پنجہ، جھاڑٰ و اور کمل
دہلی اسمبلی الیکشن و نتائج سیکولر پارٹیوں کے لئے سبق آموز!
از:۔ جاوید اختر بھارتی
کہتے ہیں وقت بدلتا رہتا ہے یہاں تک کہ کبھی کوئی زمین بھی ایسی ہوتی ہے جہاں کوڑوں کا انبار لگا ہوتا ہے مگر کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اس کی نوعیت ، حیثیت اور حالت بدل جاتی ہے وہ بڑی اہمیت والی ہوجاتی ہے اور ادب احترام کے قابل ہو جاتی ہے مطلب کہ وہاں مسجد ، مندر، مدارس و اسکول و کالج ، سرکاری دفاتر کی تعمیر ہوجاتی ہے کہیں عبادت ہوتی ہے تو کہیں تعلیم دی جاتی ہے ، کہیں درس و تدریس کے فرائض انجام دیئے جاتے ہیں تو کہیں اعلیٰ تعلیم بھی دی جاتی ہے اور جہاں سے ایک طرف علماء کرام کی جماعت تیار ہوتی ہے تو دوسری طرف ڈاکٹر ، انجینئر، پروفیسر کی جماعت تیار ہوتی ہے کہیں عبادت ہوتی ہے تو کہیں عوامی خدمت ہوتی ہے ،، اسی طرح ایک گھوڑا کبھی کسی غریب کے گھر بندھتا ہے اور اس کے گھر کے چولہے میں آگ جلنے کا ذریعہ بنتا ہے تو کبھی بادشاہوں کے درباروں میں بھی بندھتا ہے یعنی گھوڑے کی پشت پر کبھی فقیر سوار ہوتا ہے تو کبھی بادشاہ بھی سوار ہوتا ہے مگر گھوڑا کبھی اپنی اوقات نہیں بھولتا مگر واہ رے انسان تیری سوچ اور تیرے نظرئیے کا کیا کہنا تو خود مثال دیتا ہے کہ گھور اور گھوڑے کے دن یکساں نہیں ہوتے ، کاروبار میں نفع ونقصان دونوں جب تک ہوتاہے تبھی تک کاروبار صحیح مانا جاتاہے خالی نفع ہی نفع ہے یا خالی نقصان ہی نقصان ہے تو وہ غلط ہے ، کہا تو یہ بھی جاتاہے کہ اصل زندگی بھی وہی ہے جس میں دکھ سکھ دونوں ہوں پھر تونے کیسے یقین کرلیا کہ مجھے اقتدار سے بے دخل نہیں ہونا ہے ، شکست نہیں کھانا ہے جنم جنم کا چیلنج بھی دینے لگے کم از اپنے حالات پر غور کیا ہوتا اور ماضی کے اوراق و صفحات کو پڑھا ہوتا تو معلوم ہوتا کہ انا ہزارے کے ساتھ ایک تحریک سے پہلے آپ ( کجریوال)کو کوئی نہیں جانتا تھا اور یہی سچ ہے کہ اسی وقت سے لوگوں نے کجریوال کو جانا جو کہا کرتا تھا کہ ہمیں سیاست نہیں کرنی ہے ہمیں الیکشن نہیں لڑنا ہے اور ہمیں ووٹ نہیں مانگنا ہے مگر ملک کی عوام نے دیکھا کہ ایک شاگرد اقتدار کا مزا چکھنے کے لئے استاد سے بھی رشتہ ناطہ توڑ دیا اور سیاسی پارٹی کی تشکیل کی،، عام آدمی پارٹی،، نام رکھا اور الیکشن بھی لڑا اور حکومت بھی بنائی مگر تکبر و گھمنڈ کی چادر اوڑھ نے لگے جس کا ووٹ لیتے اسی کے ساتھ دھوکا دیتے رہے دہلی کے مسلمانوں سے وعدے تو خوب کرتے مگر دہلی کے مسلمانوں کو جتنی مصیبتوں و مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اس کے لئے کجریوال ہی ذمہ دار ہیں مسلمانوں کے کسی بھی مسلے پر کجریوال کا موقف واضح نہیں رہا ، نظریہ بے باک نہیں رہا اسی لئے کجریوال کو آر ایس ایس کا ریچارج بھی کہا جاتا ہے ،، کجریوال کو اپنی پارٹی پر گھمنڈ تھا اپنی جیت کا گھمنڈ تھا یہ بھول گئے کہ ووٹ دینے کے لئے ایک گیلری ہوتی ہے اس گیلری میں دو ووٹر ایک ساتھ نہیں جاسکتے کیوں: اس لئےتا کہ تنہائی میں خوب سوچ سمجھ کر فیصلہ لیا جاسکے اور اپنا نمایندہ منتخب کیا جاسکے پھر کجریوال کو کس بنیاد پر اتنا گھمنڈ ہوگیا کہ انہوں نے کانگریس کو بھی جھٹک دیا اور آنکھ دکھانا شروع کردیا ابھی پارلیمانی الیکشن میں تو ملک کا آئین خطرے میں تھا انڈیا اتحاد کا اسٹیج لگتا تھا بڑی بڑی باتیں ہوتی تھیں لیکن کیا وہ اتحاد صرف پارلیمانی انتخابات کے لئے تھا سچائی تو یہ ہے کہ انڈیا اتحاد ابتدا سے ہی لڑکھڑا رہا ہے اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ کسی کے اندر قربانی دینے کا جذبہ نہیں اور حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے کا جذبہ سب کے اندر دکھتا ہے یہی وجہ ہے کہ پارلیمانی انتخابات انڈیا اتحاد کے بینر تلے لڑنے والے دہلی کے اسمبلی الیکشن میں آمنے سامنے ہوگئے ایک دوسرے پر تلخ و ترش کلامی کرنے لگے نتیجہ یہ ہوا کہ ہاتھ مفلوج ہوگیا، جھاڑو بکھر گیا اور کمل کھل گیا کہا جاتا ہے کہ کانگریس نے عام آدمی پارٹی کی چالیس سیٹیں بی جے پی کو تحفہ میں دیدیا تو دوسری طرف یہ بھی کہا جاتا ہے کہ غرور خاک میں مل گیا ہوا یہ کہ کانگریس کا ووٹ فیصد بڑھا ہے لیکن وہ فیصلہ کن ثابت نہیں ہوا بلکہ وہ ووٹ جو بڑھا ہے وہ عام آدمی پارٹی کا ووٹ تھا وہی کانگریس کی جھولی میں گیا اور عام آدمی پارٹی کے جھاڑو کی تیلیاں بکھر گئیں اور بی جے پی کی بلے بلے ہوگئی اب شائد کجریوال کو احساس ہوگا کہ کانگریس کو آنکھیں دکھانا نقصاندہ ثابت ہوا ،، کچھ لوگوں کی انگلیاں مسلمانوں کی طرف اٹھنے لگی ہیں کہ مسلمانوں نے عقل و شعور سے کام نہیں لیا جس کے نتیجے میں بی جے پی کو فتح حاصل ہوئی اس طرح کی باتیں کہنے والے یاد رکھیں کہ مسلمانوں نے بی جے پی کو ہرانے کا ٹھیکہ نہیں لے رکھا ہے بلکہ عام آدمی پارٹی خود اپنا محاسبہ کرے کہ وہ اپنے دور اقتدار میں کس کے ساتھ کتنا انصاف کیا ہے ؟ اور وہ لوگ جو بیان بازی میں ساری حدیں پار کرجاتے ہیں اور یہاں تک کہہ جاتے ہیں کہ اللہ نے بی جے پی کے خوف سے بچانے کے لئے کجریوال کو بھیجا ہے وہ اپنے بارے میں بتائیں کہ اللہ نے انہیں کس لئے بھیجا ہے اور وہ کیا کررہے ہیں ،، حقیقت تو یہ ہے کہ انہوں نے خود ڈر اور چاپلوسی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنارکھا ہے تاکہ اپنا مفاد پورا ہوتا رہے ایسے لوگوں کو یہ کہنے کا قطعی حق نہیں ہے کہ جو ڈر گیا وہ مومن نہیں ،، پہلے تو وہ خود نیک نیتی کے ساتھ انسانی فریضہ انجام دیں اور انسانی فرائض میں وہ سب کچھ آتا ہے جس سے انسان سیاست ، تجارت، ملازمت میں سرخرو ہوسکے ،، راقم الحروف بی جے پی کے نظریات کا حمایتی نہیں مگر ساتھ ہی مکر وفریب کی سیاست کا بھی حمایتی نہیں ہے ،، سیکولر ازم کا دھڈورا پیٹنے والی سیاسی پارٹیاں سیکولر ہونے کا ثبوت کب دیں گی پارلیمانی انتخابات میں ایک بڑی پارٹی کی طرف سے مہاراشٹر ، چھتیس گڑھ اور جھارکھنڈ میں مسلمانوں کو ٹکٹ نہ دینا کیا یہی سیکولر ازم ہے؟ ایک مذہب کے لوگوں کو ذات برادری کے نام پر ٹکٹ دینا اور دوسرے مذہب کے لوگوں کو ذات برادری بالائے طاق رکھ کر مذہبی بنیاد پر ہاتھوں میں جھنجھنا تھما دینا کیا یہی سیکولر ازم ہے ؟ دہلی الیکشن ملک کی تمام سیکولر جماعتوں کے لیے ایک پیغام ہے، آپ دو رنگی چھوڑ دیں یا تو آپ فاشسٹ طاقتوں سے جاملیں یا پھر کھل کر سیکولر بن کر جئیں، دو کشتیوں میں سوار ہونے والوں کا پاؤں اِس کشتی میں باقی رہے اور نہ ہی اس کشتی میں۔
وہ کھیل اب پرانا ہوچکا ہے کہ بی جے پی کے خوف سے مسلمان تمھیں ووٹ دیا کریں گے، انھوں نے بی جے پی کو دیکھ لیا ہے اور اب ان کے دلوں سے بھاجپا کا انجانا خوف ختم ہوگیا ہے، انھیں بس اب اس سے مطلب ہے کہ اگر تم واقعی سیکولر ہو، مسلمانوں کے مسائل کو اچھوت نہیں سمجھتے ہو تو مسلمان تمھیں کندھے پر بٹھائیں گے؛ ورنہ وہ اپنے لیے متبادل تلاشیں گے؛ خواہ اس متبادل کی تلاش میں انھیں سخت خسارہ ہو اور بی جے پی اقتدار میں واپس آجائے۔
اب بھلے ہی دہلی میں کانگریس کا ووٹ بڑھا لیکن سیٹوں کا نہ نکلنا یہ تو ایک ایسا پھول ہے کہ نہ خوشبو میں نہ بدبو میں ، ایک ایسا درخت ہے کہ نہ پھل دے نہ سایہ دے ،، اگر انڈیا اتحاد کے شامیانے تلے الیکشن لڑا گیا ہوتا تو دہلی کی صورت حال کچھ اور ہوتی پھر ہاتھ مفلوج نہ ہوا ہوتا اور جھاڑو نہ بکھرا ہوا ہوتا اور جب ایسا ہوا ہوتا تو کمل نہیں کھلا ہوتا۔ اور کجریوال کو بھی یاد رکھنا چاہئے کہ طوفانوں میں کشتیاں ڈوب جاتی ہیں اور گھمنڈ میں بڑی بڑی ہستیاں ڈوب جاتی ہیں ۔