مدارسِ اسلامیہ کے اساتذہ اور ان کے معاشی مسائل !

مدارسِ اسلامیہ کے اساتذہ اور ان کے معاشی مسائل !

از: محمد قمرالزماں ندوی

 

 

کچھ عالمی اور ملکی طاقتیں اپنے مفاد کی تکمیل کے لئے اور مسلمانوں کو اسلامی تشخص و امتیاز سے دور کرنے کے لئے اور مسلمانوں کو ان کے دینی اور روحانی مراکز اور سر چشموں یعنی مدارس و مکاتب سے دور کرنے کے لئے ہمیشہ کوشاں رہتی ہیں، وہ لوگ چاہتے ہیں اور ان کی یہ کوشش ہوتی ہے، کہ مدارس اسلامیہ کو بھی سرکاری تحویل میں لے لیا جائے، اور وہاں کے نظام و نصاب کو بالکل بدل دیا جائے،اس کے لیے مدراس عربیہ کی جدید کاری کا پرفریب عنوان دیا جاتا ہے اور مرکزی مدرسہ بورڈ کے قیام کی تجویز پیش کی جاتی ہے، ماضی میں بارہا اس کی کوشش ہوئی اور آج تک یہ سلسلہ جاری ہے۔
لیکن ہمارے بالغ نظر علماء اور قائدین ملت ہمیشہ ان طاقتوں کو اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہونے دیتے اور اس طرح کے پر فریب نعروں سے خود بھی متاثر نہیں ہوتے اور نہ ملت کو متاثر ہونے دیتے ہیں ۔
اسلام کی تعلیمات اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ علم دین کو حصول دنیا کا ذریعہ نہ بنایا جائے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا من تعلم علما مما یبتغی به وجه الله لا یتعلمه الا لیصیب به عنھا من الدنیا لم یجد عرف الجنة یوم القیامة یعنی ریحھا ۔ مشکوة.
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے اس علم کو جو خالص اللہ کی رضا کے لیے حاصل کیا جاتا ہے ،اس کو محض اس لئے حاصل کرتا ہے کہ اس سے دنیا حاصل کرے اور دنیا کا طلب گار بنے ،تو ایسا شخص جنت کی خوشبو بھی نہیں پاسکے گا ۔
اور دوسری اہم تعلیم یہ ہے کہ امراء اور ارباب اقتدار سے مدد حاصل کرنا دین کے لئے نہایت نقصان کا سبب ہے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ان انسانا من امتی سیتفقھون فی الدین و یقرءون القرآن و یقولون ناتی الامراء فتصیب من دنیاھم و تعتزلھم بدیننا، ولا یکون ذلک کما لا یجتنی من القتاد الا الشوک ،کذلک لا یجتنی من قربھم الا الخطایا ۔ ابن ماجہ ۔
آپ نے فرمایا کہ میری امت میں کچھ لوگ دین میں تفقہ حاصل کریں گے اور قرآن مجید پڑھیں گے اور ان کا نظریہ یہ ہوگا کہ امراء اور ارباب اقتدار سے ملنے اور ان سے دنیوی نفع حاصل کرنے میں مضائقہ نہیں بہ شرطے کہ ہم اپنے دین کو ان سے محفوظ رکھ سکیں ، لیکن آپ نے فرمایا: کہ امراء سے تعلق کے ساتھ دین محفوظ رکھنا ممکن نہیں ہے ،جیسے درخت قتاد کانٹوں والا درخت سے کانٹوں کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا، اسی طرح امراء کے قرب سے گناہوں اور غلطیوں کے علاؤہ کچھ حاصل نہیں ہوگا ۔
آج پوری باطل طاقتیں اس پر زور لگا رہی ہیں اور خود بہت سے مسلمان بھی اس میں لگے ہوئے ہیں کہ علوم دینیہ کو حصول دنیا کا ذریعہ بنایا جائے اور انگریزی اسکولوں اور کالجوں اور مدارس اسلامیہ کے درمیان فرق و امتیاز کو ختم کردیا جائے ۔
ہمارے بعض دانشور حضرات ہمارے ان دینی مدارس کو ملت کے لئے غیر ضروری سمجھتے ہیں، ان کے نزدیک دینی تعلیم کی ایسی اہمیت نہیں ہے کہ اس کے لیے علاحدہ سے توجہ دی جائے ،کیوں کہ دین ان کے نزدیک صرف چند معمولی باتوں تک محدود ہے ،یہ باتیں بلا خاص نظم و انتظام کے خود بخود معلوم ہوسکتی ہیں ، یا جماعت اور دین کے راستے میں کچھ روز وقت لگا کر لوگ سیکھ سکتے ہیں ۔ یہ خیال نہایت سطحی خیال ہے ،مسلمانوں کی زندگی میں دین اپنی پوری اہمیت رکھتا ہے اور زندگی میں پوری وسعت رکھتا ہے ۔ یہ مدارس صرف تعلیم و تعلم کے ادارے نہیں ہیں، بلکہ یہ خدائی مشن کا حصہ ہیں ،یہ حق کی حفاظت گاہیں ہیں، اور جانثاران اسلام کی کمین گاہیں ہیں، یہ ملت اسلامیہ کی شہ رگ ہیں ،جس سے ہر شعبئہ زندگی کو آب حیات حاصل ہوتا ہے ۔
مدارس اسلامیہ کا اپنا ایک منفرد نطام و انتظام ہے ، یہ لوگوں کی عطیات اور تبرعات سے چلتے ہیں، سرکاری عطیات جس سے پرواز میں کوتاہی آجائے، اس سے یہ مدارس دور رہتے ہیں ۔ یہاں کے اساتذہ کا معاملہ بھی قابل رشک ہے ، کہ ایک عالم چالیس چالیس سال سے درس دے رہا ہے ،اس کی زبان پر علم بولتا ہے ،اسی خدمت میں اس کے بال سفید ہوگئے اور اس کی ہڈیوں کے گودے پگھل گئے ،لیکن اس کی تنخواہیں سرکاری محکموں کے چپراسی سے بھی کم ہے ،اس کے باوجود نہ زبان پر شکوہ ہے اور نہ حرف شکایت ۔ نہ دل میں حرص و طمع ، نہ دوسروں کی دولت دیکھ کر اس کی آنکھیں چمکتی ہیں ،اس کے سینے طلبہ پر شفقت و محبت کے جذبات سے معمور ہیں اور دین کی خدمت پر اللہ کے شکر و سپاس سے ہر بن مو لبریز ہے ۔
کیا اس کی مثال عصری اداروں میں اور وہاں کے اساتذہ میں مل سکتی ہیں ۔
یہاں اس بات کا اعتراف بھی ضروری ہے کہ آج ایمان و مادیت کی کشمکش کا دور ہے ، مادیت ہر جگہ چھائی ہوئی ہے اور منھ کھولے ہوئی ہے اور آج سب سے بڑا فتنہ مال و دولت کا ہے ۔ ارباب مدارس بھی کچھ نہ کچھ متاثر ہوئے ہیں اور بہت سے فارغین اپنا میدان چھوڑ کر دوسرے میدان میں چلے گئے ہیں ، اس لیے ضروری ہے کہ مدارس کے اساتذہ کے معیار کو بلند کیا جائے ،ان کی ضروریات کی کفالت کی جائے، ان کے بچوں کی ضروریات پر بھی نظر رکھی جائے ، میں یہ نہیں کہتا کہ انہیں مالدار بناؤ ، لیکن ان کی جائز ضرورتیں تو پوری ہونی ہی چاہیے، تاکہ وہ معاش کی وجہ سے اپنا میدان نہ بدلیں ۔
مدارس کے اساتذہ کی کفالت کی کیا شکلیں ہوسکتی ہیں ،ان کے معیار زندگی کو کیسے بلند کیا جاسکتا ہے، ان کی جائز ضرورتیں کیسے پوری کی جاسکتی ہیں،اس سلسلہ میں بعض ماہرین کے آراء کو ہم پیش کرتے ہیں، امید کہ ارباب مدارس اس پر توجہ فرمائیں گے اور اصحاب خیر اپنی دست سخا کو وسیع فرمائیں گے ۔
تنخواہوں کا معیار طے کرنے کے لیے مدارس کو ایک متوازن اور منصفانہ پالیسی اپنانی چاہیے، جو اساتذہ کی ضروریات، صلاحیتوں، خدمات، اور ادارے کی مالی حیثیت کو مدنظر رکھے۔ مختلف مدارس میں جو طریقے رائج ہیں، ان کا ایک جامع جائزہ لینے کے بعد چند نکات پر مبنی ایک متوازن حکمتِ عملی پیش کی جا سکتی ہے:

  • 1. قابلیت اور مہارت:

اساتذہ کی علمی استعداد، تدریسی مہارت، اور تخصص (مثلاً فقہ، تفسیر، حدیث وغیرہ میں مہارت) کو معیار بنایا جائے۔ جو مدرس زیادہ علمی تجربہ رکھتا ہے اور جس کی تدریس کا انداز مؤثر ہے، اسے بہتر معاوضہ ملنا چاہیے۔
2. تدریسی تجربہ اور مدتِ ملازمت:
یہ ایک اہم پہلو ہے کہ کسی مدرس نے ادارے میں کتنی مدت تک خدمت انجام دی ہے۔ جو اساتذہ زیادہ عرصہ خدمات انجام دے رہے ہیں اور طلبہ میں مقبول ہیں، انہیں تجربے کی بنیاد پر اضافی مراعات دی جانی چاہئیں۔
3. تعلیمی درجے اور تدریسی ذمہ داریاں:
جو اساتذہ ابتدائی درجات پڑھاتے ہیں، ان کی ذمہ داریاں الگ ہوتی ہیں، جبکہ جو تخصصی یا اعلیٰ درجات کے اسباق پڑھاتے ہیں، ان پر علمی دباؤ زیادہ ہوتا ہے۔ اس بنا پر ان کی تنخواہ میں بھی فرق کیا جا سکتا ہے۔
4. اضافی خدمات:
کچھ اساتذہ محض تدریس نہیں کرتے بلکہ انتظامی امور، دارالافتاء، فتویٰ نویسی، تحقیق و تصنیف، یا دیگر دینی و تعلیمی سرگرمیوں میں بھی مصروف رہتے ہیں۔ جو اساتذہ اضافی خدمات انجام دیتے ہیں، ان کے لیے الگ سے مراعات دی جانی چاہئیں۔
5. ادارے کی مالی حیثیت:
یہ حقیقت بھی مدنظر رہنی چاہیے کہ ہر مدرسہ مالی طور پر ایک جیسے حالات میں نہیں ہوتا۔ اگر کسی مدرسے کی آمدنی محدود ہے تو وہ تنخواہیں کم رکھ سکتا ہے، لیکن جہاں ممکن ہو، وہاں اساتذہ کی معاشی ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
6. انصاف اور شفافیت:
اساتذہ میں بےچینی اور ناراضی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب تنخواہوں کے تعین میں غیر شفافیت یا اقربا پروری نظر آتی ہے۔ اس لیے مدارس کو چاہیے کہ وہ تنخواہوں کا ایک واضح اور متوازن نظام بنائیں، تاکہ تمام اساتذہ خود کو اس کا مستحق سمجھیں۔
تجویز کردہ ماڈل:
مدارس میں تنخواہوں کا ایک منصفانہ نظام درج ذیل اصولوں پر مبنی ہوسکتا ہے:
1. بنیادی تنخواہ: تمام اساتذہ کے لیے ایک بنیادی تنخواہ مقرر ہو، جو ضروریات زندگی کو مدنظر رکھ کر دی جائے۔
2. قابلیت اور مہارت کے مطابق اضافہ: جو اساتذہ زیادہ تعلیم یافتہ ہوں یا کوئی خاص مہارت رکھتے ہوں، انہیں زیادہ معاوضہ ملے۔
3. مدتِ ملازمت کے مطابق سالانہ اضافہ: ہر سال کچھ نہ کچھ اضافہ ہونا چاہیے تاکہ پرانے اساتذہ کی خدمات کا اعتراف کیا جا سکے۔
4. اضافی ذمہ داریوں کے لیے خصوصی الاؤنس: جو اساتذہ امتحانی کمیٹی، دارالافتاء، یا دیگر اہم کاموں میں مصروف ہوں، ان کے لیے الگ سے معاوضہ مقرر کیا جائے۔
5. ضرورت مند اساتذہ کے لیے سہولتیں: اگر کوئی مدرس زیادہ ضرورت مند ہو، تو اس کے لیے خصوصی رعایت یا وظیفہ دیا جائے۔
خلاصئہ کلام ۔۔۔۔۔
مدارس کو ایسا نظام اپنانا چاہیے جو علمی قابلیت، تجربہ، خدمات، اور ادارے کی مالی حالت کے درمیان توازن قائم رکھے۔ اساتذہ کی عزت نفس اور ان کی معقول معاشی ضروریات کا خیال رکھنا دینی اداروں کی بنیادی ذمہ داری ہے، تاکہ وہ یکسوئی کے ساتھ تعلیم و تدریس میں مشغول رہ سکیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔