گرامی قدر مولانا محمد زبیر ندوی سلمہ اللہ تعالیٰ کی تصنیف انیق ،، فقہی قواعد جدید تحقیق و تطبیق ہے،، ۔
جیسا کہ میں نے بتایا کہ فقہ سے متعلق فنون میں ایک اہم فن قواعد فقہ کا ہے ، قواعد یہ قاعدہ کی جمع ہے، جس کے معنی اساس اور بنیاد کے ہیں ، قرآن مجید میں بھی یہ لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ یہ لفظ ان تمام امور کے لیے ہوتا ہے جو اصولی حیثیت کے حامل ہیں، تو کبھی مصالح اور حکم پر بھی قواعد کا اطلاق کردیا جاتا ہے۔ قواعد فقہیہ کی تعریف میں اہل علم کے الفاظ و تعبیرات الگ الگ ہیں۔
اصطلاح میں قاعدہ اس اصل کلی کو کہتے ہیں جو اپنی ساری جزئیات پر منطبق ہو ۔ چنانچہ علامہ حموی لکھتے ہیں : ،،
و اصلطاحا حکم کلی ینطبق علی جمیع جزئیاتہ لتصور احکامھا منہ۔ (حموی 1/ ص، 51)
،ڈاکٹر مصطفیٰ احمد زرقاء قواعد فقہیہ کی تعریف یوں کرتے ہیں:
اصول فقہیة کلیة فی نصوصِ موجزة دستوریة تتضمن احکاما تشریعة عامة فی الحوادث التی تدخل تحت موضوعھا ،،۔( المدخل الفقہی العام 2/ 947)
یعنی قواعد فقہیہ مختصر اور دستوری الفاظ میں وہ کلی فقہی اصول ہیں، جو اس موضوع کے تحت آنے والے واقعات سے متعلق عمومی قانونی احکام کو شامل ہوں ۔
قاعدہ سے ایک قریبی لفظ ضابطہ بھی ہے، جس کی جمع ضوابط ہے، اور جس کے معنی ٹھوس حافظہ والا بتایا جاتا ہے اور اصطلاح میں اس کی تعریف تھوڑے فرق کے ساتھ قاعدہ ہی کی سی ہے ، چنانچہ علامہ حموی نے اس فرق کو یوں بیان کیا ہے ۔
الضابطة ما یجمع فروعا من باب واحد و القاعدة ما یجمعھا من ابواب شتیٰ ۔
ضابطہ ایک ہی باب کی فروعات کو جامع ہوتا ہے جب کہ قاعدہ مختلف ابواب کی فروعات کو جامع ہوتا ہے ۔
اور قاعدہ سے ایک قریبی لفظ اصول ہے، اہل فن نے ان دونوں میں فرق بھی کیا ہے ، اصول کا تعلق الفاظ کی دلالت ، نصوص کے ذریعہ ثبوت اور احکام کے طریق استنباط سے ہوتا ہے اور قواعد شریعت کے مزاج کو ظاہر کرتے ہیں اور شریعت ان کی رعایت کی متقاضی ہوتی ہے ۔ جب کہ اصول کی حیثیت کلیات کی ہوتی ہے اور قواعد اکثریہ ہوا کرتے ہیں ۔
قواعد فقہیہ کا ثبوت کتاب و سنت میں موجود ہے ،بلکہ کہا جاسکتا ہے کہ قواعد فقہیہ کا خمیر بھی اصل میں کتاب و سنت سے ہی تیار ہوا ہے ، قرآن مجید میں بہت سے احکام فقہی قواعد کی صورت میں وارد ہوئے ہیں ،جیسے ،،یرید اللہ بکم الیسر،، سے فقہاء نے
،، المشقة تجلب التیسیر،، کا قاعدہ اخذ کیا ہے ، آیت ،، اضطرار فمن اضطر غیر باغ ،،سے فقہاء نے یہ قاعدہ اخذ کیا ہے کہ ضرورت و اضطرار کے موقع پر ممنوع چیزیں بھی جواز کے درجہ میں آجاتی ہیں ، اسی بنیاد پر فقہاء نے نے یہ قاعدہ اخذ کیا ہے ،، الضرورات تبیح المحظورات ، الضرر یزال ، اذا ضاق الامر اتسع وغیرہ،اسی طرح احادیث میں بھی بہت سے قواعد و ضوابط ملتے ہیں ،مثلا ،،انما الاعمال بالنیات ،، اس سے فقہاء نے قاعدہ اخذ کیا ہے الامور بمقاصدھا ،،
اسی طرح حدیث میں آتا ہے،، لا ضرر ولا ضرار،، ۔ اس کے علاؤہ بھی حدیث شریف میں کچھ اور قاعدے موجود ہیں ، جن سے فقہاء نے مسائل اخذ کئے ہیں ۔ جیسے العجماء جرحھا جبار ۔ الخراج بالضمان ۔ لا قطع فی ثمر ولا کثر ۔ لا یجلد فوق عشر جلدات الا فی حد من حدود اللہ، البینة علی المدعی و الیمین علی المدعی علیہ ۔
اسی طرح حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بہت سے اقوال سے قواعد فقہیہ کے ثبوت ملتے ہیں ۔ مثلا المسلمون عدول بعضھم علی بعض ، دروا الربا و الریبة ۔ البینة علی المدعی و الیمین علی من انکر، من استعمل فاجرا وھو یعلم انہ فاجر فھو مثلہ۔وغیرہ
پتہ یہ چلا آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں فقہی قواعد کا ثبوت ملتا ہے ،اسی طرح صحابہ اور تابعین کے اقوال و آثار میں بہت سے قواعد ملتے ہیں ، لیکن بعد کے زمانہ میں جب مسائل کا اضافہ ہوا تو ائمہ متبوعین کے زمانہ میں فقہی قواعد میں اور اضافہ ہوجاتا ہے ، اس سلسلہ میں امام ابو یوسف رح کا نام نامی خاص طور پر قابل ذکر ہے ،آپ نے خلیفہ ہارون الرشید کی ایماء پر جو کتاب الخراج لکھی ،اس میں متعدد ایسی عبارتیں ہیں جو ان فقہی قواعد سے کافی مشابہت رکھتے ہیں ،جنہیں بعد میں فقہاء نے قانونی کلیات کی شکل دی ہے ، مثالوں کو طوالت کی وجہ سے ہم ذکر نہیں کرتے ہیں ، ۔
چوتھی صدی ہجری سے دسویں صدی ہجری تک کے عہد کو اہل علم اس فن کے ارتقاء و تدوین کا دور کہتے ہیں ، قواعد فقہیہ کے سلسلہ میں ایک مشہور واقعہ ابو طاہر دباس کی طرف منسوب ہے اور اس کو علامہ سیوطی رح اور ابن نجیم رح نے اشباہ میں نقل کیا ہے ، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابو طاہر دباس حنفی نے سترہ ایسے قواعد مرتب کئے تھے، جن پر فقہ حنفی کی جزئیات منطبق ہوتی ہیں ،اس طرح انہیں اس فن کی تدوین میں اولیت کا شرف حاصل ہے ، بہر حال شروع دور ہی سے فقہاء کرام کے یہاں فقہی قواعد کا ایک واضح نظریہ موجود تھا ، لیکن سچائی یہ ہے کہ اس موضوع پر باضابطہ پہلی کتاب ہونے کا شرف مشہور حنفی عالم اور فقیہ امام کرخی کی کتاب کو حاصل ہے ۔ اس کے بعد تمام فقہی مسالک میں اس موضوع پر عہد بعہد بکثرت کتابیں لکھی گئیں ۔
اسی سلسلہ کی ایک اہم کڑی گرامی قدر مولانا محمد زبیر ندوی کی تالیف ،، فقہی قواعد: جدید تحقیق و تطبیق ہے ۔ یقینا یہ کتاب اس موضوع پر ایک وقیع اور شاہکار تصنیف ہے ، جس میں 99/ فقہی قواعد کا تعارف ،ان کی تشریح و توضیح نیز جزئیات اور مثالوں کے ساتھ ان کی تطبیق کو شامل کیا گیا ہے ۔ اس کتاب کی اہمیت اور اس علمی کاوش کی عظمت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ عہد حاضر کے معتبر علماء اور محققین نے اس پر مقدمہ، پیش لفظ اور تقاریظ لکھے ہیں ، جن میں بحر العلوم مولانا نعمت اللہ اعظمی صاحب فقیہ عصر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب ،مفتی ابو القاسم نعمانی صاحب مولانا بلال عبد الحئی حسنی ندوی صاحب ناظم ندوة العلماء لکھنؤ مولانا سلمان منصور پوری صاحب دیوبند مفتی شبیر صاحب شاہی مرادآباد مفتی محمد طاہر صاحب مظاہر العلوم
یقینا مولانا محمد زبیر ندوی کا یہ کوشش اور علمی کاوش بہت ہی اہم ہے ، یہ اللہ کا خاص فضل ہے ،جس کو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے نواز دے ۔ یہ کتاب معتبر اور مستند حوالوں سے مستند و مزین ہے اور اپنے موضوع پر کافی بسیط و محیط بھی ، اور اس انداز سے مرتب کی گئی ہے جس سے قاری زیادہ سے زیادہ مستفید ہو ، اس میں ایک قاعدہ کے پہلو بپہلو دوسرے متعلقہ قواعد کا ذکر اور قاعدہ سے متعلق مستقل کتابوں کا ذکر بھی ہے اور مصنف نے پوری کوشش کی ہے کہ الفاظ کی تحقیق ،معانی کی تفہیم کے ساتھ جدید عہد میں اس کی تطبیقاتی شکلوں کو نمایاں کیا جائے ، جس سے کتاب کی افادیت اور زیادہ بڑھ گئی ہے ۔ اور بقول بحر العلوم مولانا نعمت اعظمی صاحب ،، مولانا محمد زبیر ندوی نے محنت کرکے اردو زبان میں اس طرح کی علمی کتاب کا اضافہ کیا، بہرائچ جیسے شہر جہاں کبھی مولانا مرزا مظہر جان جاناں اور شاہ غلام علی کے خلفاء نے علم کی روشنی پھیلائی ،اس کے بعد بیچ میں بہت خلا ہوگیا ،مگر اس کتاب کو دیکھ کر اندازہ ہو رہا ہے کہ شاید اب اس شہر کو علمی اعتبار سے نشات ثانیہ حاصل ہورہی ہے ۔ یقینا یہ الفاظ مولانا محمد زبیر ندوی کے لیے ایک سند کی حیثیت رکھتے ہیں ۔
زیر نظر کتاب پر اگر مکمل تبصرہ و تجزیہ کروں تو مستقل ایک کتابچہ تیار ہو جائے گا ، اس لیے صرف کتاب کی اہم اور بنیادی خصوصیات کی طرف اشارہ کردینا مناسب معلوم ہوتا ہے ۔
زیر نظر کتاب میں قدیم و جدید مآخذ سے چار سو سے زائد کتب سے استفادہ کیا گیا ہے اور اس کتاب میں جو منہج اختیار کیا گیا وہ اس طرح ہے ۔
مجلة الاحکام العدلیہ سے 99/ قواعد فقہیہ کی تحقیق و تطبیق کی گئی ہے ، اور ہر قاعدے کے مترادف قواعد کو معتبر حوالہ جات سے نقل کرنے کا التزام کیا گیا ہے ۔ یعنی ایک قاعدہ کے پہلو بپہلو دوسرے متعلقہ قواعد کا ذکر اور اس قاعدہ سے متعلق تصانیف کا ذکر بھی ہے ۔
تمام قواعد کے مفردات کی لغوی وضاحت اور اصطلاحی تعریف و توضیح اور اس قاعدہ کے معنی کی تعیین بھی کردی گئی ہے ۔
تقریباً تمام قواعد کی اصل قرآن وحدیث یا آثار صحابہ سے پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور وجہ استدلال بھی لکھ دی گئی ہے ۔
قواعد کی تشریح و توضیح اور دائرہ کار کی وضاحت کے ساتھ ساتھ ، یہ بھی بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ کن کن ابواب میں مذکورہ قاعدہ جاری ہوتا ہے ۔
یہ التزام بھی کیا گیا ہے کہ وہ تمام ضروری مباحث اور فقہ کی ان تمام اہم ترین بحثوں کا خلاصہ آ جائے جو اس قاعدہ سے متعلق ہیں ۔
تمام قواعد کی پانچ پانچ مثالیں اس انداز میں لکھی گئی ہیں کہ ننانوے قواعد میں کوئی مثال مکرر نہ ہو ۔ نیز جدید مسائل کا بھی التزام کیا گیا ہے ، سب سے اہم کام یہ ہے کہ تطبیقات میں اسلامک فقہ اکیڈمی کی تجاویز ،جدید فقہی مسائل اور دیگر علماء کی کتب سے فائدہ اٹھا کر موجودہ دور کے مسائل کا حکم بھی بیان کیا گیا ہے ،۔
فقہی قواعد کی تاریخ تدوین پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے اور اس فن پر عہد بعہد کوششوں اور کاوشوں کا تذکرہ بھی موجود ہے ۔
جن قواعد میں مستثنیات ہیں ، ان کی مستثنیات کے استعاب کی کوشش کی گئی ہے اور استثناء کی وجوہات پر بطور خاص توجہ دی گئی ہے تاکہ قاری کی الجھن دور ہوسکے اور فقہ میں بظاہر تضاد سے اس کا اشکال دور ہوکر تفقہ کی شان پیدا ہو۔
اخیر میں مذکورہ قواعد پر جو مستقل کتابیں یا رسائل و مقالات لکھے گئے ہیں ان کی نشان دہی کی گئی ہے، ان پر تبصرہ کیا گیا ہے تاکہ مزید کے خواہاں اپنی تشنگی کو دور کرسکیں ۔(مستقاد از مقدمہ بحر العلوم مولانا نعمت اللہ اعظمی صاحب دیوبند)
غرض یہ کتاب مولانا محمد زبیر ندوی کی محنت شاقہ کا حاصل ہے جو اپنے موضوع پر بہت ہی وقیع اور محیط ہے ، اور معلومات سے پر کتاب ہے ،انہوں نے محنت اور لگن سے اس کتاب کو اس موضوع پر ایک مرجع کی حیثیت دے دی ہے ، یہ کتاب اہل علم کے لیے اور خصوصا فقہ و فتاویٰ پر کام کرنے والوں کے لیے ایک قیمتی سرمایہ ہے ، میں مصنف محترم کو جو مجھ سے قریبی تعلق رکھتے ہیں ان کو اس مبارک علمی کاوش پر مبارک باد دیتا ہوں ، انہوں نے بڑی عرق ریزی سے اس اہم موضوع پر قلم اٹھایا ۔ یقینا وہ اس وقت نوجوان ارباب فقہ و افتاء میں ممتاز ہیں ،امت کو فائیدہ پہنچا رہے ہیں،میں ان کے لیے دعا کرتا ہوں کہ ان کی یہ تصنیف مقبول و نافع ہو اور مصنف محترم کی علمی ترقیات کا مزید ذریعہ بنے ۔ آمین یا رب العالمین
آخری بات کہہ کر اپنا تبصرہ مکمل کرتا ہوں کہ اس وقت قواعد فقہیہ کی تعلیم پر توجہ کی بہت ضرورت ہے کیونکہ مستقل نئے مسائل پیدا ہو رہے ہیں اور ان کا جواب دینا ، ان علماء پر ضروری ہے جو فقہ و افتاء سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ ایک اہم فن ہے ، جس سے بہت سے مسائل حل ہوسکتے ہیں ، مگر معلوم نہیں کیوں ؟ مدارس میں شروع سے اس سے بے التفاتی اور بے توجہی رہی ، صرف تکمیل افتاء میں ابن نجیم مصری رح کی الاشباہ و النظائر ، پڑھا دیتے ہیں اور بس ، مگر تعلیم کی اصل مدت میں اس فن کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے ۔ ضرورت ہے کہ اس کے لیے نصابی کتاب بھی تیار کیا جائے اور مولانا محمد زبیر ندوی کی اس کتاب کو افتاء کے نصاب اور کورس میں بطور مطالعہ شامل نصاب کیا جائے امید کہ تعصب و تنگ نظری سے اٹھ کر ارباب مدارس اور ارباب فقہ و افتاء اس پر توجہ فرمائیں گے ۔ اور مولف کتاب سے بھی ایک درخواست کریں گے کہ آپ آن لائن افتاء کورس کے بجائے آف لائن افتاء کورس چلائیں تاکہ آپ کی ذاتِ سے براہ راست طلبہ مستفید ہوں ، آن لائن افتاء کی تعلیم اکابر پسند نہیں کرتے اور اس سے فائدہ بھی کم ہوتا ہے ، کیونکہ استاد کے دو بدو اور رو برو ہونے میں جو برکت اور اخذ و استفادہ کا انداز ہوتا ہے وہ آن لائن میں ممکن نہیں ۔ پھر بھی فائدہ سے خالی نہیں ہے ۔
مولانا زبیر ندوی ہمارے مخلص عزیز دوست ہیں ، مولانا دار الافتاء بہرائچ کے مفتی ہیں ، مولانا نے دار الافتاء کے لیے زمین خرید لی ہے اور اب وہ باقاعدہ افتاء کورس بھی چلانا چاہتے ہیں ، اہل خیر حضرات سے گزارش ہے کہ وہ مولانا کے اس کام اور ۔منصوبے کے لیے دامے درمے قدمے اور سخنے تعاون فرمائیں اور اصحاب ثروت حضرات کو اس جانب متوجہ فرمائیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔