عید الاضحی کے بعد کی زندگی

از:- محمدناصر ندوی پرتاپگڑھی

دبئی متحدہ ,عرب امارات

اسلام محض ایک مذہب نہیں، بلکہ ایک کامل فطری اور آفاقی نظامِ حیات ہے۔ یہ انسان کی فطرت سے ہم آہنگ ہے، اس کے ظاہر و باطن، جسم و روح، عقل و جذبات، فرد و معاشرہ ہر پہلو کی تربیت کرتا ہے۔ اسلام کوئی مصنوعی یا فرضی تصور نہیں، بلکہ وہی نظام ہے جو انسان کے اندر ودیعت کی گئی فطرت کے عین مطابق ہے،
اسلام نے خوشی وشادماںی کے موقع کو بھی عبادت بنا دیا ، اس کے حدود و قیود متعین کردیئے،اس کا اصلاحی پہلو اجاگر کردیا،یہاں تک کہ اسلام نے رمضان وقربانی کے مواقع کو بھی للہیت اور حصول تقوی گردانا ہے‌۔
ابھی اللہ نے ہمیں عید الاضحٰی کے مبارک ایام عطا فرمائے ، اس کا پیغام بھی وقتی نہیں، بلکہ دائمی ہے۔ یہ صرف چند دنوں کی عبادات اور خوشیوں تک محدود نہیں، بلکہ یہ ایک مؤمن کی پوری زندگی کا رخ متعین کرتا ہے۔ حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ نے جس خلوص، جرأت اور جذبۂ تسلیم کے ساتھ اللہ کے حکم پر سر تسلیم خم کیا، وہ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ ایمان کا تقاضہ ہر حال میں اللہ کی رضا کو مقدم رکھنا ہے، خواہ اس کےلئے خواہ کوئی بھی قیمت کیوں نہ ادا کرنی پڑے۔
صرف چند عبادات ادا کرنے یا چند رسومات پر عمل کرلینے کا نام اسلام نہیں ہے، بلکہ پورے نظامِ حیات کو اللہ کے حوالے کر دینا تکمیل ایمان ہے۔
ہماری عید الاضحی کے بعد کی زندگی وہ ہونی چاہئے جو "نفسانی قربانی” سے مزین ہو۔ نفس کی خواہشات، دنیا کی لذتیں، فخر وتکبر، حسد و حرص، بغض و نفرت اور انا کی دیواریں جب تک باقی ہیں حقیقی قربانی ممکن نہیں۔ چنانچہ عید الاضحی ہمیں صرف جانور کی قربانی کا سبق نہیں دیتی، بلکہ ہمیں اپنی خواہشات کی گردن پر چھری چلانے کا سبق دیتی ہے۔ ایک مسلمان کی زندگی عید کے بعد ایسی ہونی چاہئے جو اللہ کے حضور سراپا فدا ہو، جس میں دنیاوی خواہشات کی نہیں، بلکہ ربّانی اطاعت کی حکمرانی ہو۔
اسی طرح عید کے بعد ہمیں اپنے گرد و پیش پر بھی غور کرنا چاہئے۔ ہمارے معاشرے میں کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جو محرومی و غربت، بیماری ولاچاری، بیوگی اور بے بسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ کیا ہم ان کو مستقل بنیادوں پر یاد رکھتے ہیں، یا صرف عید کے دنوں میں وقتی طور پر گوشت دے کر اپنی ذمہ داری پوری سمجھ لیتے ہیں اگر ہم نے عید کے بعد بھی غریبوں کے گھروں میں خوشی پہنچائی، یتیموں کو سینے سے لگایا، بیواؤں کی داد رسی کی، اور فاقہ کشوں کی مدد کی تو یہ حقیقی قربانی ہوگی۔
عید کے بعد کی زندگی میں ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ ہم دین کے کس قدر قریب ہو چکے ہیں، کیا ہم نے قرآن کو اپنی زندگی کا دستور بنالیا، کیا نماز ہماری ترجیح بن چکی، کیا ہم نے اپنے وقت ومال، عقل اور صلاحیت کو اللہ کے دین کےلئے مقدم کیا، اگر نہیں تو ہماری قربانی محض گوشت کی نذر ہوگئی، روح اس میں شامل نہ ہو سکی۔
عید کے دنوں میں ہم قربانی کے جانوروں کےلئے خوب اہتمام کرتے ہیں، انہیں سجاتے ہیں، کھلاتے پلاتے ہیں، محبت سے پالتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے اپنے دل و دماغ، اخلاق و کردار، اور اعمال و اقوال کی بھی ایسی ہی تربیت کی,کیا ہم نے اپنی روح کا تزکیہ کیا، کیا ہم نے اپنی زبان کو قابو میں رکھا؟, اگر ہماری زبان سے اب بھی جھوٹ و غیبت اور تلخی جھلکتی ہے تو ہماری قربانی ادھوری ہے۔
عید کے بعد ہمیں دعوتِ فکر یہ بھی دے جاتی ہے کہ ہم اپنی اجتماعی زندگی کو سنواریں، امت مسلمہ آج جن بحرانوں سے دوچار ہے،فکری انتشار، باہمی اختلاف، دینی کمزوری، اور سیاسی زوال، ان کا حل اسی میں ہے کہ ہم "ابراہیمی اطاعت” اور "اسماعیلی تسلیم” کو اپنی اجتماعی مزاج کا حصہ بنائیں، جب ہر فرد اپنی ذات اپنے مال، وقت اور خواہشات کو اللہ کے دین کےلئے پیش کرے گا، تبھی امت دوبارہ اپنی عظمت کی طرف لوٹے گی۔
ہمیں حقیقت بھی یاد رکھنی چاہئے کہ عید کا دن صرف قربانی کا دن نہیں، بلکہ” عزم نو”کا دن ہے، یہ اس تجدیدِ عہد کا دن ہے کہ ہم آج کے بعد زندگی اس طرح گزاریں گے جس طرح اللہ اور اس کے رسول ﷺ چاہتے ہیں۔ ہر سانس میں اخلاص، ہر قدم میں استقامت، ہر عمل میں تقویٰ، اور ہر تعلق میں حق و عدل ہو۔ اگر ہم یہ عہد کریں اور اس پر قائم رہیں تو عید کا پیغام ہم نے سمجھ لیا اور قربانی کا مقصود ہمیں حاصل ہوگیا۔
عید الاضحی کے بعد کی زندگی کا سب سے اہم تقاضہ یہ ہے کہ ہم اپنی روز مرہ کی زندگی میں بھی اسی جذبۂ قربانی کو زندہ رکھیں، قربانی صرف جانور ذبح کرنے کا نام نہیں، بلکہ اپنے نفس کی خواہشات، دنیا کی ناجائز لذتوں، خود غرضی اور چند روزہ دنیا کے مفادات کو اللہ کی رضا کےلئےچھوڑ دینا بھی قربانی ہے،ہمیں اپنی اس دنیا کی زندگی میں اللہ کی اطاعت اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر سرتسلیم خم کرتے ہوئے ہر قسم کی قربانی کےلئےتیار رہنا چاہئے۔
عید کے دن ہم فقراء و مساکین کو یاد رکھتے ہیں، دور دراز تک گوشت تقسیم کرتے ہیں، دوسروں کے ساتھ خوشی بانٹتے ہیں، پڑوسیوں کے حقوق کا خیال رکھتے ہیں ،لیکن عید کے بعد کیا ہم بھوکوں کو کھلاتے ہیں، بیماروں کی تیمارداری کرتے ہیں، یتیموں کے سر پر ہاتھ رکھتے ہیں،عام انسانوں کے حقوق کا پاس رکھتے ہیں، مسلمانوں کی جان و مال اور عزت وآبرو کی حفاظت میں آگے بڑھتے ہیں،اگر عید کے بعد ان باتوں کا خیال نہ پیدا ہو، تو ہم نے قربانی کی روح کو صرف رسم تک محدود کردیا۔ اصل قربانی تو حکم الہی کی فرمابرادری میں اپنے جذبات قربان کرنا ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنا ہے۔ارشاد ربانی ہے” وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ (الحشر 7)”(اے مسلمانو! )اور رسول تمہیں جو کچھ دیں اسے لے لیا کرو اور جس سے آپ کو روکیں اس سے رک جایا کرو،اور اللہ سے ڈرو ،بے شک اللہ سخت عذاب والا ہے“ ۔
عید کے بعد ہمیں اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ ہماری نمازوں میں پابندی آئی یا نہیں، تقویٰ کا معیار بڑھا یا نہیں، ہمارے دل میں اللہ کی محبت کا نور چمکا یا نہیں، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کا جذبہ موجزن ہوا یا نہیں،اگر عید کے بعد ہم دوبارہ ویسے ہی دنیا میں مگن ہوگئے جیسے پہلے تھے، تو گویا قربانی کی اصل روح ہم سے فوت ہوگئی۔ قرآن کہتا ہے: لَن يَنَالَ ٱللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَآؤُهَا وَلَٰكِن يَنَالُهُ ٱلتَّقْوَىٰ مِنكُمْ ۚ "اللہ کو نہ ان کا گوشت پہنچتا ہے نہ خون، بلکہ اس تک تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔” (سورہ الحج: 37)۔
عید کے بعد کی زندگی میں ہلچل پیدا ہونی چاہئے ،تبدیلی پیدا ہونی چاہئے ،جذبۂ ایثار وقربانی اور حکم خداوندی پر لبیک کہتے ہوئے اپنے تقاضوں کو پیچھے رکھتے ہوئے فرمان الٰہی کے معاملے میں اپنی خودی کو مٹاکر شریعت کے تقاضوں پر دل وجان سے عمل پیرا ہونا چاہئے ،ہمیں انفرادی اور اجتماعی سطح پر اصلاح کی طرف بڑھنا چاہئے،برائیوں کو خود چھوڑنے اور دوسروں میں چھوڑنے کی مہم چلانا چاہئے، سچائی کو خود اپنانا اور لوگوں میں صدق و صفا کا ماحول بنانا چاہئے، لوگوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے، والدین کی خدمت، رشتہ داروں سے تعلق جوڑنے، اور اپنے اخلاق و کردار کو سنت مطہرہ کے تابع بنانا چاہئے۔
یاد رکھیں!!!
یہ زندگی نبی کریم ﷺ کی سنت کے مطابق بنانا ہی اصل کامیابی ہے ،اورویہی قربانی کا مقصود ہے۔ اگر ہم یہ سب نہیں کر رہے تو جانور کی قربانی محض ایک رسم بن کر رہ جائے گی ۔
عید ہمیں سکھاتی ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے خواب میں بیٹے کو ذبح کرنے کا حکم سنا اور فوراً اطاعت کی راہ پر نکل پڑے۔ آج ہم پر بھی وقتاً فوقتاً کئی قسم کے امتحانات آتے ہیں، کیا ہم بھی اطاعت کا ایسا ہی نمونہ پیش کرتے ہیں، اگر نہیں تو ہمیں اپنی بندگی کا از سر نو جائزہ لینا چاہئے۔
یہ بھی یاد رہے کہ قربانی کے موقع پر اتحاد و یگانگت ،بھائی چارے اور محبت کا جو ماحول پیدا ہوتا ہے، وہ صرف چند دنوں تک محدود نہ رہے، عید کے بعد بھی ہمارا معاشرہ اسی محبت و ہمدردی اور رواداری کی خوشبو سے معطر رہے، ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھنا ، جھوٹ و غیبت،حسد وبدخواہی اور آپسی منافرت سے بچنا، اور دین کی سربلندی کے لئے باہم تعاون کرنا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں عید الاضحی کی اصل روح کے مطابق اپنی زندگیوں کو سنوارنے، نفس کی قربانی دینے، اور دل وجان سے دین و امت کی خدمت کےلئے اٹھ کھڑے ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔

آمین یا رب العالمین۔

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔