روزہ جسم اور روح دونوں کا مجموعہ ہونا چاہیے !
محمد قمرالزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ
روزہ اسلام کا اہم رکن ہے ،یہ بدنی عبادت ہے، اس میں مشقت اور زحمت بھی زیادہ ہوتی ہے ، اسی لئے اس کا اجر و ثواب خود اللہ تعالیٰ اپنے ہاتھ سے دیں گے، یہ حقیقت ہے کہ تمام عبادات میں سب سے زیادہ اثر انسانوں کے جسم ،روح اور اخلاق پر بیک وقت روزہ کا پڑتا ہے ،یہ انسان کو کئی طرح کی بیماریوں سے بھی محفوظ رکھتا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،: روزہ رکھو صحت مند ہوگے ۔(کشف الخفا و مزیل الالباس)
اگر روزہ میں آداب و ارکان حدود و قیود اور شرائط و ضوابط کو ملحوظ رکھا جائے تو یقینا روزہ انسان کے اندر تقویٰ اور خوف خدا پیدا کرتا ہے اور تقویٰ اصلاح کی بنیاد ہوتی ہے اور تقویٰ کے نتیجہ میں ایسی سعادت اور خوش بختی نصیب ہوتی ہے کہ سارے غم اور خوف و ہراس مٹ جاتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ،، فمن اتقیٰ و اصلح فلا خوف علیھم ولا ھم یحزنون ،، سورہ اعراف ۔
جو کوئی تقویٰ اختیار کرے گا اور نیک عمل کرے ،اسے نہ تو کوئی خوف ہوگا اور نہ رنج و غم ۔
روزہ دار کا خورد و نوش اور نفسانی خواہشات کا ایک مخصوص وقت تک کے لئے چھوڑ دینا، یہی کافی نہیں ہے ،یہ تو محض روزہ کی ظاہری صورت اور شکل ہے ،اصل یہ ہے کہ وہ ظاہر کہ ساتھ اس روزہ کے روح کا بھی خیال اور رعایت کرے ، جو روزے کے لئے ضروری ہے ورنہ اس کا یہ ظاہری روزہ اور بھوک و پیاس کو برداشت کرنا اور جائز نفسیاتی خواہشات کا ایک وقت تک کے لئے ترک کر دینا اس کے لئے کوئی فائدہ بخش نہیں ہوگا ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
کم من صائم لیس له من صیامه الا الظماء ،و کم من قائم لیس لہ من قیامه الا السھر (سنن دارمی، کتاب الصوم)
بہت سے روزہ دار ایسے ہیں جن کو اپنے روزے سے بھوک اور پیاس کے سوا اور کچھ نہیں ملتا، اور بہت سے قیام لیل کرنے والے (تہجد و نوافل اور تراویح پڑھنے والے) وہ ہیں جن کو اپنے قیام لیل سے ،جاگنے کے سوا کچھ نہیں ملتا ۔
روزے کی در اصل اور دو حقیقتیں ہیں یا یہ کہئیے کہ روزے کی دو صورتیں ہیں :
ایک اس کی ظاہری صورت اور دوسری اس کی داخلی صورت اور حقیقت ۔ روزے میں کھانا پینا اور نفسانی خواہشات ترک کر دینا ،یہ روزے کی ظاہری صورت ہے ،اسی طرح رمضان المبارک میں تراویح اور راتوں میں تہجد و نفل اس کی ایک ظاہری صورت ہے ،مگر ظاہری صورت کے ساتھ ایک حقیقت شامل رہتی ہے ،جس چیز کا حال یہ ہو کہ اس میں اس کی ظاہری صورت موجود ہو ،لیکن اس کی داخلی حقیقت اور صفت اس میں نہ پائی جاتی ہو تو ایسی چیز کی کوئی قیمت اور حیثیت نہیں ہوتی ۔ اس کی مثال ایسے پھل کی ہے، جس کا ظاہری چھلکا تو موجود ہو،لیکن اس کے اندر کا مغز اس میں نہ پایا جاتا ہو ۔ یہی فرق ہے حقیقی روزے اور رسمی روزے میں ۔
شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب رح اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
علماء کے نزدیک اس حدیث میں چند اقوال ہیں : اول یہ کہ اس سے وہ شخص مراد ہے جو دن بھر روزہ رکھ کر مال حرام سے افطار کرتا ہے کہ جتنا ثواب روزہ کا ہوا تھا،اس سے زیادہ گناہ حرام مال کھانے کا ہو گیا اور دن بھر بھوکا رہنے کے سوا اور کچھ نہ ملا ۔ دوسرے یہ کہ وہ شخص مراد ہے جو روزہ رکھتا ہے، لیکن غیبت میں بھی مبتلا رہتا ہے ،تیسرا قول یہ ہے کہ روزہ کے اندر گناہ وغیرہ سے احتراز نہیں کرتا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جامع ارشادات ایسے ہوتے ہیں کہ یہ سب صورتیں اس میں داخل و شامل ہیں ۔ ( فضائل رمضان )
اس لئے روزے کی حالت میں جھوٹ چغلی غیبت گالی گلوج دشنام طرازی اور تمام طرح کی برائیوں اور لا یعنی چیزوں سے انسان کو بچنا اور پرہیز کرنا چاہئے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : من لم یدع قول الزور و العمل به فلیس للہ حاجة فی ان یدع طعامه و شرابه۔( رواہ البخاری )
جو شخص جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہ چھوڑے تو اللہ کو اس کی کوئی حاجت نہیں کہ وہ اپنا کھانا اور اپنا پانی چھوڑ دے ۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کہ روزے کی حالت میں جھوٹ، غلط بیانی،جہالت و نادانی کے کام ،انسان کو خاص طور پر چھوڑ دینا چاہئے، کیونکہ ان چیزوں کے ارتکاب سے روزے کی روح متاثر ہو جاتی ہے اور اس کا اجر و ثواب جاتا رہتا ہے۔
روزہ بظاہر مخصوص اوقات میں کھانا پینا چھوڑ دینے کا نام ہے ،مگر کھانے پینے کا یہ ترک ایک علامتی ترک ہے ۔ روزہ کے مہینہ میں چند چیزوں کو چھوڑ کر روزے دار اپنے کو اس مقصد کے لئے تیار کرتا ہے کہ وہ خدا کی منع کی ہوئی تمام چیزوں کو چھوڑ دے ۔ گویا کہ کھانا پینا چھوڑ دینا اگر جسمانی روزہ ہے ،تو برائیوں سے اجتناب روحانی روزہ ہے۔ خلاصہ یہ کہ اللہ تعالی کے یہاں روزے کے مقبول ہونے کے لئے ضروری ہے کہ آدمی کھانا پینا چھوڑنے کے علاوہ معصیات و منکرات سے بھی زبان و دہن اور دوسرے اعضاء کی حفاظت کرے ۔
اگر کوئی شخص روزہ رکھے اور گناہ والے کام کرتا رہے تو اللہ کو اس کے روزے کی کوئی پرواہ نہیں ۔
علماء اور اہل علم نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ محض بھوکا اور پیاسا رہنا عبادت نہیں ہے، بلکہ اصل عبادت کا ذریعہ ہے اور اصل عبادت ہے خوف خدا کی وجہ سے خدا کے قانون کی خلاف ورزی نہ کرنا ،محبت الہی کی بنا پر ہر اس کام کے لئے شوق سے لپکنا، جس میں محبوب کی خوشنودی ہو ،اور نفسانیت سے بچنا ،جہاں تک بھی ممکن ہو ۔ اس عبادت سے جو شخص غافل رہا اس نے خواہ مخواہ اپنے پیٹ کو بھوک پیاس کی تکلیف دی ۔ اللہ تعالٰی کو اس کی کب حاجت تھی کہ وہ بارہ بارہ چودہ گھنٹے کے لئے اس سے کھانا پینا چھڑا دیتا ؟
اسی لئے حدیث شریف میں روزہ کے ساتھ ایمان و احتساب کو لازم قرار دیا ہے اور قرآن مجید نے روزہ کے مقصد کو تقویٰ کا حصول قرار دیا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف طریقوں سے روزے کے اصل مقصد کی طرف توجہ دلائی ہے اور یہ سمجھایا ہے کہ مقصد سے غافل ہوکر بھوکا پیاسا رہنا کچھ مفید نہیں ۔
اللہ تعالٰی ہم سب کو روزے کو اس کی روح اور اصل مقصد کے ساتھ رکھنے کی توفیق مرحمت فرمائے آمین ۔